بحث ہو رہی تھی کہ تین سال پہلے 20 کلوگرام آٹے کی قیمت آج کے 15کلوگرام والے تھیلے سے بھی کم تھی۔ موجودہ حکومت نے تبدیلی کے نام پر ووٹ لیا مگر ابھی تک ملک میں وہ تبدیلی کہیں نظر نہیں آتی جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کہیں سے جواب ملا کہ بیس کلوگرام کی جگہ پندرہ کلو گرام والا تھیلا بھی تو تبدیلی ہی کی ایک مثال ہے۔ دوسری جانب سے آواز بلند ہوئی کہ وزیراعظم صاحب نے ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کارکردگی کے لحاظ سے دوسرے صوبوں سے آگے ہے اور آج واقعی پنجاب تبدیلی میں سب سے آگے ہے، یقین نہیں آتا تو یہ خبر پڑھ لیں ''پنجاب میں پھر بڑی انتظامی تبدیلی‘ وفاقی حکومت نے چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک اور آئی جی پنجاب انعام غنی کو تبدیل کرکے ان کی جگہ نئی تعیناتیاں کر دیں، کامران افضل کو پانچواں چیف سیکرٹری اور سردار علی خان کو ساتواں آئی جی پنجاب مقرر کر دیا گیا‘‘۔ جن چیف سیکرٹریز کو اب تک تبدیل کیا گیا، ان میں اکبر حسین درانی، یوسف نسیم کھوکھر، اعظم سلیمان اور جواد رفیق ملک شامل ہیں۔ اسی طرح آئی جی پنجاب کے عہدے پر موجودہ دورِ حکومت میں کلیم امام، طاہر خان، امجد سلیمی، عارف نواز، شعیب دستگیر اور انعام غنی باری باری تعینات رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں پنجاب کے چیف سیکرٹریز کی اوسط مدت 9 ماہ جبکہ آئی جیز کی اوسط مدت 6 ماہ رہی ہے۔
نئے تعینات ہونے والے چیف سیکرٹری کامران علی افضل سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ارم بخاری دو سال، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بابر حیات تارڑ تین سال اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم ظفر نصراللہ پانچ سال سینئر ہیں جبکہ سیکرٹری ٹرانسپورٹ سید علی مرتضیٰ اور سیکرٹری آبپاشی کیپٹن (ر) سیف انجم، کامران علی افضل کے بیچ میٹ ہیں۔ ڈاکٹر کامران افضل پاکستان کے پہلے پی ایچ ڈی چیف سیکرٹری ہیں، انہوں نے آسٹریلیا سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اکانومی پر ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔
جب سے پنجاب میں عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنے ہیں، اس صوبے میں اعلیٰ افسران کے تبادلے تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اب نئے آفیسر چارج سنبھالنے کے بعد ماتحت بیورو کریسی میں بھی وسیع پیمانے پر رد و بدل کریں گے، جس سے سیکرٹریز، کمشنرز، ڈی آئی جیز، ڈپٹی کمشنرز اور ایس پی سمیت بلدیاتی و دیگر افسروں کے تبادلوں کا بڑا ریلہ آئے گا۔ بار بار تبادلوں سے افسران مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور ان کی کارکردگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ افسران کا کہنا ہے کہ وہ نئے محکمے کو سمجھنا تو دور کی بات‘ ابھی سنبھل بھی نہیں پاتے کہ تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ جب بھی کوئی افسر کسی اہم پوسٹ پر تعینات ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسے اپنے ادارے کوسمجھنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے، اس کے بعد اسے اپنے ماتحت افسران کی کارکردگی جانچنے کے لیے بھی کچھ عرصہ چاہئے ہوتا ہے اور جب تک وہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھنے کے قابل ہوتا ہے، کچھ ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں آتا ہے‘ اس وقت اچانک اسے تبادلے کا پروانہ مل جاتا ہے۔
راولپنڈی صوبے کا دوسرا بڑا اور کئی اعتبار سے اہم شہر ہونے کے باعث پورے ملک میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ راولپنڈی کے ضلعی انتظامی سربراہ (ڈپٹی کمشنر) کو وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی وزرا، سنیئر بیورو کریسی اور حکمران جماعت کو اسلام آباد اور مری میں پروٹوکول دینے کے علاوہ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے اجلاسوں میں صوبائی حکومت کی نمائندگی بھی کرنا پڑتی ہے۔ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر غیر ملکی وفود کی آمدورفت اور جی ایچ کیو کا دورہ کرنے والے وفود کو سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ ضلعی و صوبائی حکومت کے نمائندہ کے طور پر پیشیاں بھگتنا پڑتی ہیں، کسی بھی مذہبی، سیاسی و احتجاجی تحریک کو بام عروج پر پہنچنے یعنی اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے اور اس کا سارا دبائو برداشت کرنے کی ذمہ داری بھی ڈی سی راولپنڈی کے ذمے ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ تو روٹین ہے، بہت سے ایسے معاملات بھی راولپنڈی کے انتظامی سربراہ کے سپرد ہوتے ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا ضروری نہیں لیکن اس اہم سیٹ پر بھی تین برسوں میں سات افراد تبدیل ہو چکے ہیں۔ 2018ء میں سابق حکومت رخصت ہوئی تو اس وقت طلعت محمود گوندل ڈپٹی کمشنر راولپنڈی تعینات تھے، انہیں تبدیل کر کے ڈاکٹر عمر جہانگیر کو لگایاگیا، چندماہ بعد ہی محمد علی رندھاوا کو تعینات کیا گیا، اس کے بعد سیف اللہ ڈوگر آئے، پھر اچانک کیپٹن (ر) انوار الحق کو لگا دیا گیا، مبینہ طور پر رنگ روڈ سیکنڈل میں مرضی کی انکوائری رپورٹ پر دستخط نہ کرنے پر ان کا تبادلہ کر کے عامر عقیق خان کولگایاگیا لیکن چند ہفتوں بعد انہیں بھی او ایس ڈی بنا کر ان کی جگہ محمد علی کو ساتواں ڈی سی راولپنڈی لگا دیا گیا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ اب صوبے میں نئے چیف سیکرٹری آ گئے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ تبادلوں کی نئی فہرست میں کون کدھر سے کہاں چلا جائے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کے تبادلوں کی رفتار تو اس قدر تیز ہے کہ بعض اوقات ان کا عملہ بھی ان کا نام بھول جاتا ہے۔
موجودہ دورِ حکومت میں چیئرمین ایف بی آر، وفاقی و صوبائی سیکرٹریوں اور کمشنروں کے تبادے بھی ریکارڈ تعداد میں ہوئے ہیں۔ حکومت کے پہلے وزیرصحت عامر کیانی تھے جنہیں ہٹائے جانے کے بعد ڈاکٹر ظفر مرزا کو تعینات کیا گیا اور اب ڈاکٹر فیصل سلطان وزیراعظم کے معاونِ خصوصی کی حیثیت سے اس عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ وزارتِ داخلہ کی بات کی جائے تو یہاں بھی چار دفعہ قلمدان بدلا گیا ہے۔ پہلے وزارتِ داخلہ کا قلمدان خود وزیراعظم کے پاس تھا، پھر شہریار آفریدی کو وزیر مملکت برائے داخلہ بنایا گیا، اس کے بعد بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ وزیر داخلہ بنا دیے گئے اور اب شیخ رشید احمد وفاقی وزیر داخلہ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وفاقی وزارتِ اطلاعات کا قلمدان تین بار جبکہ وفاقی وزارت خزانہ کا قلمدان چار بار تبدیل ہو چکا ہے۔ اسد عمر کو وزیر خزانہ بنایا گیا مگر چند ماہ بعد ہی مہنگائی کا شور مچنے پر ان سے عہدہ واپس لے کر حفیظ شیخ کو یہ اہم ذمہ داری سونپ دی گئی، انہیں سینیٹر بنوانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن ناکامی پر مجبوراً انہیں اس عہدے سے برخاست کرنا پڑا اور حماد اظہر وزیر خزانہ بن گئے، ابھی انہوں نے پوری طرح وزارت کے امور اپنے ہاتھ میں لیے بھی نہیں تھے کہ وزیراعظم نے ماہر معاشیات شوکت ترین کو خزانے کے امور کا انچارج بنا دیا۔ حکومتی ترجمانوں کی باریاں اور وفاق و پنجاب کے درمیان ان کے تبادلے بھی ایک روٹین بن چکے ہیں۔
بات یہ ہے کہ حکمرانوں کے ہاتھ میں تبدیلی کاجتنا اختیار ہے‘ وہ آئے روز اس کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کرتے رہتے ہیں۔ وزیروں، مشیروں، ترجمانوں کے علاوہ سیکرٹریوں، کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں سمیت اہم ترین عہدوں پر تین سالوں میں متعدد بار تبدیلی لائی جا چکی ہے۔ حکمران تو اپنے وعدے کے مطابق بار بار تبدیلی کے نوٹیفکیشن جاری کر رہے ہیں مگر عوام ہیں کہ اب بھی تبدیلی‘ تبدیلی کی دہائی دے رہے ہیں۔ جتنی تبدیلی ان تین برسوں میں لائی گئی ہے اس کی مثال تو ہماری سات دہائیوں سے زائد پہ محیط تاریخ میں بھی نہیں ملتی، اس کے باوجود عوام خوش نہ ہوں تو پھر نجانے انہیں کیسی تبدیلی چاہیے۔