تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     11-09-2021

میلبورن پلان 2050

آج سے چار برس قبل آسٹریلوی حکومت نے میلبورن پلان 2050 کے نام سے 35 سالہ منصوبہ شروع کیا تھا جس کے تحت میلبورن شہر میں'' بیس منٹ کی پلاننگ‘‘ کے تحت مختلف امور کی انجام دہی کو ممکن بنانے پر فوکس کیا گیا ہے‘ یعنی جو شخص بھی میلبورن میں جس جگہ رہتا ہے وہاں سے زیادہ سے زیادہ بیس منٹ کے فاصلے پر اسے زندگی کی تمام سہولیات مہیا ہوں اور کسی بھی ضرورت کیلئے کسی شہری کو اس سے زیادہ دور نہ جانا پڑے۔ اس میں سب سے زیادہ ترجیح پیدل چلنے کو دی گئی ہے تاکہ لوگ بیس منٹ تک کے فاصلے پر جا کر گراسری خرید لیں‘کسی بینک میں جانا ہو یا گاڑی ٹھیک کروانی ہو‘ بچوں کے سکول ہوں یا کالج‘ کاروبار ہوں یا آفس یہ سب بیس منٹ سے زیادہ فاصلے پر نہ ہوں۔ اس منصوبے کے تحت فٹ پاتھ کے علاوہ سائیکلنگ ٹریک بھی بنائے جا رہے ہیں اور جو پہلے سے موجود ہیں انہیں بہتر کیا جا رہا ہے ۔تیسرے نمبر پر لوکل ٹرانسپورٹ ہے کہ جو لوگ بیس منٹ کے فاصلے تک پیدل یا سائیکل پر نہیں جانا چاہتے ان کی دو سے پانچ منٹ کی پیدل مسافت پر بس سٹیشن موجود ہو جہاں سے وہ بس لے کر پندرہ منٹ کے اندر اندر اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔ اس سارے منصوبے میں گاڑی کا کہیں نام و نشان نہیں اور اس منصوبے کا مقصد بھی یہی ہے کہ لوگوں کو بلاوجہ گاڑی کے استعمال سے روکا جا سکے۔ ہر سہولت بیس منٹ کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے لوگوں کا بہت سا وقت بچے گا‘ جو پہلے بے جا سفر میں ضائع ہو جاتا تھا۔ کاروں کا پٹرول بھی کم خرچ ہو گا اور فضائی آلودگی سے بھی چھٹکارا ملے گا۔ اس بیس منٹ منصوبے میں مختلف سہولیات کو ایک کمیونٹی کے اندر اکٹھا کیا گیا ہے ان میں شاپنگ سنٹرز بھی ہیں اور کلینک اور ہسپتال بھی۔اسی طرح پلاننگ کے تحت ہر جگہ پلے گرائونڈز اور گرین ایریاز کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ سپورٹس کمپلیکس‘ جم اور سوئمنگ پول بھی ہر بیس منٹ کے فاصلے پر موجود ہوں گے۔اس منصوبے سے مقامی سطح پر ہر بیس منٹ کے دائرے میں مضبوط تعلقات اور صحتمند افراد کا نیٹ ورک سامنے آئے گا جس سے لوگ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کو وقت دے پائیں گے‘ آپس میں خیالات اور منصوبے شیئر کر سکیں گے اور ایک دوسرے کی مشکلات کو جان اور حل کر سکیں گے۔ ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ بیس منٹ تک پیدل چلنا پسند کرتے ہیں اور بیس منٹ میں درمیانی رفتار سے پیدل چلنے سے آٹھ سو میٹر کا فاصلہ طے ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کا وزن 72کلو ہے اور وہ درمیانی رفتار سے آٹھ سو میٹر پیدل چلتا ہے تو اس کی پچاسی کیلوریز خرچ ہوں گی۔ اگر وہ اپنی رفتار دھیمی کر لیتا ہے تو بیس منٹ میں ایک سو کے قریب کیلوریز خرچ کر لے گا؛چنانچہ میلبورن کے اس ماڈل میں ایک شخص اگر بیس منٹ چل کر سودا سلف لینے جاتا اور واپس آتا ہے تو اس کی ڈیڑھ دو سو کیلوریز خرچ ہوں گی۔اسی طرح اگر وہ اپنے دفتر بھی پیدل جاتا ہے تو دو سو کیلوریز یہاں بھی استعمال ہو جائیں گی۔ یوں دن میں ایک شخص کی اوسطاً پانچ سے سات سو کیلوریز اس ماڈل کے تحت خرچ ہوں گی جو اس کی صحت کی بہتری او ر وزن کم کرنے میں انتہائی معاون ثابت ہوں گی۔
ماہرین کے مطابق پیدل چلنا کیلوریز خرچ کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔انسان کو روزانہ کم از کم آدھے گھنٹے کے لیے ایسی سرگرمیوں میں ضرور حصہ لینا چاہیے جن میں جسمانی قوت کا زیادہ استعمال ہو‘تا کہ اضافی چربی کو کام میں لایاجائے۔جسم میں چربی کی زیادتی سے خون کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ باقاعدگی سے چہل قدمی انسانی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ جاپانی معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ روزانہ ایک ہزار قدم چلنے سے نہ صرف وزن میں کمی آتی ہے بلکہ اس سے صحت کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔گو یہ تصور بہت پرانا ہے لیکن اب بھی جاپانی معاشرے میں اسے اہمیت حاصل ہے۔خود کو فٹ رکھنے کے لیے جاپانی زیادہ سے زیادہ پیدل چلتے ہیں۔انسانی صحت اور مزاج پر پیدل چلنے کے مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ڈپریشن کو ختم کرنے کا آسان حل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیدل چلا جائے۔اس سے توجہ اردگرد ماحول میں بٹ جاتی ہے اور آدمی کی سوچ کا دائرہ تبدیل ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے ڈپریشن یا ذہنی دباؤ آہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے اور موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پیدل چلنے سے دل کی بیماریوں اور ذیابیطس پر کافی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جسم میں خون کی گردش کو بڑھانے‘دل اور شریانوں کی صحیح کارکردگی کے لیے بھی پیدل چلنا ضروری ہے۔پیدل چلنے سے دل کی دھڑکن بھی نارمل رہتی ہے۔باقاعدگی سے پیدل چلنے والے لوگوں میں مشاہدے کی حس بھی تیز ہوتی ہے اور وہ اطراف کے لوگوں اور چیزوں کے بارے میں زیادہ بہتر اندازے لگاتے اور معلومات حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگ ٹریڈ مل یعنی مشین پر چلنا پسندکرتے ہیں کیونکہ اس کیلئے انہیں باہر نہیں جانا پڑتا اور وہ کنٹرولڈ ٹمپریچر میں واک کر لیتے ہیں تاہم واک مشینیں کبھی بھی نیچرل واک کی نعم البدل نہیں ہو سکتیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک کمرے میں بند ہوتے ہیں اور اوپر سے وہی کمبخت موبائل سامنے رکھ کر دیکھنا اور گانے سننا شروع کر دیتے ہیں جس سے دُور رہنے کے ہمیں چند لمحے میسر ہوئے تھے۔ پھر پارک یا سڑک کے اطراف میں پیدل چلنے سے آپ کو قدرتی مناظر اور آب و ہوا میسر ہوتی ہے جو ایک کلب میں نہیں مل سکتی۔ دیہات میں تو واک کا کلچر ویسے ہی عام ہے۔ بڑے بوڑھے نماز سے واپسی پر یا صبح اور شام کو لازمی کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں اور راستے میں جو ملتا ہے انہیں سلام کرتا ہے ‘ اس طرح وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔مشینوں پر واک کرنے سے چربی تو شاید کم ہو جائے لیکن ویسا ذہنی سکون میسر نہیں آ سکتا؛ تاہم اگر پیدل چلنے کی مناسب جگہ اور ماحول میسر نہ ہو تو مشین استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ زندگی حرکت کا نام ہے ۔حرکت میں برکت ہے۔کچھ نہ کچھ کرتے رہیے کہ چلنے پھرنے میں ہی عافیت ہے۔ بستر سے لگنے کا مطلب بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔میلبورن میں جس طرح کے ماحول اور انسان دوست منصوبے بنائے جا رہے ہیں‘ ویسے یہاں نئی سوسائٹیز میں ہی بن سکتے ہیں۔کچھ پوش ہائوسنگ سوسائٹیز میں تو ایسا ممکن ہے لیکن عام گنجان آباد علاقوں میں سڑک پر واک کرنے کا مطلب موبائل فون اور پرس کے ساتھ اپنی جان بھی خطرے میں ڈالنا ہے۔اس کے باوجود گھر میں بھی بہت سی ورزشیں ہو سکتی ہیں۔ ہر گھر میں سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ اگر دو تین مرتبہ سیڑھیاں ہی چڑھ اتر لیں تو اچھی خاصی کیلوریز کم ہو جائیں گی۔ واک شروع کرنی ہے تو ابتدامیں پیدل چلنے کا دورانیہ مختصر رکھیں اور اس وقت میں آہستہ آہستہ اضافہ کریں تاکہ تھکن کا احساس نہ ہو۔چلنے کی ر فتار بہت تیز اور نہ ہی سست ہو۔درمیانی رفتار سے چلیں تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کر سکیں۔ پیدل چلنے کے لیے آرام دہ جوتوں کا انتخاب کریں تاکہ تھکاوٹ کا احساس نہ ہو۔لباس بھی ایسا پہنیں جس میں خود کو پر سکون محسوس کریں۔ چہل قدمی سے پہلے جوس یا پانی کا استعمال کریں اور زیادہ مرغن کھانے نہ کھائیں کیونکہ یہ طبیعت میں بوجھل پن پیدا کرتے ہیں۔چہل قدمی کے فوراً بعد کچھ نہ کھائیں بلکہ تھوڑی دیر کے بعد ہلکی پھلکی غذا کھائیں۔ پانی کا استعمال ضرور کریں تاکہ پسینے کی صورت میں جسم سے جو نمکیات خارج ہو ئے ہیں ان کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ زندگی میں ہم اپنے اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں تو سوچتے ہوئے ہلکان ہوتے رہتے ہیں لیکن اپنی صحت کی پروا اس وقت تک نہیں کرتے جب تک خدانخواستہ ہمارے جوڑ جواب نہیں دے جاتے یا شوگر‘بلڈپریشر یا دل کی بیماریاں نہیں آ لگتیں۔ عافیت اسی میں ہے کہ ابھی اٹھیں اور آج ہی سے تھوڑی تھوڑی واک شروع کر لیں اور باقاعدگی سے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنالیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved