تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-09-2021

جامن کا پیڑ، سرخ فیتہ اور پیشی در پیشی

اب اسے محض اتفاق کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ رات میں نے ایک عرصے کے بعد کرشن چندر کا افسانہ 'جامن کا پیڑ‘ پڑھا اور صبح ایک دوست نے مجھے ایک میسیج بھیجا۔ دونوں کا بظاہر آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ ایک کرشن چندر کا افسانہ ہے جو لگ بھگ ساٹھ ستر سال قبل لکھا گیا اور اس کا بنیادی موضوع دفتری سرخ فیتہ ہے اور دوسرا ایک میسیج ہے جس کا مرکزی خیال بلکہ واقعہ ہمارے عدالتی نظام کی گھمن گھیریاں ہیں۔ اب بظاہر دونوں کا موضوع بھی مختلف ہے اور ان کے درمیان ساٹھ ستر سال کا فاصلہ بھی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ زمانی اعتبار سے پہلے کرشن چندر کا افسانہ 'جامن کا پیڑ‘ اور پھر دوست کا میسیج۔ پورا افسانہ تو کالم میں لکھنا ممکن نہیں بس اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ کرشن چندر جیسی تحریر کی روانی، خوبصورتی اور گرفت تو اس عاجز کے لیے ممکن نہیں، بس گزارہ کیجیے۔
رات بڑے زور کا جھکڑ چلا اور سیکرٹریٹ کے لان میں لگا ہوا جامن کا پیڑ گر گیا۔ صبح مالی نے دیکھا کہ درخت گرا پڑا ہے اور اس کے نیچے ایک آدمی دبا ہوا ہے جو زندہ ہے۔ مالی دوڑ کر چپڑاسی کے پاس گیا۔ چپڑاسی سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا۔ سپرنٹنڈنٹ لان میں آیا۔ تب تک وہاں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے۔ لوگ جامن کے درخت کی تعریفیں اور اس کی مٹھاس بارے گفتگو کرتے ہوئے اس کے گرنے پر افسردہ ہیں۔ مالی نے کہا کہ نیچے آدمی دبا پڑا ہے کوئی اس کی خبر بھی لے۔ اب بحث شروع ہو گئی کہ بندہ مر گیا ہے یا زندہ ہے۔ نیچے دبا ہوا آدمی بمشکل بتاتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ اب درخت کو اٹھانے پر بے مقصد گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ بالآخر سب مل کر اس درخت کو اٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن سپرنٹنڈنٹ کہتا ہے: میں پہلے انڈر سیکرٹری سے مشورہ کر لوں۔ انڈر سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹری کے پاس جاتا ہے‘ وہ جوائنٹ سیکرٹری کے پاس جاتا ہے جو بھاگ کر چیف سیکرٹری کو رپورٹ کرتا ہے۔ چیف سیکرٹری اپنے جوائنٹ سیکرٹری کو کچھ کہتا ہے۔ وہ آگے ڈپٹی سیکرٹری اور وہ انڈر سیکرٹری کو ہدایات دیتا ہے۔ فائل تیار ہوکر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتی رہتی ہے۔ آدھا دن گزر جاتا ہے۔
لوگ درخت کو ہٹا کر نیچے دبے ہوئے شخص کو نکالنا چاہتے ہیں، لیکن اسی دوران سپرنٹنڈنٹ فائل لیکر بھاگا بھاگا آتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے کہ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ ہمارا محکمہ تجارت ہے جبکہ یہ درخت محکمہ زراعت کی ملکیت ہے۔ ہم اس فائل کو ارجنٹ مارک کرکے محکمہ زراعت کو بھجوا رہے ہیں۔ دوسرے دن محکمہ زراعت سے جواب آ جاتا ہے کہ درخت محکمہ تجارت کے لان میں گرا ہے لہٰذا یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ محکمہ تجارت نے جواباً لکھا کہ درخت کو ہٹانے کی ذمہ داری محکمہ زراعت کی ہی ہے۔ سارا دن فائل چلتی رہی‘ شام کو جواب آیا‘ معاملہ چونکہ پھلدار درخت کا ہے اس لیے محکمہ ہارٹیکلچرکو مطلع کر دیا گیا ہے۔ ہارٹیکلچر کے سیکرٹری نے لکھا کہ ہم درخت لگانے پر مامور ہیں اس لیے درخت کو کاٹنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ درخت کے نیچے دبے ہوئے آدمی کو کاٹ کر نکال لیا جائے۔ آدمی کہتا ہے کہ اس طرح تو وہ مر جائے گا۔ اب اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ فائل کمنٹس کیلئے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دی جاتی ہے۔ وہ فوراً ایکشن لیتے ہیں اور دوسرے ایک قابل پلاسٹک سرجن کو بھیج دیتے ہیں۔ وہ دبے ہوئے آدمی کے سارے ٹیسٹ کرکے بتاتا ہے کہ اس کا آپریشن تو ہو سکتا ہے اور آپریشن کامیاب بھی ہو جائے گا مگر آدمی مر جائے گا۔
گزشتہ دو راتوں کی مانند اس رات بھی مالی نے آدمی کو کھانا کھلایا اور اسے تسلی دی کہ تمہاری فائل چل رہی ہے اور معاملہ بہت اوپر چلا گیا ہے۔ کل سارے سیکرٹریز کی میٹنگ ہے کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور ہو جائے گا۔ دبا ہوا آدمی آہ بھر کر آہستہ سے کہتا ہے:
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مالی پوچھتا ہے: کیا تم شاعر ہو؟ آدمی کہتا ہے: ہاں۔ صبح مالی نے چپڑاسی کو بتایا کہ دبا ہوا آدمی شاعر ہے۔ چپڑاسی نے اپنے کلرک کو بتایا۔ پہلے یہ بات سارے سیکرٹریٹ میں پھیلی، پھر یہ خبر شہر پہنچ جاتی ہے۔ اگلے روز لان شاعروں سے بھر جاتا ہے۔ رات وہاں مشاعرہ برپا ہوتا ہے اور اس کی فائل کلچرل ڈیپارٹمنٹ میں بھجوا دی جاتی ہے جہاں یہ آخرکار سیکرٹری کلچرل ڈیپارٹمنٹ کے پاس پہنچتی ہے۔ وہ شاعر کے پاس آ کر پوچھتا ہے کہ کیا وہ ان کی اکادمی کا ممبر ہے؟ انکار سن کر سیکرٹری کہتا ہے کہ میں کوئی بندوبست کرتا ہوں۔ اگلے دن سیکرٹری اس آدمی کو بتاتا ہے کہ اس کی اکادمی کی ممبرشپ منظور ہو گئی ہے اور یہ رہا منظوری کا لیٹر۔ آدمی کہتا ہے کہ مجھے نیچے سے کب نکالا جائے گا، جواب ملتا ہے کہ ہم یہی کچھ کر سکتے تھے‘ درخت اٹھوانا ہماری ذمہ داری نہیں‘ اگر تم مر گئے تو تمہاری بیوہ کا وظیفہ لگا دیا جائے گا‘ ویسے ہم نے فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کو لکھ دیا ہے‘ کل تک کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ اگلے روز اسے کاٹنے کا حکم آتا ہے تو محکمہ خارجہ والے بتاتے ہیں کہ یہ درخت ایک سربراہ مملکت نے لگایا تھا‘ اگر اسے کاٹا گیا تو اس ملک سے خارجہ تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ بدقت تمام اگلے روز وزیراعظم سے منظوری کے بعد جب فائل واپس آتی ہے تب تک وہ شخص مر چکا ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی فائل بھی مکمل ہو چکی ہوتی ہے۔ (افسانہ ختم)
اب دوست کا پیغام۔ ایک میڈیکل کالج (نام کو چھوڑیں) کے پرنسپل نے لکھا کہ ان کے ہسپتال میں نیا لگا ہوا ایئرکنڈیشنر پلانٹ نہ صرف یہ کہ چل نہیں رہا تھا بلکہ دو سال پہلے لگنے والا یہ پلانٹ ایک دن بھی نہیں چلا۔ پرنسپل نے تحقیقات کیں تو پتا چلا کہ اس کی کل ادائیگی پینسٹھ کروڑ روپے کی جا چکی ہے اور کنٹریکٹر اسے نامکمل چھوڑ کر چلائے بغیر غائب ہو گیا ہے۔ کمپنی سے رابطہ کیا تو اس نے ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا مگر وعدہ صرف وعدہ رہا۔ پرنسپل نے پہلے محکمے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو، پھر اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ اور وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کو مطلع کیا۔ انکوائری ہوئی، ملزم کا تعین ہوا مگر کچھ نہ ہوا۔ وزیراعلیٰ کے دفتر سے ہدایت ملی کہ پرچہ درج کروا دیں۔ پرنسپل نے بطور سربراہ ادارہ پرچہ درج کروا دیا۔ اگلے دو سال کچھ بھی نہ ہوا حتیٰ کہ پرنسپل ریٹائرڈ ہو گیا۔ سال بعد عدالت سے سمن آگئے کہ گواہی دیں۔ پرنسپل اگلی چھ تاریخوں پر عدالت جاتا رہا مگر کیس موخر ہو جاتا۔ ہر بار ایک نیا وکیل آتا اور کہتاکہ اسے یہ کیس ابھی دیا گیا ہے وہ اسے دیکھ نہیں سکا‘ لہٰذا اگلی تاریخ دے دیں۔ ساتویں تاریخ پر پرنسپل صاحب کی قوت برداشت جواب دے گئی اور انہوں نے کہاکہ آئندہ انہیں بلانے کے بجائے میڈیکل کالج کے حاضر سروس پرنسپل کو بلایا جائے کہ یہ کیس میرا ذاتی نہیں بلکہ ادارے کا ہے اور اب نیا سربراہِ ادارہ اسے دیکھے۔ پرنسپل کو بتایا گیا کہ قانون شہادت کے تحت گواہی کیلئے آپ کو ہی آنا ہوگا۔ اگلی تاریخ پر پرنسپل صاحب بطور احتجاج نہ گئے۔ دو ماہ بعد پولیس پرنسپل صاحب کے وارنٹ لے کر آگئی۔ معاملہ بڑی مشکل سے رفع دفع ہوا۔ پرنسپل صاحب کئی سال عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے۔ ایک دن جج صاحب سے پوچھاکہ اگر میں مرگیا تو اس کیس کا کیا بنے گا؟ جواب ملا: کیس داخل دفتر کر دیا جائے گا۔
جامن کے نیچے دبا آدمی مرگیا جبکہ پرنسپل صاحب زندہ ہیں اور سات سال میں معاملہ ابتدائی سماعت تک بھی نہیں پہنچا۔ اب اسے میرا ذہنی فتور کہہ لیں کہ فائل کا سرخ فیتہ اور عدالت کی پیشی، دونوں بالکل مختلف ہونے کے باوجود مجھے تو ایک جیسے لگے ہیں۔ اللہ جانے آپ کا کیا خیال ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved