گاندھی خاندان کے چشم وچراغ راجیوگاندھی نے رحیم یار خان اورسندھ کے کچھ حصوں پر قبضہ جمانے کے ارادے سے اپنی ٹڈی دَل فوج ہماری مشرقی سرحدوں پر ڈیپلائے کرنا شروع کر دی ۔اس کی آرمڈ کور کا Brasstacks جنگی مشقوں کے حوالے سے اس بڑی تعداد میں حرکت میں آنا معمولی بات نہیں تھی۔ اس سے بھارت کی بد نیتی اور پاکستان کو بڑا نقصان پہنچانے کے اشارے مل رہے تھے کہ ا چانک جنرل ضیا الحق نے ایک منصوبے کے تحت کلدیپ نیئرکا ڈاکٹر قدیر خان سے انٹر ویو کراتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کا بھر پور اظہار کرا دیا۔ یہ اس لئے تھا کیونکہ راجیو گاندھی نے Brasstacks کی آڑ میں چار لاکھ سے زائد فوج پاکستان کی سرحدوں پر جمع کر لی تھیں‘ اس کی فضائیہ اور بحریہ بھی پاکستان سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہی تھیں اور اس مہم جوئی کے پیچھے سوویت یونین کارفرما تھا کیونکہ افغان گوریلے روس کے اندرونی علا قوں ترکمانستان‘ ازبکستان اور تاجکستان میں بھی کارروائیاں کر رہے تھے۔ اسی قسم کے حملوں سے'' تیسری جنگِ عظیم‘‘ چھڑ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا‘مگر صرف پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کی صلاحیت کے خوف کے پیش نظر بھارت کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑا۔ اسی دوران ولیم جے کیسی کسی سازش کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مئی1987ء میں اس کی پر اسرار ہلاکت پر آج تک ایک دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکی نقطہ نظر میں خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے خفیہ اداروںکی ایک انتہائی خفیہ دستاویز سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ پاکستان نے ایک ایسے دھماکہ خیز ہتھیار کا تجربہ کر لیا ہے جو بڑی طاقتوں کے جوہری ہتھیاروں کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگلے برس جنرل ضیا الحق اپنے دیگر اعلیٰ فوجی حکام اور امریکی سفیر اور ملٹری اتاشی کے ہمراہ ایک پر اسرار فضائی حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی رابرٹ اوکلے کو سفیر مقرر کر دیا گیا اورجنکی معاونت برنٹ سنو کرونٹ کو تفویض کی گئی ۔چند ماہ میں سوویت افواج کا کمانڈر جنرل بورس گروموف اپنی شکست خوردہ فوج کے ساتھ افغانستان سے پسپا ہو گیا۔ بے شک افغانستان کی جنگ نے سوویت یونین کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ دس سالہ مہم جوئی نے روسی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ‘نتیجے میں اس کا اندرونی بحران شدت اختیار کر گیا‘ ہزاروں جانیں تلف ہوگئیں ‘معیشت کی بنیادیں ہل گئیں اور روسی معاشرہ حوصلہ ہار گیا۔ سوویت یونین کے مکافاتِ عمل کا شکار ہو کر شکست وریخت سے دوچار ہونے کے ساتھ ہی امریکہ نے فوراًہی مصلحت کا لباد ہ اتار پھینکا کیونکہ اب اس کے لیے پاکستان کی افادیت وہ نہیں رہی تھی۔ ملک کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دیرینہ خیر خواہ پیٹر گالبرائتھ اور مارک سیگل پاکستان پہنچ کر وزیر اعظم‘ صدر مملکت اور مسلح افواج کے سربراہان اور ایٹمی سائنسدانوں کے ما بین غلط فہمیوں کے بیج بونے لگے تاکہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے عمل کو سبو تاژ کیا جا سکے حالانکہ امریکیوں کو معلوم تھا کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت 1970ء میں اپنا بم ''مسکراتا بدھا‘‘ کے نام سے موسوم کر چکا تھا ۔پوری ایک دھائی افغانستان کی جنگ میں پاکستان امریکہ کااتحادی رہا جس کا نصب العین روس کی شکست و ریخت تھی ۔روس کا انجام ویت نام میں امریکی حشر سے کہیں زیا دہ بد تر ہوا تا ہم امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے‘ جسے پاکستان میں امریکی وائسرائے کہہ کر پکارا جاتا تھا وزیر اعظم پر واضح کر دیا کہ امریکی قانون کے مطابق اگر پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں تو اس کی امداد بند کر دی جائے گی۔
مضحکہ خیز بات یہ کہ سینیٹر لیری پریسلر نے1984ء میں بیرونی امداد ایکٹ میں جو ترمیم کروائی تھی اس کا مسودہ پیٹر گا لبرائتھ نے ہی تیار کیا تھا جب تک افغان روس جنگ جاری رہی صدر ریگن اور بش ترمیم کی اس شق کو کسی نہ کسی طرح گول کرتے رہے لیکن اب افغانستان کی جنگ ختم ہو گئی تھی‘ امریکی منصوبہ سازوں کی نظر میں پاکستان کی اہمیت نہ ہونے کے مترادف تھی۔ روس کے انہدام کے بعد امریکہ نے پاکستان کے ازلی دشمن اور روس کے دیرینہ خیر خواہ بھارت سے محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں ۔ضروری تھا کہ پاکستان یا تو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہو جائے یا پھر حالات کا سامنا کر نے کیلئے تیار رہے ۔اب پاکستان سے تعلق امریکہ کیلئے ضرر رساں ثابت ہو رہا تھا کیونکہ پاکستان امریکی نظر میں پریشانی کا موجب بن گیاتھا۔ بھارت کو اس حقیقت کا بخوبی علم تھا کہ اب دنیا میں صرف ایک سپر پاور امریکہ ہے اور قدیم سرپرست روس اب قصۂ پارینہ ہو چکاہے۔ اپنی فوج اور معیشت کو سہارا دینے کیلئے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے امریکہ بھارت مشترکہ فوجی مشقیں شروع ہو گئیں۔بھارت نے امریکہ سے ہتھیاروں کی خریداری کی طویل فہرست تیار کر لی‘ امریکی اسلحہ ساز عرصہ دراز سے جس کے متمنی تھے۔ اگلی دہائی میں پاکستان کو دانستہ '' جوہری اچھوت‘‘ بنا دیا گیا اگر چہ بھارت اور اسرائیل دونوں ممالک کے پاس ایٹم بم موجود تھے لیکن وہ کسی سزا کے مستوجب نہیں تھے۔ لیری پریسلر اورجان گلین مکتبہ فکر کے امریکی اور حکمران اس خیال کے حامی تھے کہ تیسری دنیا میں پاکستان کو'' ایک خوفناک مثال‘‘ بنا دیا جائے جو دیگر اقوام عالم کیلئے باعث ِعبرت ہو‘ لیکن برا ہو '' دہشت گردی‘‘ کا جس نے امریکہ کو پھر وہیں لا کھڑا کیا جہاں سے روس کی ذلت آمیز پسپائی ہوئی تھی ۔
نائن الیون کے بعد اکتوبر2001ء میں امریکہ اپنے لائو لشکر کے ساتھ افغانستان میں اتر نا شروع ہو گیا۔ اس وقت یہی کہا جا رہا تھا کہ بس دو تین ماہ میں افغانستان سے تمام مشکوک اور مخالف عنا صر کو مار بھگا دیں گے۔پوری دنیا ایک جانب‘ ملا عمر کا اسلامی لشکر ایک جانب تھا۔ امریکہ اور نیٹو نے اپنا ہر تباہ کن بم اور ہتھیار طالبان کو کچلنے اور مار بھگانے کے لیے استعمال کیا لیکن بیس برس تک وہ پتھروں سے ہی سر ٹکراتے رہے ۔درویش صفت طالبان سے لڑنے کے لیے ایک جانب امریکی اور نیٹو فوج کے لیے ڈبوں میں بند بہترین خوراک اور پانی سے بھرے جہاز اتر رہے تھے کہیں پاکستان کی راہوں سے کنٹینروں کی قطاریں ان تک پہنچنے کیلئے ایک ساتھ چل رہی تھیں تو ان کے مقابل افغان طالبان سوکھی روٹی کے ٹکڑوں کو پانی میں بھگو بھگو کر پیٹ بھررہے تھے ۔ جیسے ہی نائن الیون ہوا تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ہر طرف ایک خوف کی فضا تان دی گئی۔ یہ کچھ اسی طرح کے منا ظر تھے جو بھارت میں بسنے والے سکھوں کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد نئی دہلی اور بھارت کے مختلف حصوں میں دیکھنے اور سہنے کوملتے رہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں ‘کچھ معافیاں بھی مانگی گئیں کیونکہ انہیں اس وقت ایک بار پھر'' دہشت گردی کے عفریت ‘‘پر قابو پانے کی سعی میں پاکستان سے 1980ء کی طرز کے معانقوں کی ضرورت تھی۔مگر اس وقت بھی ہماری قیادت کو امریکہ کا اصل چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔وہ جانتے تھے کہ ان کے ساتھ ہمیشہ کی طرح کیا ہونے جا رہا ہے ‘اس لئے ایک طرف جہاں انہوں نے دنیا کو اپنے مقابل آنے سے روکے رکھنے کا کھیل جاری رکھا تو ساتھ ہی'' کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں‘‘ کے الزامات بھی سنتے رہے۔ان کے '' ڈو مور‘‘ کی جھڑکیاں بھی سنیں اور ان کے ترلے منتوں سے بھی محظوظ ہوتے رہے ۔امریکہ اور اقوام عالم کے ساتھ چلنے کیلئے ان کی خاطر سب کچھ کرنے کے با وجود پاکستان نے اپنا مفاد ایک لمحے کے لیے بھی اوجھل نہ ہونے دیا کیونکہ ایک وقفے کے بعد امریکیوں کی بھارت سے پیار کی پینگیں اور پاکستان پر نشتر زنی کے ان منا ظر کا انہیں ابھی سے ہی اندازہ تھا۔ امریکہ کے دھکوں اور دانت چبانے کے مناظر دیکھنے کے لیے انہیں ایک یا دو دہائیوں کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ انہیں روس کی افغانستان سے ہزیمت اٹھا کر واپسی کے بعد کی طرح پاکستان سے کیا جانے والا سلوک نوشتۂ دیوار کی طرح صاف طو رپر دکھائی دے رہا تھا ۔(ختم)