میں آپ سے مخاطب ہوں۔ بالکل ٹھیک سمجھے۔ آپ ہی سے‘ کچھ بات کرنی ہے آپ کے مؤقف کے بارے میں۔ طالبان کے بارے میں۔ لیکن اس سے پہلے کچھ مسلّمات پر بات کر لیں؟ اچھا آپ کے نزدیک شاید یہ مسلّمہ نہ ہوں لیکن میں انہیں مسلّمات سمجھتا ہوں۔
پہلا یہ کہ تنقید کا حق اسے ہے جو کلمۂ خیر کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔ اگر آپ کسی فرد، گروہ کی خوبی کے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں کہہ سکتے تو آپ اس اخلاقی طاقت سے محروم ہیں جو تنقید کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ بات اسے سمجھائی جا سکتی ہے جو بات سمجھنا چاہتا ہو۔ جو دماغ اور دل کے دروازے مقفّل کرکے بیٹھا ہو، اسے بات سمجھانا دیوارپر دستک دینا ہے۔ تیسرا یہ کہ بات وہ سمجھ سکتا ہے جو خود کو عقلِ کُل نہ سمجھتا ہو۔ جسے یہ وہم نہ ہوکہ کائنات کی تمام تر دانش اس کے وجود میں اکٹھی ہوگئی ہے۔ چوتھا یہ کہ متوازن تجزیہ وہی کرسکتا ہے جو کسی ذہنی مرعوبیت کا شکار نہ ہو۔ اور پانچواں اور نہایت اہم یہ کہ اپنے سابقہ مؤقف کی غلطی وہی تسلیم کرسکتا ہے جس کی انا اس بات کی اجازت دیتی ہو۔ کیا خیال ہے، کیا یہ مسلّمات درست نہیں ہیں؟
میں حالیہ واقعات پر بہت سے نامور دانشوروں، تجزیہ کاروں، مبصروں اور کالم نگاروں سمیت آپ کی باتیں سنتا ہوں تو مجھے یہی مسلّمات یاد آنے لگتے ہیں۔ کوئی دانت پیس کر طالبان کی فتوحات کو کسی کی کرشمہ سازی قرار دیتا ہے۔ کوئی اپنے ہزاروں بار دہرائے ہوئے، شکست خوردہ، مفرور مؤقف کو ایک بار پھر دہرا کرذہنی تسکین حاصل کرتا ہے۔ کوئی تکلیف اور اذیت بھرے ایک آدھ جملے میں طالبان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اسے اپنا پچھلا مؤقف یاد آجاتا ہے اور وہ اگر، مگر، لیکن کے ساتھ وہ جملہ مکمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ کسی کے خیال میں افغان جنگ کے بے گھر افغان مہاجرین، بھیک مانگتی افغان عورتیں ہی اصل حقیقت ہیں، باقی سب کچھ افسانہ ہے۔ اور یہ سب نہ روسیوں کے سر ہے، نہ امریکیوں کے، نہ نیٹو ممالک کے۔ اگر کوئی ذمے دار ہے تو افغان یا پاکستانی۔ کسی کو طالبان کے لباس، وضع قطع اور حلیوں کا غم کھائے جاتا ہے۔ کسی کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کی تعریف کریں جو چٹائیوں پر بیٹھ کر صدیوں پرانی عربی‘ فارسی کتابوں کا درس لے کر میدان جنگ میں آئے ہیں اور کسی بھی یونیورسٹی اور کالج کی تعلیم سے بے بہر ہ ہیں، تو ہماری یہ تعریف کہیں ہمیں ان لوگوں کی نظر میں گرا تو نہیں دے گی جو ہمیں بڑا دانشور سمجھتے ہیں۔ ہم اس دانش کے، جو اعلیٰ مغربی نظریات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، ڈھیر ہونے کی تصدیق کردیں تو ہماری اپنی حیثیت کیا رہے گی۔ کچھ لوگوں کے مسائل شہرت سے منسلک ہیں۔ اگر ایک خاص مسلک، خاص نظریے کے حامل طالبان کی کسی بھی چیز کی تعریف کردی جائے تو فلاں مسلک، فلاں مکتب فکر کے ہمارے مداحوں کا کیا ہوگا؟ وہ ہمیں کس نظر سے دیکھیں گے؟ یہ مقبولیت جو عشروں سے، اسی طرز فکر کی تحسین کرتے گزاری ہے، دھڑام سے نیچے آرہے گی۔ بالکل ایسے جیسے اس وقت امریکہ، نیٹو اور ہندوستان کی محنت رائیگاں گئی ہے۔ سب کچھ دھڑام سے نیچے آگرا ہے۔ آپ بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ کبھی سب طریقوں پر چلتے ہیں کبھی کسی ایک پر‘ لیکن ہیں انہی میں سے ایک۔
لکھنے والے، سوچنے والے، بیان کرنے والے سے سچائی روٹھنے لگے تو پھر آپ لفظ و بیان، اسلوب و انداز کا کتنا بھی زور لگالیں، تاثیر جاتی رہتی ہے۔ تاثیر کھو جائے تو کھوکھلے مؤقف، کھوکھلے الفاظ کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو اشرف غنی، حمداللہ محب اور امراللہ صالح کے ساتھ ہوتا ہے۔ شکست خوردہ، بھگوڑے اور مفرور صرف افراد نہیں الفاظ بھی ہوا کرتے ہیں۔ ہارا ہوا، زمین پر گرا ہوا، اپنے ہی خون میں لت پت صرف آدمی نہیں، مؤقف بھی ہوسکتا ہے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کی کیا تاویل کرتے ہیں آپ؟ اور اب اس پنج شیر پر بھی جسے نہ سوویت یونین فتح کرسکا، نہ امریکہ اور نہ خود اپنے پہلے دور میں طالبان۔ کیسے ہوگیا یہ سب کچھ۔ چند دنوں کے اندر یہ ناقابل تسخیر وادی تسخیر کیسے ہوگئی؟ اس گروہ کے خلاف، جو امریکی صدر کے مطابق ستر پچھتر ہزار سے زیادہ کی تعداد میں نہیں ہے، کروڑوں کی تعداد میں افغان اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوئے؟ اور اب طالبان نے اپنی کابینہ اور وزرا کا بھی اعلان کردیا ہے۔ کیا یہ سب سوچا بھی جا سکتا تھا دو ماہ پہلے تک۔ افغان فوج کے ہاتھ میں بہتر ہتھیار تھے۔ عام افغان کے پاس تو بہترین اسلحہ ہونا کوئی غیرمعمولی بات ہی نہیں۔ یہ تو ان کا ہتھیار ہے۔ کسی کے زیر نگیں نہ رہنا بھی عام افغان کی فطرت ہے۔ تو پھر یہ فطرت کہاں چلی گئی؟ یہ ہتھیار پھینک کیوں رہے ہیں؟ کیا تاویل ہے آپ کے پاس ان سب کی؟
اگر بات اتنی ہی ہوتی کہ آپ طالبان کے فہم دین سے متفق نہیں ہیں، ان کے طریق کار، طرز حکومت سے اختلاف رکھتے ہیں، لیکن ان کی خوبیوں، ان کی کامیابیوں کے بھی اتنے ہی معترف ہیں تو کوئی حرج نہ ہوتا۔ اس لیے کہ ان کے طالبان کے فہم دین پر بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیں‘ بہت سے سنجیدہ علما اور دانش وروں سمیت لیکن وہ ان کے ساتھ ساتھ طالبان کی استقامت، ہمت، صبر، قربانیوں اور کامیابیوں کے بھی علی الاعلان معترف ہیں۔ اور طالبان کو تو چھوڑئیے، یہاں پاکستان میں کتنے ہی دینی طبقات ایک دوسرے کے فہم دین اور طریق کار سے متفق نہیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا نہیں۔ آپ کو ان سے چڑ ہے۔ وہی چڑ جو صرف طالبان کے لیے ہی نہیں اس وضع قطع اور حلیے کے ہر شخص کے بارے میں آپ کے ذہن، آپ کی گفتگو، آپ کی تحریروں میں پائی جاتی ہے۔ جو کیفیت آپ کی تحریریں بتاتی رہی ہیں، شاید چڑ کا لفظ بھی اس کے لیے چھوٹا ہو، نفرت موزوں لفظ ہوگا۔ تو آپ اس نفرت کے ساتھ بیس سال ان کے بارے میں لکھتے، بولتے رہے ہیں اور اب اسی نفرت کے ساتھ انہیں آئندہ کے لیے مشورے دے رہے ہیں۔ کیا حق ہے آپ کو اس تنقید کا؟
ہم چو ما دیگرے نیست کا زعم کبھی ٹھیک تجزیہ کرنے نہیں دیتا۔ چند عربی‘ فارسی کتابیں ترجمے کے ساتھ پڑھ کر کوئی فقیہ نہیں بن جاتا۔ یہ سوچ اسی زعم سے منسلک ہے کہ یہ سب دستار پوش ان سب سے نابلد ہیں اور ان کی وسعت نظر بھی مجھ جیسی وسیع نہیں ہے‘ لیکن ایسے بہت سے وسیع النظر افغانستان میں یہی زعم لے کر آئے اور مٹی پر ناک رگڑتے ہوئے اور اپنے فرار کے بہانے بناتے ہوئے رخصت ہوئے۔ آپ بیس سال تک دنیا کی ہیبت ناک ترین جنگی مشین سے لڑنے والوں کے حق میں کوئی بات نہیں کرسکتے تھے لیکن حملہ آوروں کی نیت اور بربریت پر تو انگشت نمائی کرسکتے تھے۔ گوانتانامو میں انسانی بے حرمتی پر تو سوال اٹھا سکتے تھے‘ اور کچھ نہیں تو وقتِ فرار امریکی انتظام کے تحت کابل ایئرپورٹ پر مجرمانہ بدنظمی کی تو مذمت کر سکتے تھے۔
بیس سال۔ ان بیس سالوں میں لگ بھگ ساٹھ ہزار اس لباس، حلیے اور وضع قطع کے خوبصورت جوان شہید ہوئے۔ وہ جو اپنی ماؤں کے لاڈلے، بہنوں کا مان، بیٹیوں کا فخر تھے۔ ایک ٹانگ، ایک بازو، اٹھنے بیٹھنے سے معذور اس کے علاوہ ہیں۔ وہ سب بھی شامل نہیں جو اذیت خانوں اور جیلوں کی سختیاں سہتے رخصت ہوگئے۔ اقبال کا مصرعہ، خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش۔ کیا ان کے بارے میں صادق نہیں آتا تھا؟ کوئی ایک کلمۂ تحسین؟ کوئی کلمۂ خیر؟ کوئی حرف نرم ان کے لیے کبھی آپ کے قلم آپ کی زبان سے نکلا؟ کوئی آنسو؟ ان کی تکلیفوں پر بہا؟
جو کچھ بھی مؤقف آپ کا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں۔ زمانہ اپنا رنگ بدل چکا ہے۔ کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ‘ فضا دیکھ۔ مؤقف بدل لیجیے۔ کوئی نہیں کاٹے گا۔ سوائے آپ کی اپنی انا کے۔