تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     12-09-2021

False Flag اور حقیقت

False Flagایک ایسی اصطلاح ہے جس کا استعمال گفتگو ہو یا تحریر‘کسی بھی صورت میں زیادہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر لوگ اس سے واقف بھی نہیں ہوتے ‘مگر ان دو لفظوں پر مبنی فلسفے کا استعمال بہت زیادہ ہو رہا ہے ۔ اس کا بنیادی مطلب کسی کی وابستگی اور مقاصد کی غلط تشریح کرنا ‘ جھوٹ اور دھوکے کا استعمال ہے۔ اس لفظ کا استعمال پہلے ان بحری قزاقوں کے لیے ہوتا تھا جو جہازوں کو لوٹنے کے لیے جعلی جھنڈوں کا استعمال کیا کرتے تھے۔مطلب کچھ یوں ہے کہ یہ لٹیرے اپنی کشتیوں پر اس طرح کا جھنڈا لگالیتے تھے جو امن کی علامت ہو یا جس سے ایسا تاثرملے کہ جیسے وہ کوئی سرکاری یا محض کاروباری لوگ ہیں ‘مگر موقع ملتے ہی حملہ کر کے تجارتی جہازوں کو لوٹ لیا کرتے تھے ۔اسی طرح جنگوں میں بحری فوج یعنی نیوی کے اہلکار بھی یہی ترکیب لڑایا کرتے تھے مثال کے طور پر وہ اپنی کشتی پر اپنے سرکاری جھنڈے کی بجائے مخالف فوج یا کسی غیر جانب دار ملک کا جھنڈا لگا کر اپنی پہچان چھپالیتے تھے۔جدید دور میں اس کا استعمال عالمی سطح کے مذموم اور جنگی مقاصد کے لیے کثرت سے کیا جاتا ہے۔ اس بھیانک کلیے کے تحت کوئی بڑا بہانہ بنا کر یا کوئی حادثہ خود کروا کر اور اس کو جواز بنا کر کسی ملک پر حملہ کیا جاتاہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ میں 9/11 کا حادثہ ہے جس کو کوئی بھی انجینئر یا ہوا بازی سے منسلک فرد ماننے کو تیار نہیں کہ جہازوں کے ٹکرانے سے اتنی بڑی عمارتیں مکمل زمین بوس ہو سکتی ہیں‘لیکن اس کو جواز بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا ‘اسی طرح عراق پر خطرناک ترین ہتھیاروں کا جواز بنا کر حملہ کیا گیا ‘جبکہ بعد میں برطانوی وزیر اعظم نے اعتراف کیا تھا کہ یہ حملہ سراسر غلط تھا ۔
سب سے اہم انکشافات امریکی فوج کے سابق سربراہ General Wesley K. Clark کے ہیں‘ جنہوں نے ایک خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ امریکی اعلیٰ قیادت نے اس کو کہا تھا کہ نہ صرف عراق پر حملہ کرنا ہے بلکہ پانچ سالوں کے اندر اندرسات مسلم ممالک پر حملہ کرکے حکومتیں ختم کرنی ہیں ۔یہ سلسلہ عراق سے شروع ہوکر لیبیا ‘لبنان‘شام‘ صومالیہ‘ سوڈان اور ایران تک جائے گا۔یہ جنرل انکشاف کرتا ہے کہ ہم نے (امریکہ) عراق پر حملہ کرنے سے پہلے خود ہی عراق میں صدام مخالف فضا بھی پیدا کی تھی۔مزید اپنے حیران کن خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے خیال میں امریکہ کے اندر کچھ لوگ ایسے حیران کن فیصلے لے رہے تھے کہ جس سے لگتا تھا کہ Policy Coup ہو چکا ہے۔ اسی لئے اس قسم کے فیصلے ہو رہے تھے ‘ ان فیصلوں کے متعلق وہ دو دفعہ ایک ہی بات دہراتا ہے کہ میرا دماغ گھوم گیا تھا ۔
افغانستان میں نہتے سویلین لوگوں پر بھی بارود کی بارش برسائی گئی ۔نہ صرف افغانستان بلکہ انڈیا کی مرضی اورمدد سے پاکستان کے اندر دہشت گرد کارروائیوں سے پچاس ہزارعام لوگ زندگی کی بازی ہار گئے۔جس کی تفصیل اور نوعیت کا آپ بخوبی اندازہ رکھتے ہوں گے۔اگر آپ تمام مسلم ممالک میں ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ لگائیں ‘جو امریکہ کی براہ راست اور بالواسطہ کارروائیوں سے ہوئی ہیں تو یہ تعداداس سے زیادہ ہے جو مسلم ممالک نے دو عالمی جنگوں میں دیکھیں۔چونکہ دونوں عالمی جنگوں میں مسلمان فریق نہیں تھے‘ سوائے سلطنت عثمانیہ کے جو پہلی عالمی جنگ کی ایک فریق تھی ‘اس لئے بھی ان کا زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا ۔اس لئے یہ بات بجا طور کہی جاسکتی ہے کہ روس کے ٹوٹنے کے بعد مغربی دہشت گردی کی جنگی لہر جو اب بھی جاری ہے‘ مسلمان ممالک کے لیے ایک عالمی جنگ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس سلسلے کے ایک بڑے محاذپر امریکہ کی افغانستان میں شکست اورپسپائی ہوئی ہے لیکن امریکی False Flag کا ایک بوکھلایا ہوا حامی انڈیا ابھی تک بضد ہے کہ دہشت گرد طالبان ہیں نہ کہ امریکہ۔اس کے لیے آپ صرف سوشل میڈیا پر جاکر بھارتی میڈیا کے ویڈیو کلپس ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔
اب آجائیں مسلح جنگوں سے ہٹ کر دماغ گھمانے والے گردوپیش کے False Flag حالات واقعات کی طرف جس میں نرم اور غیر محسوس طاقت کے ذریعے بھی مغرب کے وار جاری ہیں۔اس میں مسلم ممالک کو نفسیاتی ہیجان اور شناخت کے بحران سے دوچار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں آزادی کے نام پر معاشرتی بحران برپا کرنے کے لیے محاذ گرم ہیں ۔اس کے لیے ایک بڑا حربہ صنفی آزادی کے نام پر سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے جنریشن گیپ کو جنر یشن گلف میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ آپ محترمہ ملالہ کو لے لیں جو افغانستان پر امریکی بمباری کے دوران دکھائی دیں نہ ہی سنائی دیں مگر امریکہ کے رخصت ہوتے ہی ان کے اقوالِ زریں نما بیانات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ان کے اپنے ملک کے مقبوضہ علاقے کشمیر میں ہر عمر کی عورتوں کے ساتھ جو ظلم اور جبر ہو رہا ہے اس کے متعلق انہوں نے کبھی اشاریہ و کنایہ میں بھی ذکر نہیں کیا ۔اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے غور کریں تو آپ کو ان کی اس بات پر ملال ضرور ہو گا۔ ان محترمہ کا کچھ عرصہ پہلے ایک متنازعہ بیان تو آپ کو یاد ہی ہو گاجس پر ان کے حامیوں اور مداحوں کو بھی ملال ہوا تھا ۔کون کس کے ایجنڈے پر ہے اور کونساجھنڈا اٹھائے ہوئے ہے وہ اسی قسم کے بیانات سے واضح ہوتا ہے۔اس قسم کے خیالات اور لوگ False Flagکے پیروکاروں میں جعلی پیروں کے کارندوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی پاکستان میں پڑھائی جانے والی کتب کی بھی ہیں۔او لیول اور اے لیول کے امتحانات عام طلبہ و طالبات کی بجائے اشرافیہ کلاس کے بچوں کے بس کی بات ہوتی ہے۔ان امتحانات کے لیے علیحدہ سے نصاب اور کتب چلی آتی ہیں جن میں بعض دفعہ غیر مناسب اور اقدار کے خلاف مواد کی شکایات آتی رہی ہیں۔اسی طرح انگلش اور اردو میڈیم سکولوں کے بچوں کے نصاب مختلف تھے مگر پہلی دفعہ حکومت نے اس کو یکساں کیا ہی ہے تو عالمی اداروں نے ایک عجیب وغریب اعتراض اٹھایا بلکہ اعتراض زبردستی پیدا کیا۔ وہ کچھ یوں ہے کہ ایک تصویر جو کہ درسی کتاب کا حصہ ہے میں باپ اور بیٹا کرسی پر بیٹھ کر جبکہ ماں اور بیٹی فرش پر بیٹھ کر پڑھائی کر رہے ہیں ۔تو اعتراض یہ ہے کہ دونوں فی میل کو زمین پر کیوں دکھایا گیا ہے حالانکہ اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ باپ اور بیٹا پھنس کر ایک ہی کرسی پر بیٹھے ہیں جبکہ ماں بیٹی کو آرام سے فرش پر کھلے طور بیٹھ کر پڑھا رہی ہے۔ بھلا ہو شہباز گل صاحب کا جنہوں نے نہ صرف اس یہ اعتراض کرنے والوں کی خبر لی بلکہ ایک خاتون اینکر کی بھی کچھ یوں خوب خبر لی کہ خبر بن گئی اور یہ ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔یہ اینکر صاحبہ اس بات پر اعتراض کر رہیں تھی کہ حکومت تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے لیے لباس کے متعلق ضابطہ اخلاق کیوں نافذ کر رہی ہے‘جس کا جواب گل صاحب نے کچھ اس طرح دیا کہ لوگوں کے چہرے ماند گل کھل اٹھے‘کیونکہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا پہلی دفعہ کسی بڑی شخصیت نے دفاع کیا ہے‘ وگرنہ ماضی کی طرح نہ صرف یہ کتاب کی بندش ہوجانی تھی اور شائد کچھ متعلقہ ارباب اختیار بھی معطل ہوجانے تھے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved