تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     10-09-2021

الیکٹرانک ووٹنگ مشین، اعتراض اور جوابِ اعتراض

وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی نظام میں نمایاں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں مگر بلدیاتی الیکشن آئندہ سال فروری یا مارچ سے قبل ممکن نظر نہیں آتے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج ہی عام انتخابات کی نئی طرز کو طے کریں گے۔ اگر حکمران جماعت پنجاب کے اہم اضلاع میں میئر کے انتخابات‘ جو براہ راست ہونے ہیں‘ میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو وزیر اعظم اکتوبر 2022ء میں قومی اسمبلی تحلیل کرکے عام انتخابات کرا سکتے ہیں۔ 12ستمبر کو کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ زمینی حقائق کے مطابق تحریکِ انصاف کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں برتری حاصل کر سکتی ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں میں اتحاد کا فقدان ہے اور وزیر اعظم کی پس پردہ حکمت عملی کے تحت آصف علی زرداری سے مفاہمت ہورہی ہے جس کے نتیجے میں بلاو ل بھٹو زرداری پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بندگلی کی طرف لے جا رہے ہیں اور شہباز شریف میں اب قیادت کی صلاحیت دم توڑ چکی ہے۔ اسی پس منظر میں چودھری نثار علی خان تحریک انصاف پنجاب کی قیادت سنبھال کر اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی پوزیشن میں ہیں۔ سیاسی حلقوں کی نگاہیں چودھری نثار علی خان کے اگلے قدم کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ چودھری صاحب کے لیے اب نئی پارٹی بنانے کا وقت گزر چکا ہے؛ چنانچہ شہباز شریف جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اگر نثار علی خان سے مفاہمت کر لیتے ہیں تو ملک کی سیاست کا نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی انتخابات سے قبل 2017ء کی مردم شماری کے تحت انتخابی حلقوں کی از سر نو حلقہ بندی کرانے کے خواہش مند ہیں اور انہوں نے حلقہ بندی کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 17 میں ترمیم کرانی ہے‘ جس کے تحت پاپولیشن کے بجائے ووٹر لسٹ کی بنیاد پر حلقہ بندی کرانے کا بل قومی اسمبلی میں منظور ہو چکا ہے‘ مگریہ بل آئین کے آرٹیکل 51 سے متصادم محسوس ہوتا ہے اور الیکشن کمیشن‘ ممکن ہے اس کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں ریفرنس دائر کردے۔ بل کے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 23 ‘ 24‘ 25‘ 26‘ 27‘ 30‘ 35‘ 39 اور 44 کے خلاف ہونے کی صورت میں معاملہ قانونی بحران کی طرف چلا جائے گا کیونکہ آئین کے تحت انتخابی فہرست تیارکرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے جبکہ ان دفعات کے خلاف ورزی کرکے حکومت نادرا کو اختیارات دینے کی کوشش کررہی ہے۔
آئندہ انتخابات میں کامیابی یقینی بنانے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت قبل از انتخابات کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے جس میں سمندر پار پاکستانیوں کو انتخابات لڑنے اور ووٹ ڈالنے کے حقوق دینا اور انتخابی عمل کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال شامل ہے تاہم حال ہی میں الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ کو مسترد کرتے ہوئے اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات پر تفصیلی رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کرائی ہے جس میں الیکٹرانک ووٹ پر 37 اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 218 کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے دھاندلی رُک سکتی ہے اور نہ ووٹر کی شناخت خفیہ رہے گی اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر بیلٹ پیپر کی مناسب رازداری بھی نہیں رہے گی اور ووٹر کی شناخت بھی گمنام نہیں رہے گی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر دیکھا نہیں جا سکتا‘ نیز یہ کہ اخراجات کا تخمینہ 150 ارب کے لگ بھگ ہے اس کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک رہے گی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو کس ادارے کی تحویل میں دیا جائے گا اس بارے میں بھی حکومت نے الیکشن کمیشن کو نظر انداز کیا ہوا ہے اور یہ کہ مشین کو ہیک اور ٹیمپر بھی کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلیک باکس میں شفافیت پر سوال اُٹھنے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پر مشین کے استعمال کی صلاحیت پر سوالیہ نشان آ سکتا ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین دھاندلی بھی نہیں روک سکتی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق زیادہ مشینوں سے ایک روز میں انتخابات کرانا ممکن نہیں ہوگا اور مشینوں کی کسی وجہ سے مرمت الیکشن میں دھاندلی کا باعث بن سکتی ہے جبکہ ووٹر کی تعلیم اور ٹیکنالوجی بھی اس عمل میں رکاوٹ بنے گی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ای وی ایم پر سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے نہیں جبکہ میڈیا‘ این جی اوز اور سول سوسائٹی کو بداعتمادی ہوسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عین وقت پر عدالتی حکم سے بیلٹ میں تبدیلی ہوجاتی ہے تو اس وقت مشکل پیش آئے گی جبکہ ای وی ایم سے نتائج میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک مشینوں کے بارے میں حکومتی اقدام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ جس سسٹم پر ووٹر کا اعتماد نہ ہو ایسے سسٹم کو لاگو کرنے کیلئے قانون سازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر جو اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں ان پروزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے جواب دیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر سائنس شبلی فراز نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کے 37 میں سے27 ایسے نکات ہیں جن کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا تعلق الیکشن کمیشن کے کام کے حوالے سے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 10 نکات کا تعلق الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے ہے جو حل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مشینیں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے تیار کی ہیں اور تمام 10 اعتراضات دور کردیے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کا کام قانون سازی کرنا ہے‘ اس میں کوئی شک و ابہام نہیں ہے کہ حکومت قانون سازی بھی کرے گی اور 2023ء کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی کرائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مشین کے معائنے کے دوران تمام چیزیں کامیاب ہو گئی ہیں ‘ہم نے الیکشن کمیشن‘پلڈاٹ‘ فافن‘ چیمبر آف کامرس‘ بار ایسوسی ایشنز اور یونیورسٹیوں سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس کا معائنہ کرایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 17 اگست کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بریفنگ دی تھی جبکہ الیکشن کمیشن نے جولائی کے آخر میں ایک ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے پہلے اجلاس میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی ٹیکنیکل ٹیم نے بھی شرکت کی تھی۔شبلی فراز نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے جو رپورٹس مانگیں وہ تمام جمع کرا دی گئی ہیں‘ الیکشن کمیشن کی ٹیکنیکل کمیٹی کا اگلا اجلاس 15 ستمبر کو ہو گا جس میں مزید سفارشات پیش کریں گے۔انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ٹو کی پہاڑی پر بھی کام کرے گی‘ یہ بیٹری پر چلنے والی مشین 24 گھنٹے تک کام کر سکتی ہے۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ الیکشن کے انعقاد کیلئے چھ ماہ کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بنائی جا سکتی ہیں‘ ابھی انتخابات میں دو سال رہتے ہیں‘ الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کو تربیت دی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن اور الیکشن کمیشن دونوں کی جانب سے ووٹنگ مشین مسترد کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام قانون سازی ہے اور ایک مرتبہ جب قانون بنتا ہے تو تمام ادارے اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ یہ ساری باتیں درست ہیں مگر میری رائے میں سسٹم کی کامیابی یا ناکامی میں نیت کا بڑا عمل دخل ہے‘ اگر نیک صاف ہے تو ووٹنگ مشین سے انتخابات شفاف ہو جائیںگے تاہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین ریاستی اختیارات کے غلط استعما ل اورانتخابی دھوکہ دہی کو نہیں روک سکتی‘لہٰذا سینیٹ کے ارکان انتخابی جرائم کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے اعتراضات پر ریاست کے مفاد میں فیصلہ کریں‘ ویسے بھی قانون سازی ہونے کے باوجود نگران حکومت اپنا خود فیصلہ کرنے کی مجاز ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved