تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-09-2021

سوویت افغان جنگ اور پاکستان

جب روئے زمین پر پاکستان کی شکل میں پہلی اسلامی ایٹمی قوت نمودار ہوئی تو دوسری ایٹمی قوتوں‘ امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، چین، اسرائیل اور بھارت کی نسبت پاکستان سب سے کم آمدن والا ملک تھا‘ اس وقت جس کی تیس فیصد آبادی اقوام متحدہ کے مقرر کر دہ غربت کے معیار سے پست زندگی گزار رہی تھی۔ یہاں غیر ترقی یافتہ معیشت سے پیدا ہونے والی تمام خرابیاں بدرجہ اتم موجود تھیں، زراعت پر انحصار کے باوجود خوراک کی خود کفالت میں کبھی تسلسل نہیں رہا، قدرتی وسائل کا ضیاع‘ ناقص منصوبہ بندی‘ انفراسٹرکچر کی غیر موجودگی اور ایٹمی ترقی میں معاون سہولتوں کے فقدان کے با وجود پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا کسی کرشمے سے کم نہیں تھا۔ پاکستان تیل کی دولت سے مالا مال بھی نہیں تھا، بھارت کی مانند اسے مضبوط صنعتی اساس بھی میسر نہیں تھی۔ پاکستان کے پاس اسرائیل جیسے تربیت یافتہ سائنسدانوں اور تکنیکی افرادی قوت کی بھی کمی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ شمالی کوریا جیسی رازداری سے بھی محروم تھا۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے سارے منظر نامے کو دیکھیں۔ 1960ء میں بھارت اور سوویت یونین کے مابین مضبوط معاشی اور دفاعی تعلقات کی ابتدا اور بعد ازاں ان کی عدیم المثال ترویج نے پاکستانی قیادت کو بھارتی عزائم کے تنا ظر میں روس مخالف امریکی بلاک کی طرف مائل کیا۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بھی امریکا کی نظر میں پاکستان کی قدر و قیمت میں خاطر خواہ اضافہ محسوس ہونے لگا تھا۔ پاکستان کو چونکہ انڈیا سے خطرات لاحق تھے‘ اس لئے فطری طور پر امریکی طرف داری کا مثبت جواب دیا گیا۔ 1948ء، 1965ء اور پھر1999ء میں کارگل کی صورت میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے تا دمِ تحریر لاینحل مسئلے پر تین بھر پور جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ 1962میں انڈیا کو لداخ میں چین کے ہاتھوں بھر پور ہزیمت اٹھانا پڑی تھی‘ اگرچہ اس کا ایٹمی پروگرام آزادی کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا مگر 62ء کی ہزیمت کے بعد اس نے پوری توجہ ایٹم بم بنانے پر مرکوز کر دی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں تب شامل ہوا جب بھارت نے سوویت یونین کی بھر پور سفارتی‘ دفاعی اور معاشی مدد سے پاکستان کو دو لخت کر دیا تھا۔ اس وقت باقی ماندہ پاکستان کی دفاعی قابلیت کا بھارتی وسائل سے موازنہ نہ صرف حوصلہ شکن تھا بلکہ ایٹمی قوت کے حصول کا متقاضی بھی تھا کیونکہ بھارت کی صرف بری فوج ہی پاکستان کی کل فوج سے اڑھائی گنا زیا دہ تھی۔ فضائیہ اور بحریہ کا تقابلی جائزہ لینا تو احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف تھا۔ اس کی واحد وجہ امریکی بے حسی‘ موقع پرستی اور امریکی اشرافیہ کا اصول ''استعمال کرو اور پھینک دو‘‘ تھا۔ حالانکہ اس سے قبل پاکستان نے امریکا اور چین کے مابین روابط اور تعلقات میں نہایت اہم بلکہ مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ چونکہ چین کو بھارت پر عسکری سبقت مل چکی تھی‘ اس لئے پاکستان کے نزدیک چین اور امریکا‘ دونوں ممالک کے بہتر تعلقات پاکستان کے مفاد کے علاوہ خطے کے استحکام کے لیے بھی ضروری تھے مگر اس احسان کا 'بدلہ‘ امریکا نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں اتارا!
تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کریں تو عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام میں چین کی بہت زیادہ معاونت رہی ہے۔ امریکا اور سوویت یونین کے خفیہ اداروں کو رپورٹس ملی تھیں کہ چین نے پاکستان کو وہ ٹیکنالوجی منتقل کر دی ہے جو خودچین نے1966ء میں حاصل کی تھی۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں چین کا کردار بے حد فعال تھا‘ اس کے بر عکس امریکا کا کردار نہ صرف مخالفانہ تھا بلکہ امریکا نے دھمکی آمیز لہجے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی پُر زور مخالفت بھی شروع کر دی تھی۔ یہاں سی آئی اے کے متعدد خفیہ معاون موجود تھے‘ کئی امریکی ادارے چین اور پاکستان کے تعلقات پر نظر رکھنے کے علا وہ ایٹمی ریسرچ کی بھی نگرانی کر رہے تھے۔1976ء میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی کہ اگر پاکستان نے فرانس کے ساتھ ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ منسوخ نہ کیا تو امریکا پاکستان کے ساتھ انہیں بھی عبرتناک مثال بنا دے گا۔
محض تین برس بعد سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرنے کی حماقت کر ڈالی۔ جب روسی افواج اپنے انجام سے بے خبر افغانستان میں داخل ہو رہی تھیں امریکا کو پاکستان کے ساتھ مصافحہ نہیں بلکہ معانقہ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی‘ یعنی ہنری کسنجر کی وارننگ بدلتے عالمی منظر نامے میں بخارات کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ امریکا کو معلوم تھا کہ پاکستان کو فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ دستیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ فرانس امریکا کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتا تھا لیکن وہ ٹیکنالوجی جو پاکستان کے استعمال میں تھی‘ اور جو1970ء کے بعد بیرونِ ملک سے بمشکل حاصل کی گئی تھی‘ امریکی خفیہ ادارے اس کا اور یورینیم کی افزودگی اور پلوٹونیم کی اندرونِ ملک در آمد کا سرغ لگا چکے تھے ۔کہا جاتا ہے کہ ایک جاسوس نے یہ راز اپنی جان خطرے میں ڈال کر چین کے اندرونی حلقوں سے حاصل کر کے امریکا کو فراہم کیا تھا۔ چینی معاونت کی تفصیلات اور پاکستان کے اولین بم کا ڈیزائن بھی سی آئی اے کو دیا گیا تھا۔ یہ ڈیزائن بنیادی طور پر چینی ساختہ ڈیزائن پر استوار تھا۔ البتہ 1983ء میں پنٹاگون نے جو دستاویزات مرتب کیں ان کے مطا بق ''پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کے پروگرام پر بڑی مستعدی اور تیزی سے عمل کر رہا تھا‘‘۔ اس دستاویز کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کہوٹہ کے مقام پر سینٹری فیوجز کی سہولت فراہم ہو چکی تھی‘ اور اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ اسے پاکستان جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کرے گا۔ امریکی ماہرین نے '' چائنہ پاک بم ‘‘ کے ڈیزائن کا نہ صرف مکمل تجزیہ کیا تھا بلکہ اس بم کی ایک نقل امریکا میں بنا کر اس کو ٹیسٹ بھی کیا گیا۔ اس وقت چونکہ افغانستان میں ''بدی کی سلطنت‘‘ یعنی سوویت روس کا معرکہ درپیش تھا‘ اس لیے وائٹ ہائوس نے پاکستان کے حوالے سے نرمی سے کام لیا؛ چنانچہ اس دوران جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک پر اس نوع کا سفارتی دبائو بھی محض دکھاوے کیلئے ہی ڈالا جاتا رہا کہ یہ ممالک پاکستان کو اعلیٰ ٹیکنالوجی اور متعلقہ آلات فروخت نہ کریں۔ روس سے ویتنام کی ہزیمت کا بدلہ چکانے کے باعث پاکستان امریکیوں کی آنکھ کا تارا بن چکا تھا‘ اس کیلئے بڑی امداد کا پیکیج کانگریس میں پیش کرنے کے علاوہ امریکی خفیہ ادارے کے ایک اعلیٰ عہدیدار ولیم جے کیسی کے ذریعے عرب ممالک کی تیل سے حاصل شدہ دولت ڈالرز کی شکل میں جنگی اخراجات کیلئے پاکستان کو الگ سے بھیجی جانے لگی۔ ولیم جے کیسی ایک منتقم مزاج شخص تھا‘ اس کا فلسفہ تھا کہ اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے کے لیے جن افراد، اداروں اور ممالک کی خدمات لی جائیں‘ انہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے۔ اس کے خیال میں روس کو صرف افغانستان سے بیدخل کرنا مطلوب نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے اندر گوریلا کارروائیوں کے ذریعے اس پر کاری ضرب لگانا امریکا کا اصل مقصود تھا تا کہ سوویت یونین بلبلا اٹھے اور اسے ایسی سزا دی جائے جو ویتنام میں خود امریکا کو بھی نہیں دی گئی تھی۔ اسی لیے امریکا نے اپنے دوستوں اور اتحادیوں سے حاصل کیا گیا کئی بلین ڈالرز کا سرمایہ خرچ کر کے مزاحمت کاروں کو سٹنگر میزائل جیسے تباہ کن ہتھیار اور اس وقت کا بہترین آ تشیں اسلحہ فراہم کیا۔
امریکی سینیٹ اس وقت پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بابت بے حد مضطرب ہو رہی تھی؛ چنانچہ 1984ء کے اوائل میں سینیٹر جان گلین اور ایلن کرسٹن نے غیر ملکی امداد کے قانون میں ایک ترمیم شامل کرنے کی حمایت شروع کر دی جس کا مقصد اس امداد کو دیگر بہت سے اقدامات سے مشروط کرنا تھا۔سینیٹ کمیٹی کے چیئر مین چارلس پرس نے جب جلاوطن پاکستانی رہنما بے نظیر بھٹو سے دریافت کیا کہ کیا وہ اپنے ملک کے لیے امریکی امداد کی بندش کی حمایت کرتی ہیں تو انہوں نے محتاط سا جواب دیتے ہوئے کہا بہتر یہ ہو گا کہ اس امداد کو جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی سے مشروط کر دیا جائے۔ ضیاء الحق حکومت میں اس بیان کا صاف مطلب یہی تھا کہ فی الوقت اسے روک دیا جائے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved