تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     09-09-2021

ایف بی آر کے ملکی معیشت پر اثرات

پاکستانی معیشت کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث فیڈرل بورڈ آف ریونیو زیادہ اہمیت اختیار کر چکاہے۔ خاص طور پر 14 اگست 2021ء کے واقعہ کے بعد سے عام آدمی بھی اس کے بارے میں بات کرنے لگا ہے۔ ایف بی آر کا سسٹم ہیک ہو جانا ابھی تک ایک بڑا معمہ بنا ہوا ہے۔ تین ہفتوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ پتا نہیں لگایا جا سکا کہ یہ کس نے ہیک کیا اور نقصان کا تخمینہ کیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کو تبدیل کر دینا بہتر عمل‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صورتحال یہاں تک کیسے پہنچی۔ اس حوالے سے جب ایف بی آر ذرائع سے میری بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ورلڈ بینک نے جون 2019ء میں 400 ملین ڈالرز کی منظوری دے دی تھی جس میں سے کچھ رقم ادارے کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کی گئی لیکن ایکسپائر آئی ٹی سسٹم کو تبدیل کرنے کے لیے 80 ملین ڈالرز حاصل کرنے میں رکاوٹیں پیش آئیں۔ابتدائی رکاوٹ ورلڈ بینک کی جانب سے آئی۔ قرض منظور ہونے کے بعد ورلڈ بینک نے یہ شرط رکھ دی کہ آئی ٹی سسٹم کو تبدیل کرنے کیلئے چیف انفارمیشن آفیسر (سی آئی او) تعینات نہیں کیا جائے گیا‘ پہلے اس پوسٹ پر کسی ذمہ دار شخص کو لگایا جائے۔ تقریباً چار ماہ بعد منصور سلطان صاحب کو چیف انفارمیشن آفیسر لگا دیا گیا۔ اس کے بعد معاملہ ریفارمز اینڈ ماڈرنائزیشن ڈپارٹمنٹ کے سپرد کر دیا گیا لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی سسٹم کو تبدیل کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریفارمز اینڈ ماڈرنائزیشن ڈپارٹمنٹ کی ایک سال کی کارکردگی کیا رہی؟ کیا جان بوجھ کر تاخیر کی گئی یا پھر کوئی آفیسر احتساب کے ڈر سے 80 ملین ڈالرز کی ٹرانزیکشن میں شامل ہونے سے ہچکچاتا رہا۔ ورلڈ بینک کی شرط پوری کرنے کے بعد کیا رکاوٹ تھی؟ اس معاملے کی تحقیقات ہونا ضروری ہیں تا کہ اصل ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔فی الحال صورتحال یہ ہے کہ نئے ممبر آئی ٹی نے ورلڈ بینک سے آئی ٹی سسٹم کی تبدیلی کیلئے کام کو تیز کرنے کی درخواست کی ہے‘ جو خوش آئند ہے۔
اس کے علاوہ ایف بی آر کی جانب سے زرعی آمدن پر ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں زراعت سب سے بڑا معاشی شعبہ ہے۔ ملکی برآمدات کا بڑا انحصار اسی شعبے پر ہے۔ قانون کے مطابق‘ زرعی آمدن صوبائی معاملہ ہے‘ صوبے اس پر ٹیکس وصول کرتے ہیں اور وفاق کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔ صوبائی معاملہ ہونے کی وجہ سے وفاق کے ٹیکس گوشواروں میں زرعی آمدن پر ٹیکس چھوٹ حاصل کی جاتی ہے لیکن صوبائی زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی اور وفاق میں زرعی آمدن پر حاصل کی گئی ٹیکس چھوٹ میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے جس سے یہ رائے تقویت پکڑ رہی ہے کہ اس آمدن پر صوبائی ٹیکس بھی ادا نہیں کیا جا رہا اور وفاق سے بھی ٹیکس چھوٹ حاصل کی جا رہی ہے۔ شنید ہے کہ یہ سہولت حاصل کرنے والے میں بیشترنام سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور ملک کی اشرافیہ کے ہیں۔ اس حوالے سے جب میں نے ایف بی آر ذرائع سے بات کی تو بتایا گیا کہ نئے چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق احمد اس معاملے کو خود دیکھ رہے ہیں۔ صوبوں کے ساتھ وفاقی ٹیکس معلومات شیئر کی جا رہی ہیں اور بہت سے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا بھی جا چکا ہے۔ اس حوالے سے جب میں نے پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سابق نائب صدر منشا سکھیرا سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ صوبائی ٹیکس ادا کیے بغیر وفاق میں بھی ٹیکس چھوٹ حاصل کی گئی ہے تو وفاق اپنے قانون کے مطابق اس پر ٹیکس لگا کر ریکوری کر سکتا ہے۔ عمومی طور پر وفاق کے ٹیکس ریٹ صوبوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ غلط معلومات دینے کے جرم میں جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایف بی آر ذرائع کے مطابق‘ کسی بھی سیاسی تفریق کے بغیر اس معاملے پر ایکشن لیا جا رہا ہے‘ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے دنوں میں بڑی ریکوریاں ہو سکتی ہیں جو حکومت کے لیے بڑی سپورٹ کا باعث بن سکتی ہیں کیونکہ اس وقت حکومت کی توجہ آئی ایم ایف کے 5 کھرب 90 ارب روپے کے ٹیکس ہدف کو حاصل کرنے پر مرکوز ہے جو ممکنہ طور ایسے اقدامات سے ہی ممکن ہو گا۔ ایف بی آر سے گزارش ہے کہ ایسی ریکوریوں کے حوالے سے معلومات ماہانہ بنیادوں پر میڈیا کے ساتھ بھی شیئر کی جائیں جس میں غلط اعدادوشمار دینے والے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے نام بھی شامل ہوں۔ اس سے وزیراعظم صاحب کے نعرے''احتساب سب کے لیے‘‘کی عملی شکل سامنے آنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
ایف بی آر کی اہمیت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ایف اے ٹی ایف بھی ہے۔ گو کہ پاکستان 27 میں سے 26 شقوں پر عمل درآمد کر چکا ہے لیکن دہشت گردوں کی مالی معاونت کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 5 ستمبر بروز اتوار‘ چیئرمین ایف بی آر نے کوآپریشن آف رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ رئیل اسٹیٹ مالکان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر ڈائریکٹر جنرل نان فنانشل بزنس اینڈ پروفیشنز محمد اقبال نے ان کے سوالات کے جوابات دیے۔ بظاہر میٹنگ خوشگوار انداز میں ختم ہوئی لیکن دو پہلوئوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔پہلا یہ کہ ایف بی آر کی جانب سے ضرورت سے زیادہ شکنجہ کسنے کی صورت میں سرمایہ کار رئیل اسٹیٹ سے پیسہ نکال کر ملک سے باہر لے جا سکتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایف بی آر کے ان اقدامات سے ملک میں رئیل اسٹیٹ کی قیمت اپنی اصلی جگہ پر آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے مطابق‘ پاکستان میں کالے دھن کا زیادہ تر استعمال اسی شعبے میں کیا جا رہا ہے۔ ٹیکس ریڈار پر آنے کے بعد صرف اصل ضرورت مند ہی اس شعبے کا رخ کریں گے۔ذرائع کے مطابق‘ ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھنے کو بھی رئیل اسٹیٹ سے جوڑا جا رہا ہے۔ یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ سرمایہ کاروں نے سرمایہ پراپرٹی سے نکال کر ڈالرز میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس دعوے میں کتنی سچائی ہے‘ اس کا اندازہ آئندہ چند ہفتوں میں ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ ڈالر کی قیمت تقریباً 168 روپے تک جا پہنچی ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس کی وجوہات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا۔
ایف بی آر نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کے سیکشن 76 کے تحت بڑے شاپنگ سنٹرز سے خریداری کرنے پر ایک انوائس پر 1 روپیہ سروس چارجز وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ رقم عوام کو کمپیوٹرائزڈ رسیدوں پر انعامات دینے، پوائنٹ آف سیل سسٹم کو بہتر بنانے اور عوام میں اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اشتہارات چلانے میں خرچ کی جائے گی لیکن اس فیصلے پر عوامی ردعمل شدید دکھائی دیتا ہے۔ ٹیکس کا تعلق آمدن کے ساتھ ہے۔ اگر حکومت نے اِن ڈائریکٹ ٹیکسز لگا کر ہی آمدن پوری کرنی ہے تو ایف بی آر اور ٹیکس کولیکشن کے لیے اتنی بڑی فوج کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت کا دعویٰ تھا کہ امیروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا لیکن پندرہ روپے کی ایک بوتل خریدنے پر بھی ایک غریب آدمی کو تقریباً سات فیصد سروس ٹیکس ادا کرنا پڑے گا جس پر عوام کے شدید تحفظات ہیں۔ ان حالات میں عوام رسیدیں لینے سے گریز کر سکتے ہیں جس سے وزیرخزانہ کا پوائنٹ آف سیل سسٹم کو ساٹھ ہزار تک لے جانے کے ہدف کو حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ حال ہی میں پاکستان کی ایک بڑی نجی فارماسوٹیکل کمپنی نے بھی سروس چارجز لینا شروع کیے تھے‘ جس سے اس کی سیل میں واضح کمی واقع ہوئی اور مجبوراً اسے فیصلہ واپس لینا پڑا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ عوام سے ٹیکس ضرور اکٹھا کریں لیکن ایسا نظام متعارف نہ کروائیں جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ عوام کو سہولت دینے کے بجائے ان پر بوجھ بڑھایا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved