تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     12-09-2021

کاک ٹیل اور ابرار احمد

سونا جاگنا
گہری نیند سونے کے لیے گھوڑے بیچنا پڑتے ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو خرید کر بیچے جاتے ہیں۔ خوابِ خرگوش کے مزے لینے کے لیے صرف ایک خرگوش درکار ہوتا ہے، اسے چارپائی کے ایک پائے سے باندھ لیں اور آنکھیں موند لیں۔ اس کے بعد کا عمل جاگنے کا ہے۔ اگر ویسے آنکھ نہ کھلتی ہو تو ایک ڈرائونا خواب دیکھیں اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں۔ ایک کلرک دیر تک سویا کرتا اور دفتر میں اسے جھاڑیں پڑتیں۔ وہ اس غرض سے ایک ڈاکٹر کے پاس گیا جس نے اسے گولیاں لکھ کر دیں کہ رات کو سوتے وقت ایک کھا لیا کرو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور جب اس کی آنکھ کھلی تو کافی وقت تھا۔ وہ تیار ہو کر دفتر پہنچا اور سپرنٹنڈنٹ سے بولا: سر آج تو میں وقت پر آیا ہوں۔ سپرنٹنڈنٹ بولا: آج تو وقت پر آئے ہو لیکن کل سارا دن کہاں تھے؟ سوتے ہوئے چلنا یعنی نیند میں چلنا ایک دوسری مصروفیت ہے اس لیے سوتے وقت دروازے وغیرہ کھلے چھوڑ دیں تا کہ ٹکرانے سے بچ سکیں۔ دو آدمیوں کے بارے میں مشہور ہے جو اپنی اپنی ملحقہ چھت پر سویا کرتے۔ ایک نیند میں کوئی بات کرتا اور دوسرا نیند میں ہی اس کا جواب دیتا۔ سوتے جاگتے کا قصہ یہ ہے کہ آدمی سو بھی رہا ہو اور جاگ بھی۔ ایک طریقہ جھنجھوڑ کر جگانا بھی ہے۔ نیند میں خراٹے لینا ایک اضافی مشغلہ ہے۔ قسمت سو رہی ہو تو اسے اوپر والا ہی جگا سکتا ہے یا لاٹری۔ یہ شادیٔ مرگ کا باعث بھی بن سکتی ہے، اس لیے اس کا ٹکٹ خرید کر ضائع کر دینا چاہیے۔ بچہ سو نہ رہا ہو تو اسے لوری سنائی جاتی ہے۔ کسی زمانے میں چھوٹی عمر کے بچوں کوافیون بھی کھلائی جاتی تھی۔ ایک دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر سونا بھی ہوتا ہے۔ کچی نیند سے جاگ جانا صحت کے لیے مفید نہیں ہوتا اس لیے نیند کو اچھی طرح سے پکا لینا چاہیے۔ یہ پکی پکائی بھی مل سکتی ہے۔
رونا دھونا
اگرچہ رونا الگ اور دھونا علیحدہ چاہیے تا کہ دونوں کام یکسوئی سے ہو سکیں۔ تاہم دونوں کام اکٹھے کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ساتھ منہ بھی مفت میں دھل جاتا ہے۔ ٹسوے بہانا رونے کی ایک سہولت ہے۔ مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لیے ایک مگر مچھ کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ خواتین رونے کی زیادہ شوقین ہوتی ہیں۔ ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے بیوی کو خوش رکھنے کا طریقہ پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کے حُسن کی تعریف کر دو اور بس۔ وہ گھر گیا تو اس کی بیوی آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ بولا: بہت خوبصورت لگ رہی ہو! اس نے حیران ہو کر منہ اوپر اٹھایا اور بولی: کیا کہا؟ تو اس نے کہا کہ بالکل حُور معلوم ہو رہی ہو۔ یہ سن کر بیوی نے رونا شروع کر دیا تو وہ بولا: عجیب بات ہے، میں نے تمہاری تعریف کی ہے اور تم رونے لگ گئی ہو۔ تو وہ بولی: روئوں نہ تو اور کیا کروں؟ بڑی لڑکی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے، چھوٹی نے انگلی مشین میں دے کر زخمی کر لی ہے، اوپر سے آپ شراب پی کر آ گئے ہیں! ذرا کم رونا مطلوب ہو تو گن کر آٹھ آٹھ آنسو بہائے جاتے ہیں اور ب سولہ ہو جائیں تو بس کر دینا چاہیے۔ زیادہ رونا مطلوب ہو تو زار و قطاررویا جاتا ہے یعنی قطار میں لگ کر۔ بَین کر کے رونا ایک علیحدہ ورائٹی ہے۔ روتے روتے گھِگھی بندھ جائے تو اسے کھولنا پڑتا ہے۔ میر تقی میرؔ شعر کم کہا کرتے اور رویا زیادہ کرتے تھے۔ آہ و بکا کرنے کا مطلب آہیں بھر کر رونے کے ساتھ ساتھ بک بک کرنا بھی ضروری ہے۔ گلا پھاڑ کر رویا جائے تو بعد میں اسے سینا پڑتا ہے۔ کھل کر رونے کا مطلب جملہ اعضا کو کھول کر ایک طرف رکھ دینا اور پھر رونا ہے۔ اپنی قسمت کو بھی رویا جاتا ہے اور اگر وقت باقی ہو تو دوسروں کی خوش قسمتی پر بھی آنسو بہا سکتے ہیں۔ ہر وقت رونے والا روتا روح کہلاتا ہے۔ پھُوٹ پھُوٹ کر رونا رونے کی ایک الگ قسم ہے جس کے لیے آپ جسم کی کسی جگہ سے بھی پھُوٹ سکتے ہیں۔ ایک بلک بلک کر رونا بھی ہوتا ہے جس میں رونا کم اور بلکنا زیادہ ہوتا ہے۔ دھاڑیں مار کر رونے کا مطلب رونے کے ساتھ ساتھ شیر کی طرح دھاڑنا بھی ہے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
تم نہیں دیکھتے
دلوں سے دہلیزوں اور
خوابوں سے تعبیروں تک کا سفر
طے کرتی ہیں آنکھیں/ یا قسمت
یا پھر طے ہو جاتا ہے یہ سفر
محض اتفاق سے
اور ہر سفر کی ایک منزل ہوتی ہے
اور صعوبت / اور آدمی کے پاس ہوتی ہیں
صرف آنکھیں/ آنکھیں دیکھتی ہیں
دُور کے راستوں کو/ اور رگوں کو بھر دیتی ہیں
موسموں اور منظروں کی آگ سے
اتار دیتی ہیں تھکن/ اور دیکھتی رہتی ہیں
رات، دن چمکتے جگنوئوں کی طرح
تھوڑا زادِ سفر باندھ دیتی ہیں
یادداشت کی گٹھڑی میں
۔۔۔۔۔
ہنستی ہیں اور دیکھتی رہتی ہیں
کھلتے ہوئے پھول
بارش میں بھیگتے ہوئے
درخت اور آدمی
دریائوں کے کنارے
آبادیوں میں اترنے والی شام
مسکراتی ہوئی دھوپ
اور مکتب سے نکلتے بچوں کی اجلی وردیاں۔۔۔۔۔
روتی ہیں اور دیکھتی رہتی ہیں
ایڑی میں چُبھ جانے والی کیل
اُڑتے ہوئے بادل
معدوم ہوتے ہوئے ماہ و سال
ابدیت کے جنگل میں/ بھٹکتی ہوئی چاندنی
اور ہاتھوں سے گرتی ہوئی مٹی
آنکھیں نکل جاتی ہیں
قدموں سے آگے
اور مکمل کر دیتی ہیں سفر
بھر جاتی ہیں
اور دیکھتی رہتی ہیں
گزری ہوئی بستیاں اور
ان میں ایستادہ گھر
اور دہلیز پر کھلا ہوا پھول
اور آغاز کی سرخوشی
اور ملال کے سائے
آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں
لیکن تم نہیں دیکھتے
پڑے رہتے ہو عقب کے اندھیروں میں/ لمبی تان کر
اور نہیں جانتے
آنکھیں کیا کچھ دیکھ سکتی ہیں!!
آج کا مطلع
عشق ایسا نہیں کہ تم بھی کرو
یہ وہ جھگڑا نہیں کہ تم بھی کرو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved