تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-09-2021

مزید مغالطے

جنرل پرویز مشرف کا بڑا جرم کیا ہے؟ آئین شکنی یا این آر او؟ پردہ دل کا ہوتا ہے یا جسم کا؟ خرابی نظرمیں ہے یا دماغ میں؟ انسان آزاد ہے۔ کیا اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان شترِ بے مہار ہے؟ کیا قومی مفاد، عوامی مفاد سے متصادم ہوتا ہے؟ کیا عوامی نمائندے آئین سازی جیسے معاملات کے بارے میں لاعلمِ محض ہوتے ہیں؟ کیا مذہب اتنا مشکل ہے کہ عام آدمی کو مذہبی ہونے کیلئے تمام عمرمذہبی اشرافیہ کا مطیع رہناہے؟
سیاست اور سماج کے باب میں ان گنت مغالطے جنم لیتے ہیں جب ہم ان سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں۔ یہ ترجیحات ہیں جن کا تعین انسان کا سب سے بڑا نظری مسئلہ ہے یا پھر بعض گروہوں کے مفادات ہیں جو عوام میں غلط فہمیاں پھیلاتے اور انہیں گمراہ کرتے ہیں، خود کو ناگزیر ثابت کرنے کیلئے۔ اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مغالطوں کو موضوع بنائیں اور عوام میں نظری یکسوئی پیدا کریں۔
پہلے سوال ہی کو دیکھ لیجیے۔ کرپشن قانون شکنی سے جنم لیتی ہے۔ آئین قانون کی ماں ہے۔ یہ آئین ہے جوقانون سازی کیلئے راستوں اور حدودکا تعین کرتا ہے۔ جب آئین نہیں ہوگا تو قانون سازی کیسی؟ قانون نہیں ہوگا تو کرپشن کا ہاتھ کون تھامے گا؟ پھر حکمران ذاتی انتقام لیں گے اوراس کا نام قانون رکھ دیں گے۔ پھرہر آنے والا ایک پی سی او جاری کرے گا اورقانون اس کی شخصی خواہشات کے تابع ہو جائے گا۔ یہ آئین ہے جو قانون کوکسی کے ہاتھوں کھلونا بننے سے روکتا ہے۔
یہ اتنی اہم بات ہے کہ علمِ سیاست کا ایک مبتدی بھی اس سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ اس کی حیثیت مسلمات کی ہے۔ اس پر بحث یا اس سے اختلاف علمِ سیاست سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ آئین سازی میں تاخیر سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ ملک دولخت ہوگیا۔ مجھے شدید حیرت ہوتی ہے جب اعلیٰ ترین سیاسی اورریاستی مناسب پرفائز لوگ اس کے برخلاف نقطہ نظر بیان کرتے ہیں اور وائے افسوس کہ ہماری دانش ان کی تائید میں کھڑی ہو جاتی ہے۔
اس ایک غلطی سے لاتعداد غلطیاں جنم لیتی ہیں۔ مثال کے طور پراسی سے ایک اور خطرناک سیاسی نظریہ پیدا ہوا۔ یہ کہ اقتدارکی اصلاح اصل مسئلہ ہے۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ صالحین کا کوئی گروہ اقتدار تک پہنچ جائے۔ یہ سوال بے معنی ہے کہ وہ بندوق کے زور سے یہاں تک پہنچتا ہے، آئین شکنی سے یا کسی اورذریعے سے۔ یہ دراصل مغرب کے دیے ہوئے سیاسی اصول کی تائید ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ نتیجہ ہے جوغلط اور صحیح کا فیصلہ کرتا ہے (End justifies the means)۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ آپ کون سا طریقہ اختیارکرتے ہیں۔ امریکہ کی ساری جارحیت اسی اصول کے تحت ہوتی ہے۔
اسی طرح کا مغالطہ اس وقت بھی پیدا ہوتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ مرد ہو یا عورت، انہیں شائستہ لباس پہننا چاہیے۔ عوامی مقامات پرایسے نہیں جانا چاہیے کہ آپ اپنی صنفی کشش کو اشتہار بنادیں۔ اس پراعتراض ہوتا ہے کہ خرابی لباس میں نہیں ہے، آپ کی نظرمیں ہے۔ جس طرح آئین مبادیاتِ سیاست کا مسئلہ ہے، اسی طرح مہذب لباس مبادیاتِ اخلاق کا مسئلہ ہے۔ اس کیلئے بھی کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ دنیا کے ہرمعاشرے میں لباس کے آداب ہیں۔ ان کا لحاظ رکھنا کسی کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ اس میں نظروں کی پاکیزگی کہاں آگئی؟
نظر کو پاکیزہ ہونا چاہیے۔ اس میں دوسری رائے نہیں۔ مغالطہ یہ ہے کہ ہم لباس کے آداب اور نظرکی پاکیزگی کو جمع کردیتے ہیں۔ جمع کر نے کے بعد اسے انتخاب کا مسئلہ بنا دیتے ہیں: مہذب لباس یا نظروں کی پاکیزگی؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے آئین شکنی یا کرپشن؟ کرپشن ایک الگ جرم ہے اور آئین شکنی الگ۔ دونوں کی سزائیں آئین اور قانون میں بیان ہیں۔ اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں میں سے سنگین ترجرم کون سا ہے؟ آئین پروری پراصرار کا یہ مطلب نہیں کہ کرپشن کو نظرانداز کردیا یا کرپشن کے خاتمے پراصرار کا یہ مفہوم سمجھا جائے کہ آئین شکنی کوئی کمتر جرم ہے۔
اس مغالطے کو بھی باربار دھرایا جاتا ہے کہ عوامی نمائندے ریاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ وہ لوگ پیش کرتے ہیں جو افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے حامی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی پارلیمنٹ کو موقع ملا، اس نے وفاق اور اس کی اکائیوں کے مابین تعلقات اوروسائل کی تقسیم سے لے کر انفراسٹرکچر کی تعمیرتک، ان گنت مسائل میں شاندار قانون سازی کی۔ قومی ریاست اور مذہبی ریاست کے باہمی تعلق جیسے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک قابلِ تحسین تاریخ ہے جس پر کوئی قوم فخرکر سکتی ہے۔
زندگی ایک اکائی ہے۔ اسی طرح سماج بھی۔ زندگی کو متوازن بنانے کیلئے سماج کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ اس کا پہلا پڑاؤ فکری یکسوئی ہے۔ جس طرح مذہب کی منزل تزکیہ نفس ہے۔ اس سفرکا پہلا سنگِ میل علم کا تزکیہ ہے۔ پہلے مر حلے میں زندگی کے بارے میں تصورات واضح اور پختہ ہوتے ہیں۔ پھران تصورات کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی تدبیر سوچی جاتی ہے۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو اسے پیغمبروں کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سید مسیحؑ کی حیاتِ مبارکہ کا اہم ماخذ اناجیل ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پیغمبر کس طرح پہلے مرحلے پر معاشرے کے تصورات کو درست کرتا۔ یہی معاملہ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کاہے۔ قرآن مجید اس پرگواہ ہے اورسیرت کی کتب بھی۔
معاشروں کا غیرمذہبی مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ سماج کی فکری اصلاح اور اسے مغالطوں سے نکالنا، اصلاحِ احوال کا پہلا باب ہے۔ اسی سے مذہبی اورسیاسی استحصال کا دروازہ بند ہوتا ہے‘ ورنہ کوئی اٹھتاہے اورکسی ایک مذہبی مسئلے کواپنے تئیں امتِ مسئلہ کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر کھڑا ہوجاتا اور پورے سماج کو انتشار میں مبتلا کر دیتاہے۔ کوئی سیاستدان میدان میں نکلتا اور ایک نسبتاً کم اہم مسئلے کو ام المسائل بناکر پیش کرتا اور اپنی چرب زبانی سے لوگوں کو پیچھے لگا لیتا ہے۔
اس ملک میں سیاسی ومذہبی مباحث کی اساس حقیقی نہیں، مفاداتی ہے۔ مفاداتی ان معنوں میں کہ انہیں مختلف گروہوں نے اپنے اپنے مفادات کے تحت قومی ایجنڈا قرار دے رکھا ہے۔ سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع سے عوام کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مفاداتی گروہ ان کے ذریعے عوام کواپنی گرفت میں رکھتے اور انہیں سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیتے۔ افسوس یہ کہ آج اہلِ دانش بھی امام نہیں، مقتدی ہیں۔ وہ بھی اس جاری عمل سے بلند ہوکر اصل مسائل کی نشاندہی نہیں کرتے، الا ما شااللہ۔
اس ملک میں کوئی سیاسی عمل مثبت انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک آئین کی بارے میں وہ حساسیت پیدا نہیں ہوتی جواس کی خشتِ اوّل ہے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت سمجھتی ہے کہ کرپشن ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دوسری ووٹ کے تقدس کواور تیسری کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ اسی طرح تہذیب کے باب میں جب تک اخلاقی اقدار کے بارے میں لوگ حساس نہیں ہوں گے، لباس اوراس نوع کے دوسرے امور کے حوالے سے خیالات کی پراگندگی باقی رہے گی۔ یہ فحاشی کی تعریف جیسی لایعنی بحثیں اسی لیے ہیں۔ فحاشی کی سادہ تعریف یہی ہے کہ جسے سماج کا اخلاقی نظام قبول کرنے سے اِبا کرے۔ کیا کوئی لبرل اس تقسیم سے اختلاف کرسکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved