عربوں کی کہاوت ہے کہ انسان دو طرح کے ہوتے ہیں: فیاض اور بخیل! ایک کہاوت ہمارے ہاں بھی ہونی چاہیے تھی۔ وہ یہ کہ مجاہد اور غازی دو طرح کے ہوتے ہیں۔
ایک قسم مجاہدوں اور غازیوں کی وہ ہے جو اپنے اوپر ایک خراش تک نہیں آنے دیتے‘ دوسروں کے جگر گوشوں کو میدانِ وغا میں بھیجتے ہیں اور اپنے لخت ہائے جگر کو ایٹلانٹک کے اُس پار، نئی دنیا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں۔ ( اس اثنا میں مغربی تعلیم کی تنقیص جاری رکھتے ہیں۔) واپس آ کر ان مجاہدوں اور غازیوں کے یہ فرزندانِ کرام بزنس کرتے ہیں‘ پھلتے پھولتے ہیں‘ دھن دولت کماتے ہیں۔ یہ مجاہد اور غازی ہر وہ کارنامہ سرانجام دیتے ہیں جس میں کسی مالی یا جانی قربانی کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو۔ کاروبار کرتے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی ہیں۔ کشمیر کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں۔ ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی! انگلی تو انگلی ہے ، ناخن تک شہید نہیں ہونے دیتے۔ پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں رکھتے ہیں۔ مجاہد اور غازی بھی کہلواتے ہیں۔
دوسری قسم ان سر فروشوں کی ہے جن کو دنیا سے اتنی ہی غرض ہوتی ہے جتنی مسافر کو سرائے سے۔ یہ دوسروں کو قربانی کے لیے بھیجنے سے پہلے خود میدان میں اترتے ہیں۔ تاریک راتوں میں ان کے ہاتھوں میں چراغ نہ ہوں تو یہ اپنے سروں سے مشعلوں کا کام لیتے ہیں۔ یہ دولت کے انبار نہیں اکٹھے کرتے، زر و سیم اور جاہ و حشم کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتے ہیں۔ یہ نام کے مجاہد نہیں ہوتے، سچے اور اصل مجاہد ہوتے ہیں۔ یہ زندگی کو سنبھال سنبھال کر نہیں رکھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے جان ہر وقت ہتھیلی پر رکھتے ہیں۔ سید علی گیلانی اس دوسری قسم سے تعلق رکھتے تھے۔
علی گیلانی چاہتے تو خود پیچھے رہ کر بھی تحریک برپا کر سکتے تھے۔ چندے اکٹھے کر کے ایک آسان زندگی گزار سکتے تھے۔ لگژری سے بھرپور زندگی! کشمیر اور آزادیٔ کشمیر کے نام پر دورے کر سکتے تھے۔ بزنس کی ایمپائر کھڑی کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے وہ راستہ چنا جو ٹیپو سلطان نے چنا تھا۔ جو امام شامل نے چنا تھا۔ جو نیلسن منڈیلا نے چنا تھا۔ انہوں نے وہ راستہ چنا جو ان کے آبائواجداد نے امویوں اور عباسیوں کے عہد میں چنا! وہ سید تھے۔ سادات کے راستے پر چلے! سادات کا راستہ زنداں کا راستہ ہے یا شہادت کا! کربلا تو محض آغاز تھا! اس کے بعد کیا کیا نہیں ہوا۔ امام حسنؓ کے پوتے امام عبداللہؒ کا انتقال جیل میں ہوا۔ حافظ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ آپ کی موت زنداں میں طبعی نہیں تھی! امام نفس ذکیہؒ کے ایک درجن سے زیادہ قریبی اعزہ کو محبوس رکھا گیا، شہادت کے بعد آپ کا سرِ مبارک کاٹ کر عباسی حکمران کو بھیجا گیا۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ نے امام نفس ذکیہؒ کی حمایت کی تھی۔ امام باقرؒ کو امویوں نے جیل میں ڈالا۔ جب قیدی آپ سے متاثر ہونے لگے تو رہا کر دیا مگر ان کے راستے میں پڑنے والے شہروں کے بازار بند کرا دیے تا کہ اشیائے خور و نوش نہ خرید سکیں۔ امام موسیٰ کاظمؒ کا انتقال جیل میں ہوا۔
علی گیلانی سیّد تھے۔ انہوں نے سیّد ہونے کا حق ادا کیا۔ انہوں نے تخت کا نہیں تختے کا راستہ چنا۔ لوگ سادات سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں مگر سادات کی اتباع نہیں کرتے‘ اس لیے کہ سادات کی سنت سر جھکانا نہیں، سر کٹانا ہے۔ آخری گیارہ سال تو سید علی گیلانی مستقل نظر بند رہے۔ا س سے پہلے بارہا قید رہے۔ ان کی قید اور نظر بندی کا کُل عرصہ انتیس سال پر محیط ہے۔ ایک سال کم تیس سال! نیلسن منڈیلا کا عرصۂ اسیری ستائیس برس بنتا ہے۔ منڈیلا کے لیے ایک دنیا نے شور برپا کیا۔ سید علی گیلانی مسلمان تھے، کشمیری تھے! اس لیے دنیا نے اغماض برتا! بانوے سال کے ضعیف اور نحیف انسان کو بھارتی استعمار نے ہر اس سہولت سے محروم رکھا جو کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ پوتوں اور نواسوں، پوتیوں اور نواسیوں سے نہ ملنے دیا۔ پاسپورٹ معطل رکھا، مواصلات سے، رسل و رسائل سے، ملنے ملانے سے، احباب اور متعلقین سے، غرض پوری دنیا سے کاٹ کر رکھا! یہاں تک کہ فرشتے آئے اور سعید روح کو حفاظت سے لے گئے۔
فرشتے لے چلے سوئے حرم تابوت میرا
کفِ افسوس ملتے رہ گئے بد خواہ میرے
غاصب بھارتی حکومت کے ہاتھ ان کا جسد خاکی لگا۔ رات کے اندھیرے میں تدفین کر دی۔ اعزہ و اقارب کو شریک نہ ہونے دیا۔ جتنے راستے ان کے گھر کو جاتے تھے، سب پر پہرے اور ناکے لگا دیے۔ وفات کے بعد بھی بھارتی حکومت کے خوف کا یہ عالم تھا کہ فوج کی پلٹنوں کی پلٹنیں کھڑی کر دیں۔ اس بزدلانہ حرکت کو علی گیلانی آسمانوں سے دیکھ کر مسکر ائے ہوں گے۔
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
سید علی گیلانی اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے۔ اقبال کبھی نہ بھولے کہ وہ اصلاً کشمیر سے تھے۔
تنم گُلی زخیابانِ جنت کشمیر
دلم ز خاکِ حجاز و نوا، زشیراز است
کہ میرا وجود چمنستانِ کشمیر کا ایک پھول ہے۔ دل حجاز کی مٹی سے اور آواز شیراز سے ہے۔
کشمیر کے بارے میں علامہ کی تشویش اور فکر ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں ہم اُس نظم کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جس کا عنوان ہے ''ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘۔ روایت ہے کہ یہ اشعار پطرس بخاری کے حوالے سے کہے گئے مگر درمیان کے دو اشعار یوں لگتا ہے علامہ نے سید علی گیلانی کو مخاطب کر کے کہے۔
میں اصل کا خاص سومناتی/ آبا مرے لاتی و مناتی
تو سیدِ ہاشمی کی اولاد/ میری کفِ خاک برہمن زاد
جس کشمیر کا نقشہ علامہ نے پیش کیا ہے وہ یہ کشمیر نہیں جو آگ میں جل رہا ہے اور سنگینوں کی زد میں ہے۔
رخت بہ کاشمر کشا، کوہ و تل و دمن نگر
سبزہ جہان جھان ببین، لالہ چمن چمن نگر
باد بہار موج موج، مرغ بہار فوج فوج
صلصل و سار، زوج زوج، بر سر نارون نگر
رخت سفر کشمیر کے لیے باندھ، پہاڑ‘ ٹیلے اور وادیاں دیکھ! ہر طرف سبزہ زار اور ہر باغ گُلِ لالہ سے بھرا ہوا! کیا بادِ بہاری کی لہریں ہیں اور کیا ہی خوبصورت پرندوں کی ڈاریں ہیں! انار کے درختوں پر فاختائیں اور مینا جوڑوں کی صورت میں دیکھ!
سید علی گیلانی کی طویل قید اور قید میں بے بسی کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔ یہ خدا کی سنت ہے۔ اس کے ہاں قربانی اور ایثار کا حساب رکھا جاتا ہے۔ کشمیر پر برستی ہوئی آگ ایک دن پھولوں میں تبدیل ہو گی۔ سیب اور انار کے درخت اُس آنے والے دن جو پھل دیں گے‘ اُن پھلوں تک غاصب بھارتی حکومت کے ہاتھ نہیں پہنچ سکیں گے۔ یہ ہاتھ آج طاقت ور اور لمبے دکھائی دے رہے ہیں مگر یہ ہاتھ ٹوٹ جائیں گے۔ کنول کے خوبصورت پھول کشمیر کی جھیلوں کو ڈھانپ لیں گے۔ انگور کے خوشوں تک صرف کشمیریوں کے ہاتھ پہنچیں گے۔ بنفشی اور ارغوانی رنگ کشمیر کے مہکتے باغوں کو بہشت میں تبدیل کر دیں گے۔ علی گیلانی کی قبر پر پھول کھلیں گے۔ جگنو دیے جلائیں گے۔ کرنیں اتریں گی۔ تتلیاں قبر کا طواف کریں گی۔ آسمان پر لگے ہوئے دریچوں سے علی گیلانی کشمیر کو آزاد ہوتا دیکھیں گے!
چاندنی اور دھوپ کو کبھی کوئی روک پایا ہے؟
خوشبو کو کبھی کوئی ختم کر سکا ہے؟