تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-09-2021

اب ہے ’’منزل‘‘ کہاں؟

افغانستان نے اپنی درخشاں روایت برقرار رکھی ہے۔ اس خطے کو سلطنتوں یا عالمی طاقتوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔ اِس میں غلط کیا ہے؟ برطانیہ نے بہت کوشش کی کہ کسی طور افغانوں کو سَر جھکانے پر مجبور کرے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ غیر معمولی جانی نقصان کے بعد بھی برطانیہ افغانوں کو اپنا مطیع بنانے میں ناکام رہا اور اِس کا پچھتاوا بھی رہا۔ اور سابق سوویت یونین کی افواج کا جو حشر افغانستان میں ہوا وہ بھی دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کو افغان سرزمین پر ہونے والی شکست نے مکمل شکست و ریخت کے مرحلے تک پہنچایا۔ سوویت یونین کی تحلیل کا افغان مجاہدین نے کریڈٹ بجا طور پر لیا۔ امریکا یہ سمجھ رہا تھا کہ سابق سوویت یونین کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد وہ مجاہدین سے جان چھڑا لے گا۔ طالبان کی شکل میں جب مجاہدین نے افغانستان میں حکومت قائم کی اور اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرنے لگے تب امریکا اور یورپ‘ دونوں ہی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجی۔ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ طالبان کی شکل میں افغانستان خطے کے دیگر مسلم ممالک کے لیے ایک بڑے نمونے کی حیثیت اختیار کرتا جارہا تھا‘ لہٰذا یہ سلسلہ روکنا لازم تھا۔ اسی لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بہانہ تراشا گیا اور جنگ کا جواز پیدا کرنے کے لیے امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کو حملے کرائے گئے۔ پھر ان حملوں کو بنیاد بناکر امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑی اور جنگ کے نام پر تباہ حال افغانستان کو دبوچنے کا عمل شروع ہوا۔ افغانستان کو دبوچنے کا مطلب تھا پورے خطے میں شدید نوعیت کا عدم استحکام پیدا کرنا اور تعمیر و ترقی کے عمل کو داؤ پر لگانا۔
میری نظر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا اور یورپ نے مل کر چین کی راہ روکنے کی کوشش کی۔ چین اور روس کی ابھرتی ہوئی قوت امریکا اور یورپ کو کسی طور گوارا نہ تھی۔ اُن کے پاس افغانستان کو بنیاد بناکر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ چھیڑنے اور اِس جنگ کی آڑ میں پورے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار رکھنے کے سوا کوئی راہ نہیں بچی تھی۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مغربی طاقتوں نے مل کر پورے ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار رکھنے کی خاطر افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ بے حِسی، کم ظرفی اور انسان دشمنی کی انتہا یہ تھی کہ سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد دس سال کے دوران جاری رہنے والی جنگ کے نتیجے میں راکھ کا ڈھیر بن جانے والے افغانستان کو مادّی ترقی سے کماحقہٗ ہم کنار اور بے مثال عسکری قوت کے حامل مغرب کے لیے خطرہ قرار دیا گیا اور پھر اس نام نہاد خطرے کو ختم کرنے کی خاطر جدید ترین ہتھیاروں کی آزمائش کی گئی۔ دو عشروں تک یہ سب کچھ ہوتا رہا اور پوری دنیا انتہائی صرف تماشا دیکھتی رہی۔
امریکا کو بھی افغانستان سے ناکام و نامراد نکلنا پڑا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں چین اور روس کو کنٹرول کرنے کا مقصد بھی پوری طرح حاصل نہ کیا جاسکا۔ ایران اور ترکی کو بھی دبوچنے میں امریکا اور اس کے مغربی اتحادی مکمل طور پر ناکام رہے۔ پاکستان کا محلِ وقوع جس قدر اہم ہے‘ اُسی قدر پریشان کن بھی ہے۔ چین، روس اور وسطِ ایشیا کی ریاستیں پاکستان کو گیٹ وے کے طور پر بروئے کار لانا چاہتی ہیں۔ یہ مقصد بہت پہلے حاصل ہوسکتا تھا مگر امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان میں قدم جمائے اور افغانوں پر ایک ایسی جنگ مسلط کی جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ اس کے نتیجے میں پورے خطے میں پیدا ہونے والے شدید عدم استحکام سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرے تک پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہا۔ اس کے نتیجے میں وہ سب کچھ نہ کیا جاسکا جو ملک کو سیاست و معیشت اور سٹریٹیجک معاملات میں آگے لے جانے کے لیے لازم تھا۔ چین اور روس کے لیے بھی ممکن نہ تھا کہ پاکستان سے زیادہ اشتراکِ عمل ممکن بنائیں۔ حالات بالخصوص روس کے لیے زیادہ پریشان کن رہے۔
''افغان مشن‘‘ کے حوالے سے امریکا کے لیے زیادہ پریشان کن گھڑی وہ تھی جب اُس نے دیکھا کہ اُس کے اپنے آنگن میں خرابیاں پھیل رہی ہیں۔ داخلی سلامتی کا محکمہ اور ایسے ہی چند دوسرے ادارے قائم کرکے شہری آزادیوں پر قدغن لگانے کے حوالے سے کی جانے والی متعدد کوششیں بیک فائر کرگئیں۔ امریکا کی متعدد ریاستوں میں جنگ مخالف جذبات پیدا ہوئے اور یہ عوامی مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ بیرونِ ملک عسکری مہم جوئی کا دائرہ اب محدود کیا جائے اور اگر ممکن ہو تو دور افتادہ خطوں میں جنگیں چھیڑنے سے گریز کیا جائے۔ امریکی عوام بھی اپنی قیادت کی اس روش سے تنگ آچکے ہیں۔ کئی خطوں کو امریکا نے بُری طرح پامال کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکا سے نفرت بڑھی۔ بیسویں صدی کے دوران امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر جو کچھ بھی کیا اُس کے نتیجے میں وہ تمام اہداف و مقاصد مٹی میں مل گئے جو امریکا کے بانیوں نے طے کیے تھے اور جن کا حصول یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کیا جانا تھا۔ امریکیوں کی اکثریت اب یہ چاہتی ہے کہ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے امریکی قیادت ''پیراڈائم‘‘ (بنیادی ڈھانچہ یا سانچہ) تبدیل کرے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرد جنگ شروع ہوئی جس نے امریکا کو دنیا بھر میں طاقت کے مظاہرے جاری رکھنے کا ماحول فراہم کیا اور ساتھ ہی ساتھ اسلحے کی منڈیاں بھی ملتی رہیں۔ اسلحے کی منڈیاں برقرار رکھنے کے لیے لازم تھا کہ مختلف خطوں میں جنگیں اور خانہ جنگیاں جاری رکھنے والے حالات پیدا کیے جاتے رہیں۔ یوں امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر کئی خطوں کو عشروں تک شدید عدم استحکام سے دوچار رکھا۔ امریکیوں کی واضح اکثریت اب کوئی ایسا پیراڈائم چاہتی ہے جس میں عسکری قوت کے بجائے نرم قوت کی بنیاد پر برتری یقینی بنائے رکھنے کی کوشش کی جائے۔
بڑی طاقتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت یقینی بنائے رکھنے کے لیے دوسروں کو کمزور کرنے پر تُلی رہتی ہیں۔ دوسروں سے مراد ہے کمزور ممالک اور پس ماندہ خطے۔ ایشیا اور افریقہ میں امریکا اور یورپ نے کئی ممالک کو عشروں سے قرضوں کے جال میں دبوچ رکھا ہے۔ ان ممالک میں خانہ جنگیوں کی راہ ہموار کرکے ایک طرف تو اسلحے کی منڈی زندہ رکھی گئی اور دوسری طرف وسیع پیمانے پر تباہی کے نتیجے میں ان ممالک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں چھوڑا گیا۔ یہ سب کچھ اس حد تک ہوا کہ اب دنیا بھی دیکھ دیکھ کر تنگ آچکی ہے۔ کئی خطوں کی حالت یہ ہے کہ اُن کے لیے امن اور استحکام کا وجود محض خواب ہوکر رہ گیا ہے۔
امریکا اور یورپ کے پاس اب اس بات کی زیادہ گنجائش نہیں کہ کمزوروں کی قبروں پر اپنے تاج محل تعمیر کرتے رہیں۔ اب دنیا کو تبدیلی چاہیے۔ یہ مطلوب تبدیلی پیراڈائم تبدیل کرنے ہی سے ممکن ہے یعنی امریکا اور یورپ کو مل کر یہ طے کرنا ہے کہ باقی دنیا کو پریشانی سے دوچار رکھنے کے بجائے نرم قوت کے ذریعے امن و استحکام کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خوش حالی و فراوانی ہی سے اپنے لیے زیادہ قوت یقینی بنائی جائے۔ یہ پیراڈائم چین بہت پہلے اپناچکا ہے۔ وہ اپنی افرادی قوت، صنعتی ڈھانچے اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے پورے دنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں لانے اور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت کا اہتمام کرنے میں مصروف ہے۔ چین چاہتا ہے کہ نرم قوت (سافٹ پاور)یعنی علوم و فنون میں پیش رفت، عصری ٹیکنالوجیز، معاشی قوت، سرمایہ کاری وغیرہ کی مدد سے اپنے لیے گنجائش پیدا کی جاتی رہے۔ اُس کا کیس کامیابی کا بہت اچھا اور واضح نمونہ ہے۔ یہی سب کچھ اب امریکا اور یورپ کو بھی کرنا چاہیے تاکہ پس ماندہ خطوں کو ابھرنے اور ڈھنگ سے جینے کا موقع ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کی عسکریت پسندی نے کئی عشروں سے پس ماندہ خطوں کو انتہائی بُری حالت میں رکھا ہوا ہے۔ امریکا کو نئے شکار کی تلاش میں نکلنے یا نئی ''منزل‘‘ تلاش کرنے کے بجائے ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کے آپشن پر غور کرنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved