تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     08-09-2021

پاک بحریہ کا آپریشن سومنات اور غازی آبدوز

1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان بحریہ نے سمندری حدود کا دفاع کیا اور کمال کامیابی سے کیا۔ سمندروں کے سینے میں وہ عظیم اور لازوال قربانی کی داستانیں رقم ہوئیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ پاک بحریہ کا کردار اس جنگ میں امر ہوگیا اور بحریہ کے شہیدوں اور غازیوں نے بحری سرحدوں کا ناقابلِ تسخیر ہونا ثابت کیا۔ رن آف کچھ اور آپریشن جبرالٹر کے بعد جنگ کے خدشات کئی گنا بڑھ گئے تھے‘ اس لیے پاک بحریہ پوری طرح لڑائی کے لیے تیار تھی۔ سمندروں میں پٹرولنگ جاری تھی تاکہ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ سب سے پہلے آبدوز غازی کو پانیوں میں اتارا گیا‘ یہ اس وقت کی جدید ترین آبدوز تھی جس کو 1963ء میں بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ 28تارپیڈوز (آبی گولے) فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ اس ایک آبدوز اور اس کے عملے نے پورے بھارت کی نیوی کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ غازی زیرِ آب بارودی سرنگیں بھی بچھا سکتی تھی‘ اس لئے بھارتی اپنے جہازوں کے قریب اس کی موجودگی کو لے کر سخت پریشان تھے اور آگے پیش قدمی سے قاصر تھے۔ غازی کو ممبئی کے پاس تعینات کیا گیا تھا اور یہ پورے بھارت کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بنی ہوئی تھی۔
وکرانت بھارت کا ایک بڑا بحری جہاز تھا؛ تاہم 1965ء کی جنگ میں وکرانت بھی بھارت کے کام نہیں آسکا کیونکہ غازی آبدوز نے وکرانت کو ممبئی تک ہی محدود کر کے رکھ دیا تھا۔ 8 ستمبر کو پاک بحریہ کی طرف سے بھارت کے ساحلی علاقے دوارکاکے خلاف آپریشن سومنات کا آغاز کیا گیا۔ اس آپریشن کا نام سومنات اس لیے رکھا گیا کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کرکے جس سومنات مندر کو فتح کیا تھا‘ وہ اسی علاقے میں موجود تھا۔ بار بار حملوں کے بعد ہی محمود غزنوی کو کامیابی ملی تھی۔ پاک بحریہ یہی ماٹو لے کر چلی اور مسلسل حملوں سے بھارت کے دانت کھٹے کردیے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی آبی بیڑا بہت بڑا تھا لیکن ان کے پاس جوش و جذبۂ ایمانی نام کی کوئی طاقت نہیں تھی۔
دوارکا‘ جس کا کراچی سے فاصلہ 210ناٹیکل میل ہے‘ پر نصب ریڈار بھارتی ایئرفورس کو کراچی پر حملوں کیلئے مسلسل آگاہی دے رہا تھا‘ اس لیے اسے ٹارگٹ کرنا اور یہ فضائی ریڈار اور سٹیشن تباہ کرنا ملکی سلامتی کے لیے لازم ہوگیا تھا۔ آپریشن سومنات اسی لیے پلان کیا گیا کہ دوارکا پر حملہ کرکے بھارت کو سبق سکھایا جائے کیونکہ کراچی شدید فضائی حملوں کی زد میں تھا۔ایک طرف آبدوزغازی نے ممبئی کو مفلوج کررکھا تھا تو دوسری جانب پاکستانی بحری بیڑے نے دوارکا پر حملے کی ٹھان لی۔ آپریشن سومنات اس حوالے سے بھی ایک منفرد آپریشن ہے کہ یہ بغیر کسی فضائی مدد کے مکمل کیا گیا۔ نیوی کے جنگی جہاز 6 ستمبر کو جب مشن پر روانہ ہوئے تو انہیں ایک بھارتی لڑاکا جہاز تلوار نظر آیا لیکن یہ پاکستانی بیڑے کو دیکھ کو بھاگ کھڑا ہوا۔ جب یہ بحری جہاز روانہ ہوئے تو انہیں آپس میں کمیونیکیشن کرنے اور سگنلز بھیجنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ دشمن کی فوج اس سے چوکنا ہوجاتی۔ 8 ستمبر کو نصف شب‘ 12 بج کر 26 منٹ پر حملے کا حکم موصول ہوا اور پاکستانی جہازوں نے وہ گولے داغے کہ پورا دوارکا ہل کر رہ گیا۔ ریڈار سٹیشن اڑا دیا گیا اور ساتھ ہی بھارتی بحریہ کا ہوائی اڈا بھی تباہ ہو گیا۔ اس حملے میں دو بھارتی افسر اور تیرہ سپاہی ہلاک ہوئے۔ دوارکا کا ریڈار سٹیشن اور بحری اڈا تباہ ہونے کے بعد کراچی پر بھارتی فضائی حملے بھی رک گئے۔ پاکستانی جہاز اور آبدوز کامیابی سے آپریشن مکمل کرکے لوٹ آئے۔ دوارکا کے معرکے سے نفسیاتی طور پر پاکستان بھارت پر برتری لے گیا اور پھر اس کی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ بحیرہ عرب کے ساحل پر کوئی پیش قدمی کرپائے۔ نیوی کے کیپٹن (ر) احمد ظہیر کہتے ہیں کہ نیول انٹیلی جنس نے اس ضمن میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہمارے فلیٹ جہاز اور آبدوز پانی میں موجود تھے۔ پاک بحریہ حملہ کیلئے تیار تھی کیونکہ کراچی پر حملے کی انٹیلی جنس رپورٹس موجود تھیں۔ ہم مسلسل پٹرولنگ کررہے تھے، سویلین و فوجی تنصیبات کے ساتھ عسکری نقل و حمل کی حفاظت پر بھی مامور تھے۔ 4 ستمبر سے آبدوز غازی پانی میں موجود تھی اور 5 ستمبر سے یہ ممبئی کے ساحل پر تھی۔ 7ستمبر کو ہمارے بحری جہازوہاں پہنچے اور آپریشن سومنات کا آغاز ہوا جس کے تحت دوارکا پر حملہ کیا گیا۔
پاکستانی جہازوں میں سے پی این ایس بابر،خیبر، بدر، جہانگیر، عالمگیر، شاہ جہاں اور ٹیپو سلطان جہاز وہاں گئے تھے۔ اس بحری قافلے کو کموڈور ایس ایم انور کمانڈ کررہے تھے۔ دوسری طرف آبدوز غازی نے بھارتی جہازوں پر جو حملے کیے‘ ان سے جہازوں کو جزوی نقصان تو پہنچا مگر یہ پوری طرح تباہ نہیں ہوئے؛ تاہم اس کی ہیبت بھارت کے دل میں ایسی بیٹھی کہ تمام بھارتی نیوی ممبئی کے ساحلوں تک سمٹ کر رہ گئی تھی۔ پاکستان بحریہ نے مرچنٹ نیوی کے جہاز باغ کراچی کی بھی حفاظت کی‘ یہ عدن گلف سے آرہا تھا اور اس میں اردن سے ایئر فورس کے میزائل آرہے تھے۔ بابر‘ خیبر اور جہانگیر جہازوں نے ان کی حفاظت کی۔ ایڈمرل (ر)احمد تسنیم ( ہنگور ڈے کے ہیرو) اس وقت آبدوزغازی میں موجود تھے۔ غازی کی کمانڈ کمانڈر کرامت کے پاس تھی۔ لیفٹیننٹ کمانڈر احمد تسنیم‘ جو بعد میں ایڈمرل بنے‘ سیکنڈ اِن کمانڈ تھے۔ جنگِ ستمبر میں پاک نیوی کے کمانڈر نیازی، لیفٹیننٹ کمانڈر احمد تسنیم، لیفٹیننٹ زی ایم خان اور لیفٹیننٹ فصیح بخاری کا کردار نہایت اہم رہا۔
وائس ایڈمرل (ر) احمد تسنیم کہتے ہیں کہ وہ اور ان کا عملہ رن آف کچھ کے ایریا میں پیٹرول کرتے رہے‘ اس کے بعد ہم غازی میں ممبئی کے قریب چلے گئے۔ ان کے مطابق: تینوں افواج میں کوآرڈی نیشن بہت اچھی تھی۔ 6 ستمبر کو ہم ممبئی کے باہر موجود تھے لیکن غازی کی موجودگی کی اطلاع کے باعث بھارتی جہاز باہرہی نہیں آئے۔ البتہ دوارکا آپریشن کے بعد کچھ جہاز باہر نکلے تھے۔1965ء کی جنگ میں ترکی‘ ایران‘ انڈونیشیا اور سعودی عرب کی جانب سے بھی پاکستان کو خاصی معاونت میسر تھی۔ ہمارے سفارتی تعلقات پوری دنیا سے بہت اچھے تھے۔ انڈونیشیا کی آبدوز کی وجہ سے بھی بھارت غازی کو نہیں ڈھونڈ پایا تھا۔ اس وقت ریجن میں صرف پاکستان اور انڈونیشیا کے پاس ہی آبدوزیں موجود تھیں۔ ہم 12 ستمبر کو واپس آئے‘ اس کے بعد دوبارہ پانی میں گئے، 22 ستمبر کو تارپیڈو فائر کئے جن سے بھارتی جہازوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ 26 ستمبر کو ہم واپس پاکستان آگئے۔ 1965ء میں ہم نے غازی میں کافی وقت گزارا۔ پیٹرولنگ اگست میں ہی شروع ہو چکی تھی؛ تاہم جنگ کے دوران ہم تیس دن تک آبدوز میں ہی رہے۔ اس وقت آبدوزیں اتنی جدید نہیں ہوتی تھیں‘ نہ ہی ان میں اتنی سہولتیں ہوتی تھیں۔ زیرِ آب اندھیرے میں رہنا ایک مشکل کام تھا، وہاں کوئی روٹی اور گرم کھانا نہیں ہوتا تھا۔ اپنی بیٹری کو زیادہ دیر تک بچائے رکھنے کے ہم کوشش کرتے تھے کہ چولہا نہ جلائیں، پھر پانی بھی بہت کم ہوتا تھا؛ تاہم سب کے حوصلے بلند تھے اور سب نے خون کے آخری قطرے تک ملک کی دفاع کی قسم کھا رکھی تھی۔ صبح کے وقت ہم سب میرین میں سفید لائٹ آن کرتے تھے‘ شام کو سرخ لائٹ تاکہ تمام سب میرینز ہشاش بشاش رہیں۔ کبھی فشنگ نیٹس آبدوز میں آجاتے تو سب میرینز ڈائیو کرکے انہیں کاٹ دیتے تھے۔ سب میرین میں رہنا آسان نہیں ہوتا۔
وطن سے سینکڑوں میل دور جاکر پاک بحریہ نے آپریشن سومنات کامیابی سے مکمل کیا اور دشمن کو وہ سبق سکھایا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ اسی طرح دسمبر 1971ء میں پاکستانی آبدوز ہنگور نے بھارتی نیوی کے جہاز فریگیٹ ککری کو غرقاب کردیا تھا۔ اس میں بھارت کے 18 افسر اور 176 سیلرز مارے گئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی آبدوز نے بڑے جنگی بحری جہاز کو تباہ کردیا ہو۔ ہنگور نے بھارتی بحری جہاز کرپان کو بھی مفلوج کردیا تھا۔ پاک بحریہ آج بھی سمندری سرحدوں کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہے‘ نیول ڈپلومیسی سے یہ پاکستان کو دنیا کے دیگر ممالک کے قریب لارہی ہے۔ اس سال ہونے والی پاک بحریہ کی امن مشقیں اس کی واضح مثال ہیں جن میں 45 ممالک نے شرکت کی تھی۔ پانی کے سپاہیوں کو پوری قوم کا سلام!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved