تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     12-09-2021

ای وی ایم… جواب کون دے گا؟

دنیا کے بیشتر ممالک میں حکومتیں انتخابی عمل کے ذریعے بنتی ہیں۔ دنیا بھر کے سیاسی رہنما انتخابی عمل پر سوال بھی اٹھاتے رہتے ہیں۔ ایسے میں انتخابات کس طرح شفافیت سے کرائے جائیں اس کے لیے بھی مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں۔ وطنِ عزیز میں آج تک ہونے والے تمام الیکشنز کو بھی اپوزیشن کی جانب سے ہمیشہ دھاندلی زدہ قرار دیا جاتا رہا۔ صرف 1970ء میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی حد تک شفاف تھے۔ وزیر اعظم عمران خان شروع سے ہی صاف اور شفاف انتخابات کا نعرہ لے کر چلتے رہے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات میں کامیابی اور وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد بھی انہوں نے ہمیشہ اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ انتخابی اصلاحات کر کے ملک میں رائج فرسودہ نظام کو بدلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت انتخابی اصلاحات چاہتی ہے‘ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے اور اگلے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے نزدیک الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ''ای وی ایم‘‘ انتخابی عمل کو شفاف بنانے کا حتمی طریقہ ہے لیکن اپوزیشن اس کو دھاندلی کا نیا حربہ قرار دے رہی ہے۔ ایسے میں دونوں جانب سے سیاسی محاذ پر گولہ باری، نوک جھوک اور تلخ کلامی چلتی رہتی ہے۔ بات جمعہ کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس وقت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی جب اعظم سواتی صاحب نے الیکشن کمیشن پر انتخابات میں پیسے لے کر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا۔ کچھ زیادہ جذباتی ہو کر وزیرموصوف نے الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کی بات بھی کر دی۔ خیر اس کمیٹی نے حکومتی ارکان کی غیر موجودگی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے آئی ووٹنگ کا بل مسترد کر دیا؛ تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ الیکشن کمیشن کو آگ لگانے کے بیان پر مسلم لیگ (ن) چراغ پا ہو گئی اور اس بیان کو ''ہٹلر کی سوچ‘‘ کا عکاس قرار دے دیا۔ مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ حکومت ووٹر لسٹوں کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے لے کر نادرا کو دے رہی ہے تاکہ دھاندلی کی راہ ہموار کر سکے۔ اس کا جواب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے یوں دیا کہ الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر قرار دے دیا۔ نواز شریف سے قربت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے نہ صرف چیف الیکشن کمشنر پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا بلکہ انہیں مشورہ دیا کہ اگر انہیں سیاست کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو استعفا دے کر سیاست میں آئیں اور الیکشن لڑیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کے نزدیک اپوزیشن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن کو ملک و قوم کی کوئی فکر نہیں، اپوزیشن والوں کو اپنے مفاد کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن پر حملوں کی مذمت کی اور اس عزم کو دہرایا کہ ایک اور الیکشن میں دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔ ای وی ایم کیسے کام کرتی ہے‘ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز مختلف ٹی وی چینلز پر اس کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے ہیکرز کو ای وی ایم ہیک کرنے کا چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ آئیں اور مشین کو ہیک کر کے دکھائیں۔ وفاقی وزیر شبلی فراز نے اس مشین کو ہیک کرنے کی صورت میں 10 لاکھ روپے انعام کا اعلان بھی کر دیا۔ دوسری طرف ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ یعنی پی ڈی ایم اپنے پلیٹ فارم سے اس بات کو واضح کر چکی ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کسی صورت استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ پی ڈی ایم کے بقول یہ دھاندلی کا منصوبہ ہے اور 25 جولائی 2018ء کا ایکشن ری پلے کرنے کی تیاری ہے۔ اس ساری بیان بازی میں حکومت کی تنقید کا مرکز اپوزیشن کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن بھی ہے۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کا فیصلہ عجلت میں نہیں کیا جانا چاہئے۔ ابھی تک اس مشین کے ذریعے ووٹر کی بائیو میٹرک تصدیق کا کوئی طریقہ کار طے نہیں۔
دوسری طرف حقائق پر نظر دوڑائی جائے تو دنیا کی 167 جمہوریتوں میں سے صرف 8 ممالک میں ہی الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ رائج ہے جبکہ 9 ممالک جن میں جرمنی، آئرلینڈ، ہالینڈ اور ناروے جیسے ملک شامل ہیں‘ نے الیکٹرانک ووٹنگ شروع کر کے ترک کر دی۔ جرمنی کی آئینی عدالت نے اس طریقہ کار کو عدم شفافیت کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا جبکہ باقی ممالک نے بھی سکیورٹی، ہیکنگ سمیت دیگر خدشات کی بنیاد پر دوبارہ سے پرانے طریقہ کار کو اختیار کر لیا ہے۔ پاکستان تو ایسا ملک ہے جہاں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ان پڑھ ہے‘ کیا انہیں اس قلیل عرصے میں ان مشینوں کا استعمال سکھایا جا سکے گا؟ جو لوگ پڑوسی ملک بھارت کی مثال اس ضمن میں دیتے ہیں‘ ان کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ ہندوستان میں سب سے پہلے 1982ء میں کیرالہ ریاست کے ایک حلقے کے 50 پولنگ سٹیشنوں پر تجرباتی بنیادوں پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال شروع کیا گیا اور پھر 22 سال کی محنت‘ تربیت‘ تجربے اور مہارت کے بعد 2004ء میں لوک سبھا کے انتخابات میں اس کا مکمل طور پر استعمال کیا گیا۔ سابق بھارتی چیف الیکشن کمشنر منوہر سنگھ گل کے مطابق تو الیکشن کمیشن کے اہلکار الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں لے کر بازاروں اور چوراہوں پر کھڑے ہوتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کا استعمال پریکٹس کر کے سکھایا جائے۔ ہالینڈ کی مثال لیں تو وہاں پر 1980ء کی دہائی میں ووٹنگ مشینوں کا استعمال شروع ہوا اور 90 کی دہائی میں ان کا بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا تھا‘ 95 فیصد ڈچ ووٹرز ان مشینوں کو استعمال کرنا جان چکے تھے‘ لیکن پھر ان مشینوں کی سکیورٹی اور اس کے ذریعے ہونے والے انتخابات پر سوال اٹھنے لگے۔ 2006ء میں ہالینڈ میں ایک تحریک کا آغاز ہوا جس کا نام تھا:"We Do Not Trust Voting Computers" ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تحریک کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ ہالینڈ کی پہلی انٹرنیٹ سرور فراہم کرنے والی کمپنی اور دیگر کمپیوٹر ماہرین نے شروع کی تھی۔ اس تحریک پر ہالینڈ کی پارلیمنٹ نے انکوائری کمیشن بٹھائے اور پھر بالآخر 2007 میں ان کمیشنز کی رپورٹ کی بنیاد پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال ترک کر دیا گیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ای وی ایم کو لے کر حکومت اور اپوزیشن میں بڑھتے ہوئے اختلافات کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا طریقہ کار طے ہونے کی صورت میں بیرون ملک مقیم 70 لاکھ کے قریب ووٹرز میں سے 70 فیصد سے زائد ووٹ انہیں کی جھولی میں گریں گے اور ان ووٹوں کی مدد سے وہ با آسانی اگلے 5 سال کے لیے بھی اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کو ''سلیکٹڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کرتی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے سے کسی بھی حلقے میں انتخابی رزلٹ کو مینج کرنا با اثر حلقوں کے لیے بڑا آسان ہو جائے گا۔
شاید اسی لئے اپوزیشن بظاہر اپنے تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا راستہ روکنے کے لیے متحد اور پُرعزم دکھائی دیتی ہے‘ تاہم اپوزیشن جماعتوں میں کتنا دم خم ہے یہ اب تک ان کی چلائی گئی تحریکوں سے واضح ہو چکا ہے۔ مہنگائی، صحت، روزگار اور کاروبار سمیت بنیادی عوامی مسائل پر یہ اپوزیشن عوام کے لیے مضبوط آواز نہیں بن پا رہی‘ اس حقیقت کے باوجود کہ ان سبھی محاذوں پر تحریک انصاف کی حکومت کو مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اگلے انتخابات کیسے ہوں گے اس کے لیے انتخابی اصلاحات قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہوں گی۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی بیان بازی دیکھ کر لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی پارہ مزید ہائی ہوتا دکھائی دے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved