تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     11-09-2021

آزادی ‘امانت اور امریک سنگھ… (آخری حصہ)

راولپنڈی سے پشاور تک سفر زیادہ نہیں اور ہیلی کاپٹر میں تو یہ اور بھی کم رہ جاتا ہے۔ امریک سنگھ ہیلی کاپٹر سے زمین کے مناظر دیکھ رہا تھا۔ اس کی منزل پشاور تھی۔ یہاں کے گلی کوچوں میں اس کے پیاروں کے بیتے ہوئے دن سانس لے رہے تھے۔ اسی پشاور شہر میں اس کی ماں کی شادی ہوئی تھی۔ اس زمانے کی شادیاں بھی کتنی مختلف ہوتی تھیں۔ اس کی ماں بتایا کرتی تھی کہ کیسے اسے پالکی میں بٹھا کر سسرال لے جایا گیا تھا۔ پالکی کو مقامی زبان میں ڈولی کہا جاتا تھا۔ ماں بتایا کرتی کہ کیسے اس کی ڈولی پر پیسے لٹائے گئے تھے۔ امریک کی ماں بتاتی تھی کہ اس کے ماں باپ نے اپنی حیثیت کے مطابق اس کو جہیز دیا تھا‘ اس کے جہیز میں کپڑوں کے بہت سے جوڑے اور گھرداری کا سازوسامان تھا‘ رنگین پایوں والا پلنگ تھا اور سلائی مشین جو اس زمانے میں ایک قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی۔ ماں کو اپنی سلائی مشین سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ گھر کے کپڑوں کی چھوٹی موٹی سلائی خود ہی کرتی تھی۔ پشاور شہروں میں ایک شہر تھا‘ جہاں کے باغ اور گلی کوچے اس کے دل میں بستے تھے۔ پھر 1947ء کا سال آگیا‘ سرحد کے دونوں طرف فسادات شروع ہو گئے۔ شروع شروع میں تو انہیں یہی لگا کہ یہ سب عارضی ہے‘ جلد ہی سب کچھ نارمل ہو جائے گا۔ ان کے ہمسایے میں پروفیسر مشتاق صاحب رہتے تھے۔ وہ بہت نفیس انسان تھے۔ امریک کے والد اور پروفیسر صاحب کے درمیان گہری دوستی تھی۔ فسادات شروع ہوئے تو نہ جانے کیوں ایک عجیب سا خوف ان کے دل کے اندر گھر کر گیا ۔ فسادات تھمنے کے بجائے شدت اختیار کرتے جا رہے تھے‘ اور پھر ایک دن امریک سنگھ کے والد نے گھر آ کر بتایا کہ ہم دہلی جا رہے ہیں۔ جب فسادات تھم گئے تو پھر آ جائیں گے۔ انہوں نے پروفیسر صاحب کے پاس پانچ تولے سونا‘ 20 ہزار روپے اور سلائی مشین بطور امانت رکھوا دی۔ جاتے ہوئے مکان کو تالا لگا دیا۔ پروفیسر صاحب کو گلے لگایا اور اشکبار آنکھوں سے دہلی کی راہ لی۔ دہلی آکر وہ انتظار کرنے لگے کہ کب صورتحال بہتر ہو اور کب وہ اپنے گھر جائیں لیکن حالات دن بدن ابتر ہوتے گئے اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ اب وہ پشاور کے گھر کو کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔ امریک اکثر دیکھتا کہ اس کے ماں باپ آپس میں پشاور کی باتیں کرتے رہتے‘ جہاں ان کی زندگی کے دلفریب دن گزرے تھے۔ کبھی کبھی ماں اپنی سلائی مشین کو یاد کرتی جو اسے جہیز میں ملی تھی۔ وہ سلائی مشین جو ان کی ماں نے بڑے چاؤ سے خرید کر ان کے جہیز میں رکھی تھی۔ امریک کے والد ہنس کر کہتے: بھلی مانس اب چھوڑ بھی دو اس سلائی مشین کا قصہ‘ چیزوں کا کیا ہے اور چیزیں آ جائیں گی۔ ماں بظاہر تو ہوں ہاں کر دیتی لیکن امریک جانتا تھا‘ سلائی مشین اس کے دل کا کانٹا بن چکی تھی۔ اگر امریک کے بس میں ہوتا تو سارے راستے پھلانگتا ہوا پشاور چلا جاتا اور اپنی ماں کی مشین اُٹھا لاتا لیکن سرحدوں کے آر پار جانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ امریک کے گھر والے دہلی میں رچ بس گئے۔ ہاں ماں کے سینے سے کبھی کبھار ایک ہوک اُٹھتی تو امریک سنگھ جان جاتا کہ ماں پشاور میں اپنا گھر اور اپنی جہیز کی سلائی مشین یاد کر رہی ہے۔ دن گزرتے چلے گئے اور پھر بیٹھے بٹھائے ایک دن اچانک امریک کو پتا چلا کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان جا رہا ہے‘ اور امریک کا نام بھی اس وفد میں شامل ہے۔ بین الاقوامی سفر اس کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ دنیا کے کئی ممالک کی سیر کر چکا تھا‘ لیکن پاکستان کا نام آیا تو جیسے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
امریک سنگھ کے پشاور آنے کا ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اپنی ماں کی سلائی مشین کا پتہ لگائے اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کی ماں کے دل میں چبھا کانٹا نکل جائے گا۔ پشاور پہنچ کر اس کی پہلی منزل پروفیسر مشتاق تھے جو اسلامیہ کالج میں پروفیسر تھے۔ وہ ان کا پتا پوچھتا اسلامیہ کالج پہنچا تو یہ جان کر اس کی امید دم توڑ گئی کہ پروفیسر صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔ امریک سنگھ کو یوں لگا‘ وہ صحرا میں ایک چشمے کی طرف دوڑ رہا تھا جو آخر میں سراب نکلا۔ کسی نے اسے بتایا کہ پروفیسر صاحب کا ایک بیٹا ہے جو اپنی ماں کے ہمراہ پرانے گھر میں رہتا ہے۔ امریک سنگھ نے کہا: کیا میں ان کے گھر جا سکتا ہوں؟ امریک سنگھ کو پروفیسر مشتاق کے گھر پہنچا دیا گیا۔ امریک سنگھ نے پروفیسر صاحب کے بیٹے کو اپنے بارے میں بتایا کہ کس طرح اس کے والد اور پروفیسر صاحب کی گہری دوستی تھی۔ پروفیسر صاحب کے بیٹے نے امریک سنگھ کو عزت سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود اُٹھ کر گھر کے اندر گیا اور والدہ کو ساری کہانی سنائی۔ والدہ کے چہرے پر اطمینان کی بے نام لہر ابھری اور انہوں نے اپنے بیٹے کو ڈرائنگ روم میں چائے لے جانے کے لیے کہا۔ امریک سنگھ ڈرائنگ روم میں انتظار کر رہا تھا۔ لڑکے کو اندر گئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ آخر برتنوں کی کھنکھناہٹ سنائی دی اور پھر پُرتکلف چائے آگئی۔ امریک سنگھ کو یوں لگا‘ وہ اپنے گھر آ گیا ہے۔ وہی اپنائیت‘ وہی محبت اور وہی پیار۔ اسے عجیب سا لگ رہا تھا کہ گھر والوں سے سلائی مشین کا تذکرہ کیسے کرے۔ ابھی وہ اس کشمکش میں تھا کہ لڑکا پھر اُٹھ کر اندر چلا گیا۔ اب کے وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک سلائی مشین تھی۔ وہی مشین جس کے لیے اس کی ماں جانے کب سے تڑپ رہی تھی۔ ابھی امریک سنگھ اسی حیرت میں تھا کہ لڑکے نے ایک پوٹلی اس کی طرف بڑھائی جس میں پانچ تولے سونا تھا اور پھر ایک لفافہ جس میں بیس ہزار روپے تھے۔ پھر اس نے امریک سنگھ کی طرف دیکھا اور کہا: آپ کے والد نے پروفیسر صاحب کے پاس یہ تین چیزیں رکھوائی تھیں‘ ہم نے ان امانتوں کی حفاظت جان سے بڑھ کر کی۔ ملک میں جب بھی کرنسی نوٹ بدلتے ہم بھی ان نوٹوں کو بدل لیتے تھے تاکہ امانت کے پیسے ضائع نہ ہوں۔ امریک سنگھ کی آنکھیں فرطِ جذبات سے چھلک اُٹھیں۔ اس نے پروفیسر صاحب کے بیٹے سے کہا: آپ یہ سونا اور پیسے رکھ لیں مجھے صرف سلائی مشین چاہیے۔ یہ سُن کر پروفیسر کا بیٹا تڑپ اُٹھا اور امریک سنگھ سے گڑگڑا کر کہنے لگا: آپ کو اپنی ماں کی قسم یہ امانتیں آپ کو لے جانا ہوں گی‘ اگر ہم نے ان میں سے کوئی چیز بھی رکھی تو میرے نیک والد کی روح ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وہ ساری عمر انتظار کرتے رہے کہ آپ اپنی امانتیں لینے آئیں گے۔ مرتے وقت انہوں نے میری والدہ اور مجھے نصیحت کی کہ تم نے میرے بعد ان امانتوں کو لوٹایا تو ہی میری قبر روشن ہو گی۔ امریک سنگھ جب پشاور سے سلائی مشین لے کر واپس جا رہا تھا تو خود کو دنیا کا امیر ترین شخص سمجھ رہا تھاکہ اس کی والدہ کا بچھڑا ہوا خواب اس کے ہمراہ تھا‘ لیکن اس سے بھی امیر تر پروفیسر صاحب کا بیٹا اور اس کی ماں تھیں جنہوں نے پروفیسرصاحب کے بانکپن کا بھرم رکھا۔ یہاں تک پہنچ کر ڈاکٹر وقار چپ ہو گیا۔ اچانک ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ میں اور ڈاکٹر سلمیٰ جیسے کسی خواب میں جی رہے تھے۔ گوا کے ریستوران میں رات بھیگ رہی تھی اور دور سے بحیرۂ عرب کے پانیوں کی ڈوبتی اُبھرتی لہروں کا مدھم شور آ رہا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved