تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     11-09-2021

کنٹرول کیوں ضروری ہے ؟

حکمرانوں کی زندگیوں کا ایک رخ نہایت روشن اور دوسرا اتنا ہی ملفوف ہوتا ہے۔ ہمیشہ نیند اور بیداری کے درمیان جیتے ہیں۔ کبھی روشنی میں بند آنکھوں سے چلتے ہیں اورکبھی اندھی راہوں پر کھلی آنکھوں کے ساتھ چلنے سے کتراتے ہیں۔ جلوس حیات میں شریک عوام کو اپنی نظروں سے دیکھتے اوراپنی بصیرت سے پرکھتے ہیں۔ کبھی خود ستائشی کا شکار ہوتے ہیں اور کبھی احساسِ عظمت انہیں گھیر لیتا ہے۔ سیاستدان جب تک حکومت میں نہیں ہوتے‘ نہایت شفیق اور ملنسار ہوتے ہیں مگر جیسے ہی اقتدار کا بگل بجتا ہے تو وہ آنکھیں ماتھے پر سجا لیتے ہیں۔ کرسی کا خمار ان کی زبان سے بیاں اورآنکھوں سے عیاں ہونے لگتا ہے۔ پھر انہیں عوام کی دہائی بھلی لگتی ہے نہ ووٹر کی مسکان۔ پھول اچھے لگتے ہیں نہ کانٹے۔ صبحیں بھاتی ہیں نہ شامیں۔ پھر وہ اپنے وعدوں کو نبھاتے ہیں نہ منشور پر عمل کرتے ہیں۔ وہ اپنی ترجیحات خود طے کرتے ہیں اور عوامی مفاد سے زیادہ سیاسی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت آئی تو عوام شاد تھے، مکمل شاد! ہر دل امید کی کرنو ں سے روشن تھا۔ عوامی مسائل دنوں میں حل ہونے کے خواب پورے ہوتے دکھائی دے رہے تھے مگرتین سال بیت گئے‘ کچھ بھی تونیا نہیں ہوا۔ وہی پرانی سیاست اور وہی طرزِ حکمرانی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی اپنی ترجیحات ہیں۔ وہ اگلا الیکشن جیتنا چاہتی ہے‘ شاید اسی لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ پر زور دے رہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ آندھی آئے یا طوفان‘ 2023ء کے الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال بہرصورت ہو۔ وکلا برادری اورسول سوسائٹی‘ دونوں لاکھ اعتراضات کریں‘ اپوزیشن جتنا مرضی واویلا کرے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ہر قیمت پر قانون سازی کرناچاہتی ہے۔ اور تو اور‘ اب تو الیکشن کمیشن بھی حکومت مخالف صفوں میں کھڑا ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال پر37 اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اس کا کہنا ہے ''آئندہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر ای وی ایم کے استعمال کے لیے وقت بہت کم ہے۔ دوسرا، 150 ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کی شفافیت اور ساکھ مشکوک ہی رہے گی۔ ووٹنگ مشین کو ہیک کیا جاسکتا ہے‘ اس سے دھاندلی بھی نہیں روکی جاسکتی، او ر سب سے بڑھ کر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے ووٹرز کی شناخت گمنام نہیں رہے گی جو سراسر آئین پاکستان کی شق 226 کی خلاف ورزی ہے‘‘۔ میرے نزدیک الیکشن کمیشن کے اعتراضات کے بعد صورتحال انتہائی گمبھیر ہوچکی ہے مگر حکومت اس کا ادراک نہیں کر پارہی۔ وہ ضد کی بانسری بجائے چلی جارہی ہے۔ آئین کی شق 218 کے تحت صاف اور شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے مگر حکومت اپنی دھن میں مگن ہے۔ کیا حکومت نہیں جانتی کہ قانو ن سازی حکومت نہیں بلکہ پارلیمان کا کام ہے اور بہترین قانون سازی وہی ہوتی ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کا اتفاق ہو، ورنہ حکومت بدلتے ہی قوانین کا مستقبل بھی مخدوش ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں‘ الیکشن میں صرف حکومتی جماعت حصہ نہیں لیتی بلکہ اپوزیشن بھی اس دوڑ میں شریک ہوتی ہے۔ اس لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ ویساہی قومی اتفاقِ رائے جو آئین بناتے وقت اور اٹھارہویں ترمیم کرتے ہوئے نظرآیا تھا۔ اگر حکومت نے جلدبازی کی تو اداروں کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ جائے گا جو کسی طور بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
حکومت کوچاہیے کہ جذباتی ہونے کے بجائے الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو دور کرے‘ ورنہ معاملہ بڑھ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرے اور اپنی خواہشات کو اپوزیشن پر مسلط کرے نہ الیکشن کمیشن پر۔ حکمران نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس ملک میں بجلی کی ترسیل کا نظام ناکارہ ہو اور لوڈشیڈنگ کا راج ہو‘ وہاں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں کیسے کارآمد ہوسکتی ہیں؟ جس ملک کے زیادہ تر سکولوں میں کمپیوٹر لیب تک نہ ہوں‘ وہاں الیکٹرانک ووٹنگ کا خواب کیسے دیکھا جاسکتا ہے ؟جس ملک کی کارکردگی سائنس کے میدان میں نہ ہونے کے برابر ہو‘ وہ ملک کیسے اپنے شہریوں کو جدید مگر پیچیدہ ووٹنگ نظام کے گرداب میں دھکیل سکتا ہے ؟
حکومت ان دنوں صرف الیکٹرانک ووٹنگ کے بخار میں ہی مبتلا نہیں بلکہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی آرزو بھی اس کے دل میں بدرجہ اُتم مچل رہی ہے۔کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا بے لگام بھی ہے اور نا قابلِ اعتبار بھی۔ وہاں غلط خبریں جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہیں اور الزام تراشی دل کھول کر کی جاتی ہے۔ کوئی ثبوت نہ گواہ‘ صرف الزام ہی الزام۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا کے لیے نیاقانون بناتی اور پہلے سے موجود قوانین پر مؤثر عمل درآمد کرتی مگر حکومت نے سوشل میڈیا کی آڑ میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیے ہیں۔ حکومت پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے کے لیے قانون سازی کرنے جا رہی ہے جسے ساری صحافتی تنظیموں نے یکسر مسترد کردیا ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے حکمران آزاد صحافت کا گلاگھوٹنا چاہتے ہیں اور اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں۔ کیا جمہوری معاشروں میں ایساہی چلن ہوتا ہے ؟ کیسے ممکن ہے کہ ایک اکیس یا بائیس گریڈ کا آفیسر پورے ملک کے میڈیا کی لگامیں کھینچے۔ کیسے ممکن ہے کہ میڈیا اتھارٹی کے تحت بننے والے ٹربیونل 21 روز میں صحافیوں کو سزائیں دینے لگیں اور ان کے پاس صرف سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہو۔ کیا ہر صحافی سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے وکیلوں کی فیس ادا سکتا ہے ؟ خدارا! معاملے کی نزاکت کو سمجھیں اور فیک نیوز کا راستہ روکیں نہ کہ آزادیٔ رائے کو پابندِ سلاسل کریں۔ اگر صحافی اور صحافتی تنظیموں کی باتوں سے حکومت قائل نہیں ہو رہی تو وزرا کو چاہیے کہ پی ٹی آئی کے منشور پر ہی ایک نظر ڈال لیں، وہاں آزادیٔ صحافت کا ایک پور اباب موجود ہے۔ اسے پڑھ لیں‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہو ں کہ حکومت اپنی ترجیحات کو بے لگام کیوں کر رہی ہے۔ کیا حکومت نے اپنے منشور پرمن وعن عمل کر لیا ہے جو اب وہ میڈیا کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے؟ کیا پاکستا ن سے کرپشن کا خاتمہ ہوچکا ہے اور سارے مافیاز کی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں؟ کیا چینی، گندم، پٹرول اور ادویات کے مافیاز سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں؟ کیا مہنگائی اور بے روزگاری کاخاتمہ ہو گیا ہے؟ کیا ہماری معیشت امریکا، چین اور برطانیہ کے برابر ہوچکی ہے؟ کیا پاکستانیو ں کی فی کس آمدنی دوگنی ہوگئی ہے؟ کیا سرکاری اداروں کا خسارہ صفر ہوچکا ہے؟ کیا سٹیل مل، ریلوے اور پی آئی اے جیسے ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہوچکے ہیں؟ کیا گردشی قرضہ نچلی ترین سطح پر آ چکا ہے؟ کیا ہمارے حکمران اب غیر ملکی قرضہ مانگنے کی مجبوری سے آزاد ہو چکے ہیں؟کیا ہر طرف امن و انصاف کا بول بالا ہے ؟ کیا جنوبی پنجاب صوبہ بن چکا ہے؟ کیا ملک بھر کے ہسپتال اور تعلیمی ادارے یورپ کا مقابلہ کرنے لگے ہیں؟ کیا سارے صوبوں میں کرائم ریٹ سویڈن کی طرح صفر ہوچکا ہے؟ کیا خواتین اور بچے گھروں سے باہر محفوظ ہوگئے ہیں؟ کیا پٹوار اورپولیس کلچر تبدیل ہوچکا ہے ؟ کیا افسر شاہی سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد ہوچکی ہے؟ کیا وزیراعظم ہائوس اور گورنر ہاؤسز کو بڑی بڑی درسگاہوں میںبدلا جاچکا ہے ؟ کیا ہماری مشرقی اور مغربی سرحدیں پوری طرح محفوظ ہو چکی ہیں؟ کیا ملک کو درپیش اندرونی خطرات کا راستہ مسدود کیا جا چکا ہے؟ اگر یہ سارے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے تو حکومت کیوں میڈیا کی آزادی کے پیچھے پڑ گئی ہے ؟ میڈیا کو کنٹرول کرنا حکومت کے لیے اتنا ضروری کیوں ہے؟ کیا اس کے پاس کرنے کو اور کوئی کام نہیں؟ کیا الیکشن، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں؟ عباس تابشؔ کے اس شعر نے ساری الجھنیں ہی دور کردیں ؎
ہر ایک ہاتھ میں پتھر ہے کیا کیا جائے
یہ آئینے کا مقدر کا ہے کیا کیا جائے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved