تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-09-2021

سرخیاں، متن، ’’لمحے کی روشنی‘‘ اور کاشف مجید

وزیراعظم نے تقریروں کے علاوہ
کوئی کام کیا ہو تو بتائیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم نے تقریروں کے علاوہ کوئی کام کیا ہو تو بتائیں‘‘ جبکہ ہم نے تقریروں کے علاوہ بھی تقریریں کی ہیں اور روزانہ تقریر کا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا بلکہ ایک تقریر کئی کئی بار کرنے کا ریکارڈ الگ سے ہے جبکہ میں ہر روز پیشگی تقریر تیار رکھتا تھا کیونکہ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ کل کیا ہونا ہے، نیز میری تقریروں کے بے اثر چلے جانے کا ریکارڈ بھی اپنی جگہ ہے، علاوہ ازیں میری آئندہ 7 روز تک کی تقریریں بھی تیار ہیں اور ہر تقریر کسی بھی روز اور کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کا ملک میں ہونے والے واقعات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مقتول شاہد کے ورثاء سے ملاقات کر رہے تھے۔
سندھ میں صحت، تعلیم کا بجٹ کرپشن
کی بھینٹ چڑھ گیا: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''سندھ میں صحت، تعلیم کا بجٹ کرپشن کی بھینٹ چڑھ گیا‘‘ جبکہ ہم نے صحت اور تعلیم کے بجٹ کو چھیڑا تک نہیں کیونکہ جب دوسرے ذرائع موجود ہیں تو ان محکموں کی کیا ضرورت ہے کیونکہ جتنا دانہ دنکا جس کی قسمت میں ہوتا ہے وہ مل کر ہی رہتا ہے ، اس لیے آدمی کو توکل سے کام لینا چاہیے اور اچھے مواقع کا انتظار کرنا چاہیے اور جلد بازی اور لالچ سے گریز کرنا چاہیے ۔آپ اگلے روز اسلام آباد سے معمول کا ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
کارڈز سنبھال کر رکھے ہیں، وقت
آنے پر شو کریں گے: بلاول بھٹو
چیئر مین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''کارڈز سنبھال کر رکھے ہیں، وقت آنے پر شو کریں گے‘‘ دراصل جو سارے کے سارے پوسٹ کارڈز ہیں اور جو جیالوں کو ارسال کرنا ہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں واپس آ جائیں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا، بلکہ اگر وہ ہمیں کچھ نہ کہیں تو اور بھی اچھا ہے کیونکہ ہم ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے پیسے اکٹھے کر رہے تھے لیکن ان کا کوئی سراغ نہ ملنے پر ہم نے وہ اپنے پاس محفوظ کر لیے ہیں اور اگر وہ واپس آ کر ہمیں اقتدار کی کرسی پر دوبارہ بٹھا دیں تو یہ ریل پیل دوبارہ بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز یوم خواندگی پر اپنا پیغام نشر کر رہے تھے۔
شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں
گے؟ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے؟ مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک صحافی کے سو ال کے جواب میں کہ ''شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے؟ کہا ہے: آپ کو اتنی جلدی کیا ہے؟ ‘‘ اور آپ کو میرے حوالے سے یہ سوال پوچھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی کیونکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس عہدے کی اصل امیدوار میں ہوں اور ایک مدت سے چلی آ رہی ہوں، نیز والد گرامی قدر کی زبردست خواہش بھی یہی ہے اور ظاہر ہے کہ وزیراعظم وہی ہو گا جسے وہ چاہیں گے، نیز چچا جان کبھی یہ نہیں کر سکتے کہ اپنے بڑے بھائی کی حکم عدولی کرتے ہوئے خود امیدوار بن بیٹھیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہی تھیں۔
لیگی ترجمانوں کو نوکریاں بچانے
کی فکر لگی رہتی ہے: فیاض چوہان
وزیر جیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''لیگی ترجمانوں کو نوکریاں بچانے کی فکر لگی رہتی ہے‘‘ جبکہ ہمارے ہاں بالکل ایسا نہیں ہے کیونکہ ہماری نوکریوں کا جن پر دارومدار ہے ، ان کو اپنی نوکری کے لالے پڑے رہتے ہیں اس لیے وہ ہماری نوکریوں پر توجہ نہیں دے سکتے اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ملک عزیز میں کسی کی بھی نوکری پکی نہیں ہے، اور نوکری کا ہاتھ سے نکل جانا معمول کی بات ہے جبکہ خاکسار کی اپنی نوکری ایک بار ختم ہو کر دوبارہ شروع ہو گئی تھی اور میں وزیر اطلاعات سے وزیر جیل خانہ جات بنا دیا گیا تھا اور اطلاعات و نشریات کا منصب اب دوبارہ میرے پاس ہے مگر یہ سانحہ اب پھر کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
لمحے کی روشنی
یہ ممتاز ادیب زاہد منیر عامر کے مضامین کا کم و بیش پانچواں مجموعہ ہے۔ دیباچہ نامور نقاد اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم کا لکھا ہوا ہے، پسِ سرورق مختلف رسائل کی کتاب اور مصنف کے بارے میں رائے درج ہے‘ جن میں اوراق لاہور، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور اور ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور شامل ہیں۔ یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ انتساب ''امی جان‘‘ کے نام ہے۔ پروفیسر صاحبزادہ عبدالرئوف کی تحریر بھی کتاب کے آغاز میں شامل ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق ''زاہد منیر عامر ہمارے ان نوجوان ادبا میں سے ہیں جن کے ہاں ادب کی نہ صرف سچی لگن موجود ہے بلکہ جو فکر و نظر کی سطح پر بھی ہمہ وقت متجسس دکھائی دیتے ہیں اور یہ اسی تجسس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے ایسے موضوعات کے بارے میں سوچ بچار کا آغاز کیا ہے جو فی زمانہ (کم از کم ہمارے وطن عزیز کی حد تک) نوجوان تو ایک طرف، پختہ عمر کے لوگوں کے ہاں بھی ٹیبوزقرار پائے ہیں۔۔۔۔‘‘
اور‘ اب آخر میں کاشف مجید کی شاعری:
میں تنگ ہوں نہ میرا خریدار تنگ ہے
دل کے معاملات میں بازار تنگ ہے
اس کی ہنسی سماتی نہیں ہے فریم میں
تصویر کے حساب سے دیوار تنگ ہے
یہ دل کسی کی ماننے والا نہیں میاں
اس بدلحاظ شخص سے ہر یار تنگ ہے
جو زخم گن رہے ہیں یہاں عافیت میں ہیں
جو گن رہا ہے درہم و دینار تنگ ہے
کب تک میں جھوٹ بولوں، اداکاریاں کروں
خوش ہوں کہ مجھ سے میرا طرفدار تنگ ہے
٭......٭......٭
سب کی دل آزاری والا
کام ہے یہ ہُشیاری والا
آگ بھڑک اٹھی ہے ہر سو
عشق کیا چنگاری والا
میں جب تیری چاہ میں نکلا
موسم تھا بے زاری والا
دل کے پیچھے بھاگ رہا ہوں
خواب ہے یہ بیداری والا
آج کا مقطع
امیدِ وصل میں سو جائیں ہم کبھی تو ظفرؔ
ہماری خواب سرا میں پتنگ اُڑتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved