تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     08-09-2021

جھوٹے مقدمات کی روک تھام کیسے؟

یومِ آزادی کے موقع پر گریٹر اقبال پارک میں پیش آنے والے واقعے کے بعد پولیس پر موجود دباؤ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ اِسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ اِس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں سینکڑوں نوجوانوں کو پکڑ کر بند کر دیا گیا ہے۔ اب یہ بعد کی بات رہی کہ اِن میں سے کتنے قصور وار اور کتنے بے قصور ٹھہرے۔ جو پکڑے جانے والے بعد ازاں بے قصور جان کر رہا کیے گئے‘ کیا یہ الزام کبھی اُن پر سے ہٹ سکے گا؟ اب یہ بھی ہورہا ہے کہ کوئی بھی خاتون جا کر شکایت کرتی ہے کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو فوری مقدمہ درج ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادتی کے حوالے سے کیسز کہیں زیادہ تعداد میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بے شک انتظامی اداروں کی پھرتیوں کے باعث خواتین کو ہراساں کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن اِن حالات کا ایک دوسرا پہلو بھی سامنے آرہا ہے۔
گزشتہ پانچ روز میں لاہور میں زیادتی کے 29 مقدمات درج ہوئے۔ ایسے میں یہ سوچ لازمی ذہن میں ابھرتی ہے کہ کیا خواتین کو ہراساں کرنے والے اتنے ہی بے خوف ہوگئے ہیں کہ اُنہیں قانون کا کوئی ڈر رہا ہے نہ اخلاقیات کا پاس۔ صرف چند رو ز کے دوران زیادتی کے اتنے زیادہ مقدمات۔ کیا یہ سب کچھ اُس خطے میں ہورہا ہے جہاں بدمعاش بھی خواتین کو دیکھ کر اپنی نظریں نیچی کرلیتے تھے۔ کسی کے ساتھ جتنی مرضی دشمنی ہوتی لیکن اُس کے گھر کی خواتین کا احترام کیا جاتا تھا۔ یہ سوچ سوچ کر دل دہلتا ہے کہ اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ پارکوں میں موجود خواتین محفوظ ہیں نہ راہ چلتی خواتین۔ اگرچہ یہ اچھی بات ہے کہ انتظامی ادارے خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز کے حوالے سے بہت حساس دکھائی دے رہے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے؟
حالیہ دنوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے انتہائی تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے، صرف لاہور میں بے شمار ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جو مخصوص طبقے کی طرف سے درج کرائے گئے تھے۔ چند روز پہلے لاہور کے علاقے گجر پورہ میں دولڑکیوں سے زیادتی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوا‘ جس پر متعدد افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے لیکن جب میڈیکل رپورٹ سامنے آئی تو اُس میں کافی مختلف حقائق بیان کیے گئے تھے۔ اسی طرح لاہور کے علاقے غالب مارکیٹ کے ایک ہوٹل میں ایک لڑکی سے زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوا‘ مقدمہ بھی درج ہوگیا لیکن جب تفتیش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ واقعہ وہ نہیں تھا جو بتایا جا رہا تھا، اصل حقیقت کچھ اور تھی۔ اِسی طرح کے کچھ مزید واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
جب کسی کے خلاف کوئی جھوٹا مقدمہ درج ہوجاتا ہے تو پھر اُسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے طویل طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے اور اس میں اچھے خاصے سرمایے کے ساتھ طویل وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ دوسری طرف جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کی سزا قانون میں انتہائی کم ہے۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ جھوٹے مقدمات کی شرح کم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ ایک آنکھوں دیکھا واقعہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں۔ 21 مارچ کو لاہور کے ایک رہائشی کے خلاف قصور میں جھوٹا مقدمہ درج کرایا جاتا ہے۔ مدعی کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملزم نے اپنے بھتیجے کے ساتھ مل کر مدعی اور اُس کے سسر کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ہوائی فائرنگ کی۔ دونوں ملزمان مدعی کے سسر کو اغوا کرکے ساتھ لے گئے۔ اندازہ لگائیے کہ یہ کتنی سنگین دفعات ہیں۔ پولیس نے مقدمے میں نامزد ایک شخص کو گرفتار کرلیا۔ وہ تو اِس کی خوش قسمتی رہی کہ متعلقہ ڈی پی او اِس تمام کیس سے بخوبی آگاہ تھے جن کی فوری کارروائی کے باعث یہ شخص کسی بڑی مشکل میں گرفتار ہونے سے بچ گیا۔ دوسری جانب جب پولیس نے مدعی کے گھر پر چھاپہ مارا تو 'مغوی‘ کو وہاں سے برآمد کیا گیا۔ مطلب یہ کہ یہ تمام ڈرامہ مقامی تھانے کی ملی بھگت سے رچایا گیا تھا لیکن نامزد افراد کی خوش قسمتی رہی کہ متعلقہ ڈی پی او صاحب نے فوری ایکشن لے لیا۔ اب اگر ڈی پی او تیزی سے حرکت میں نہ آتے تو یہ دونوں افراد شاید ابھی تک جیل میں ہی گل سڑ رہے ہوتے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ایسا کوئی وقوعہ رونما ہی نہیں ہوا۔ مقدمے میں نامزد افراد کو بھی بے گناہ قرار دیا جاچکا ہے لیکن مقدمہ ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا جارہا ہے۔ کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی اِس کی اخراج رپورٹ جاری نہیں ہوسکی۔ نامزد کیے جانے والے افراد کو اب تک تھانے کچہریوں کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں، اندازہ لگائیے کہ بے گناہ ہونے کے باوجود یہ دونوں کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ جھوٹے مقدمات کا اندارج تو ایک روایت بن چکی ہے۔ جس شخص کو سبق سکھانا ہو‘ تھانے کے ساتھ معاملہ طے کریں اور جس نوعیت کا چاہیں مقدمہ درج کرا دیں۔ ایک بار مقدمہ درج ہو جائے تو نامزد افراد رُل کر رہ جاتے ہیں۔
اب دوسری طرف یہ دیکھتے ہیں کہ قانون جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کو کیا سزا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے ہزاروں مقدمات ہیں جن میں نامزد ملزمان سالہا سال جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔ طویل عرصے کے بعد اعلیٰ عدلیہ عدم ثبوت کی بنا پر اُنہیں بری کردیتی ہے۔ کیا اِن افراد نے جو وقت جیل میں گزارا ہوتا ہے، اُس کا کوئی مداوا ہوسکتاہے؟کیا اِن کی زندگیوں کے ضائع ہونے والے وقت کو واپس لوٹایا جاسکتا ہے؟قانون میں دفعہ 182 موجود ہے جس کے تحت ایسے افرادکے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے جنہوں نے کسی کے خلاف کوئی ایسا مقدمہ درج کرایا ہو جو بعد میں جھوٹا ثابت ہوا ہو۔ ایک تخمینے کے مطابق ہمارے ملک کی ماتحت عدلیہ میں سنگین نوعیت کے محض تین درجن کے قریب ہی ایسے کیسز ملتے ہیں جن میں جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان تمام کیسز میں کسی ایک شخص کو بھی تین ماہ سے زائد سزا نہیں ہوئی۔ مخالفین کے خلاف سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے انہیں شدید اذیت کا شکار رکھا گیا‘ حوالات اور جیل کی سیر کرائی گئی مگر جب یہ ثابت ہوگیا کہ یہ مقدمات جھوٹے تھے تو مقدمات درج کرانے والوں میں سے کسی کو بھی تین ماہ سے زائد کی سزا نہیں ہوسکی۔ اس کی وجہ شاید ایک قانونی سقم ہے جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کے خلاف قلندرہ بنا کر علاقہ مجسٹریٹ کو بھیجا جاتا ہے جس کے پاس اختیار ہی تین ماہ قید تک کی سزا دینے کا ہوتا ہے۔ قانون میں اِس کا ذکرتو موجود ہے کہ ایسا مقدمہ‘ جس میں کسی ملزم کو موت کی سزا سنائی گئی ہو یا ہوسکتی ہو‘ اگر جھوٹا ثابت ہوجائے تو مقدمے کے مدعی کو سات سال کے لیے جیل جانا ہوگا یا ایسا مقدمہ‘ جس میں ملزم کو عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہو‘جھوٹا ثابت ہوجائے تو مدعی کو پانچ سال تک کی سزا ہوسکتی ہے مگر آج تک کسی جھوٹے مدعی کو یہ سزائیں نہیں ہو سکیں۔
ایک اور عنصر بھی جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے‘ وہ یہ کہ اگر کبھی کوئی علاقہ مجسٹریٹ دفعہ 182کے تحت کارروائی کرتا ہے تو ملزم مجسٹریٹ کے دائرۂ اختیار کو چیلنج کردیتا ہے جس کے باعث معاملہ لٹک جاتا ہے۔ جس شخص کو کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہو‘ وہ اپنے طور پر سول کورٹ میں ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے لیکن ایسے مقدمات کا فیصلہ ہونے میں بھی سالوں لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جھوٹے مقدمات درج کرانے کا رواج ختم نہیں ہو رہا۔ قانونی سقم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اکثر اپنے مخالفین پر نہایت سنگین نوعیت کے جھوٹے مقدمات در ج کرا دیے جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی مقدمہ جھوٹا ثابت ہوجاتا ہے تو مقدمہ درج کرانے والے پر بھی انہی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جانا چاہیے جس میں اس نے اپنے مخالفین کو پھنسانے کی کوشش کی تھی مگر یہاں تو لوگ مرتے مرتے بھی مخالفین کے خلاف جھوٹے بیانات دے جاتے ہیں‘ باقی کیا رہ جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved