افغانستان میں طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کر دیا۔ عبوری حکومت میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور طالبان کے بانی امیر ملا محمد عمر کے دور کے چہروں کو واپس لایا گیا ہے۔ یہ چہرے اس لیے نئے ہو سکتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے دوران جوان ہونے والی نسل انہیں جانتی نہیں ہے اور نہ جاننے کی وجہ ان کا دنیا سے روپوش رہنا ہے‘ اور روپوشی کے دوران زندہ رہنے کی بھی ایک جدوجہد تھی۔ طالبان نے حکومت بناتے ہوئے اپنی اساس سے بھی انحراف نہیں کیا اور دنیا کے کچھ مطالبات کو مدِ نظر بھی رکھا لیکن چند ایسے اقدامات بھی کئے جو میرے خیال میں دنیا کو پسند نہیں آئیں گے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں ملا محمد حسن کی‘ جنہیں وزیر اعظم نامزد کیا گیا ہے۔ ملا محمد حسن طالبان کی رہبر شوریٰ کے سربراہ بھی ہیں اور سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ سمیت تمام طالبان ان کا احترام کرتے ہیں۔ ملا محمد حسن پچھلے دور میں وزیر خارجہ اور پھر نائب وزیر اعظم بھی رہے، اس طرح دیکھا جائے تو افغان طالبان نے دوبارہ بانی امیر ملا محمد عمر کے دور سے‘ جہاں ڈور ٹوٹی تھی، وہیں سے سلسلہ جوڑا ہے اور اپنی اساس سے بالکل نہیں ہٹے۔ جہاں تک دنیا کے مطالبات ماننے یا ان پر دھیان دینے کی بات ہے تو مرکزی حکومت میں ملک کی دو بڑی نسلی اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی ہے، نائب وزیر اعظم دوم عبدالسلام حنفی نسلی طور پر ازبک ہیں جبکہ دین محمد حنیف بھی کابینہ کا حصہ ہیں اور نسلی طور پر تاجک ہیں، یہ دونوں شخصیات طالبان کے دوحہ دفتر کا حصہ رہیں اور اس حیثیت سے امریکا اور دنیا بھر کی اہم شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں اور مذاکرات کا بھی حصہ رہی ہیں۔ ان دونوں کو کابینہ میں جگہ دے کر نمائندہ حکومت کی ایک شرط تسلیم کی گئی ہے۔
ایک اور مطالبہ کابینہ میں خواتین کی نمائندگی تھا، اس مطالبے کو فوری طور پر پورا نہیں کیا گیا اور ذبیح اللہ مجاہد‘ جنہیں نائب وزیر اطلاعات بنایا گیا ہے، نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ ابھی کابینہ حتمی نہیں اس لیے ابھی اس سوال اور جواب کی نوبت نہیں آئی۔ مجھے یہ تو علم نہیں کہ حتمی کابینہ سے کیا مراد ہے کیونکہ وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت 33 رکنی کابینہ کا اعلان کیا گیا ہے‘ کیا اس میں توسیع ہوگی یا پھر یہ مستقل حکومت کے متعلق بات ہو رہی ہے۔ مستقل حکومت کے بارے میں بھی بات کرنا ضروری ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ حکومت چھ سے آٹھ ماہ کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس عرصہ میں لویہ جرگہ، جو افغانستان میں ہمیشہ سے سپریم ادارہ تصور کیا جاتا رہا ہے، کی تشکیل ہو گی اور لویہ جرگہ حتمی یا مستقل حکومت کی تشکیل کرے گا۔
ملا ہیبت اللہ اخوند کے متعلق ذبیح اللہ مجاہد کی پریس بریفنگ میں کچھ بھی نہیں کہا گیا اور اس کا کسی نے سوال بھی نہیں کیا؛ البتہ ان کے متعلق افواہیں گردش کر رہی ہیں اور ان کی زندگی کے متعلق غیر مصدقہ خبریں پھیلائی جاتی رہی ہیں۔ اس پریس بریفنگ میں وضاحت آ جاتی تو اچھا تھا‘ لیکن اس میں ان کی اپنی کوئی حکمت ہو سکتی ہے کیونکہ ملا عمر کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ 2013ء میں انتقال کر گئے تھے لیکن دو سال تک ان کے انتقال کی خبر چھپائی گئی۔ میں افواہوں کی تصدیق نہیں کر رہا اور دعا ہے کہ ملا ہبت اللہ خیریت سے ہوں لیکن اس موقع پر ان کا ذکر نہ کرنا کئی سازشی نظریات کو جنم دے رہا ہے۔
طالبان کی حکومت میں سراج الدین حقانی کو وزارت داخلہ دی گئی ہے جبکہ حقانی خاندان کو مزید تین وزارتیں بھی دی گئی ہیں۔ سراج حقانی کو امریکا نے مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل رکھا، عبوری حکومت میں انہیں شامل کر کے طالبان نے غالباً یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں امریکا اور ان کے اتحادیوں کی پابندیوں کی پروا نہیں، ان سے جس نے بھی معاملات کرنے ہیں اسے معاملات غیر مشروط رکھنا ہوں گے۔ آزاد حکومت کا پیغام اپنی جگہ لیکن اس سے امریکا اور اتحادیوں کے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔ امریکیوں نے بار بار یہ کہا کہ وہ طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کریں گے لیکن ان کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت جاری رہے گی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس اتوار کو قطر کا دورہ کیا‘ جہاں قطری حکام کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ طالبان دوحہ دفتر سے بھی ان کی بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت کا مقصد امریکی شہریت رکھنے والوں کے لیے کابل ایئرپورٹ سے چارٹرڈ پروازوں کا معاہدہ تھا، اطلاعات کے مطابق طالبان نے اس کی ہامی بھری ہے لیکن ابھی معاہدہ نہیں ہوا۔ اب سراج حقانی کو شامل کئے جانے کے بعد امریکا کے لیے طالبان کے ساتھ کھلے رابطے مشکل کا باعث بن سکتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کو اندرونی طور پر اور اتحادیوں کی طرف سے دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے ہی دنیا بھر کے اہم دارالحکومتوں میں اس سوال پر سر کھپائی ہو رہی تھی کہ طالبان کی حکومت تسلیم کی جائے یا نہیں؟ لیکن فیصلہ اس لیے بھی ممکن نہ تھا کہ حکومت کی کوئی شکل ہی سامنے نہیں آئی تھی، اب عبوری حکومت کے لیے وزیر اعظم اور کابینہ کے ناموں کے اعلان کے بعد فیصلے میں کچھ آسانی ہو سکتی ہے‘ لیکن معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ امریکا کا سب سے بڑا اتحادی برطانیہ بھی واشنگٹن کی لائن لیے ہوئے ہے کہ طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کی جا سکتی لیکن کچھ امور پر ان سے بات ہو سکتی ہے۔
روس نے زیادہ محتاط رویہ رکھا ہے، طالبان کی حکومت تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا کوئی بھی بیان دینے کے بجائے کریملن کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حالات پر نظر رکھیں گے، اگر طالبان تنہائی سے بچنا اور قوموں کے خاندان کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو انہیں مہذب برتاؤ کرنا ہو گا۔ روس کی ڈیمانڈ یا شرائط اب تک طالبان پوری کر رہے ہیں اور کسی بھی معاملے پر روس نے تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ چین اس حوالے سے سب سے زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات چاہتا ہے؛ تاہم ابھی تک ان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں ہوا، اب نئی حکومت کے آئندہ ہفتے حلف کے بعد چین کی طرف سے کوئی اہم اعلان ہو سکتا ہے۔
طالبان کی پچھلی حکومت کو پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا لیکن ابھی تک ان تینوں ملکوں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں ہوا۔ افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کئے جانے کا پہلا اعلان ان تینوں کی طرف سے نظر بھی نہیں آتا بلکہ اس بار ترکی اور قطر پہل کرتے محسوس ہوتے ہیں، جنہوں نے کابل ایئر پورٹ آپریشنز کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدے کا مسودہ تیار کر رکھا ہے‘ لیکن ابھی اس پر دستخط ہونا باقی ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ترکی اور قطر ایک کنسورشیم کے ذریعے ایئر پورٹ کے آپریشنز اور سکیورٹی معاملات چلائیں گے‘ لیکن اس معاہدے کی اہم شق یہ ہے کہ اس معاہدے سے پہلے یہ دونوں ملک طالبان کی حکومت تسلیم کریں گے۔ اس معاہدے کی تردید ابھی نہیں آئی اور حکومت کے قیام کا انتظار کیا جا رہا تھا، لگتا ہے ابھی افغان طالبان کی طرف سے کئی سرپرائز آنے والے ہیں۔ اگرچہ اب دوحہ میں طالبان کے دفتر سے میڈیا اور دنیا کی نظریں ہٹ چکی ہیں‘ لیکن دوحہ میں اب بھی بہت کچھ ہو رہا ہے لیکن دنیا کا مرکز نگاہ کابل بن چکا ہے۔