بین الاقومی تجارت کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اسے مثالی اسی وقت مانا جاتا ہے جب یہ برابری کی سطح پر ہو یا آپ کی برآمدات درآمدات سے زیادہ ہوں۔ صرف اس بات پر اکتفا کر لینا کہ عوام کی قوت خرید زیادہ ہے تو درآمدات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امریکہ کی درآمدات اس کی برآمدات سے زیادہ ہیں پھر بھی وہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ 2020 ء میں امریکہ نے 2.1 کھرب ڈالر کی برآمدات اور 2.8کھرب ڈالر کی درآمدات کیں۔ اس فرق کے باوجود امریکہ ترقی کیسے کر رہا ہے اور دیگر ممالک میں ڈالرز میں درآمدات بڑھنے سے حالات کیوں خراب ہو جاتے ہیں؟ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ امریکہ کو معاشی موازنے کے طور پر دیکھنا ایک غیر حقیقی عمل ہے۔اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ جتنے چاہے ڈالرز چھاپ سکتا ہے اور کوئی اس سے پوچھ بھی نہیں سکتا کہ تجارتی خسارے کے باوجود ڈالرز کی کثرت کیسے ہے۔ چین کی معیشت سے موازنہ زیادہ حقیقی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا ڈالر پر کنٹرول نہیں ہے۔ ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین کی سالانہ برآمدات 281 ارب ڈالرز اور درآمدات 230 ارب ڈالر ہیں۔ تقریباً 51 ارب ڈالرز کی برآمدات زیادہ ہیں یہی وجہ ہے کہ تمام عالمی سازشوں کے باوجود ملک ترقی کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ جب سے نیا مالی سال شروع ہوا ہے درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگست 2021ء میں تجارتی خسارہ تقریبا ًچار ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جو کہ پچھلے سال اسی مہینے کی نسبت سے 133 فیصد زیادہ ہے۔ اسی طرح درآمدات میں بھی پچھلے سال اسی ماہ کی نسبت تقریباً 90 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ برآمدات میں بھی مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اگست 2021ء میں برآمدات دو ارب 33 کروڑ ڈالرز رہیں جو کہ جون 2021ء کی نسبت 41 کروڑ ڈالرز کم ہیں۔ یہ معاملہ تشویشناک ہے جسے سنجیدگی سے لیا جانا ضروری ہے۔ جب کسی ذمہ دار وزیر‘ مشیر یا بیوروکریٹ سے اس بارے استفسار کیا جاتا ہے تو سارا ملبہ مشینوں کی درآمدات پر ڈال کر بوجھ اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سرکاری بابو تو وجہ بیان کر کے بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی سطح پر حکومت بھی یہی سمجھتی ہے کہ ذمہ داری مشینوں کی درآمدات پر ڈال کر بہتری کا کوئی حل تلاش نہ کیا جائے۔ اس معاملے کو سمجھداری سے لے کر چلنے کی ضرورت ہے دوسری صورت میں یہ حکومت کو بڑا نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ اس وقت ڈالر کی قیمت 168 روپے سے بڑھ چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ تجارتی خسارے میں ریکارڈ اضافے کو بتایا جا رہا ہے۔ اگر اسی حساب سے درآمدات بڑھتی رہیں تو یہ سالانہ درآمدات کے ہدف 70 بلین ڈالرز سے بڑھ سکتی ہیں جس سے ممکن ہے کہ ڈالر کی قیمت 180 روپے سے تجاوز کر جائے۔
اس حوالے سے کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ دے کر معاملات کو زیادہ بگڑنے سے روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ لائیو سٹاک اور زراعت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بہترین معیار کا دودھ پیدا کرنے کے باوجود مکھن‘ پنیر اور دودھ کی بڑی مقدار درآمد کی جاتی ہے جبکہ پاکستان مناسب سی توجہ کے ساتھ ملکی ضرورت کی ڈیری اشیا خصوصی طور پر پنیر بنانے میں خود مختار ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر یہ وجہ پیش کی جاتی ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے اسی لیے تجارتی خسارہ کم نہیں ہوتا لیکن پنیر کو بنانے اور اسے برآمد کرنے کے لیے خام مال درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح گوشت کی برآمدات کا معاملہ ہے۔ پاکستان گوشت کی برآمدات میں برازیل‘ انڈیا‘ امریکہ اور آسٹریلیا سے بہت پیچھے ہے ۔حلال گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے جبکہ حلال گوشت کی برآمدات میں پاکستان انیسویں نمبر پر ہے۔ اس حوالے سے جب میں نے گوشت کی برآمدات کے ماہر میاں عبدالحنان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ گوشت کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود ہم امریکا‘ یورپ اور بیشتر ایشیائی ممالک میں گوشت برآمد نہیں کر رہے جبکہ بھارت دنیا میں گوشت کا دوسرا بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔ ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں حلال گوشت کی پیداوار پاکستان کی نسبت کم ہے جبکہ تھائی لینڈ دنیا کو حلال گوشت کا چھ فیصد مہیا کر رہا ہے۔ ملائیشیا 2022 ء تک جی ڈی پی کا پانچ فیصد اسی صنعت سے پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اگر ہم بیف کی بات کریں تو بیف کی برآمدات میں برازیل دنیا کے تمام ممالک پر بازی لے گیا ہے۔ برازیل کے بعد بھارت‘ آسٹریلیا ور امریکا سر فہرست ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان بیف کی برآمدات میں چودہویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی 70فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور ان کی آمدنی کا دارومدار زراعت اور لائیو سٹاک پر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں برآمدات سے منسلک سلاٹر ہاؤسز اپنی مکمل صلاحیت کے صرف 40 فیصد پر کام کر رہے ہیں۔ ان تلخ حقائق کی سب سے بڑی وجہ حکومتی عدم دلچسپی اور غیر متوازن پالیسی رہی ہے۔ تھوڑی سی حکومتی توجہ پاکستان کو گوشت کی برآمدات میں پہلے نمبر پر لانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
وزیرخزانہ شوکت ترین صاحب نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں کی جائے گی۔ یہ فیصلہ ان حالات میں کیا جا رہا ہے جب پاکستان میں ڈالر مضبوط ہے اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب کی ساری توجہ برآمدات بڑھا کر ڈالرز پاکستان میں لانے کی طرف ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان افغانستان کو تقریباً دو ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا اس تجارت کو روپوں میں تبدیل کرنے سے دو ارب ڈالرز ملکی معیشت میں شامل ہو سکیں گے یا ملک پاکستان دو ارب ڈالر کی آمد سے بھی محروم ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ افغانستان سے پاکستان کو ہونے والے درآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شوکت ترین صاحب سے گزارش ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کریں۔شوکت ترین صاحب کا موقف ہے کہ افغانستان میں ڈالر کی قلت ہے۔ دس ارب ڈالرز امریکہ نے روک رکھے ہیں جس کے باعث انہیں تجارت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں‘پاکستان کے اقدامات افغانستان میں معاشی بہتری لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ہمسایہ ملک کی بہتری کے بارے سوچنا اچھا عمل ہے لیکن اس سے پہلے اپنے گھر کی فکر زیادہ ضروری ہے۔ مقامی کرنسی میں تجارت کا ایک معاہدہ 2011ء میں چین اور پاکستان کے ساتھ بھی ہوا تھا جس میں پاک چین تجارت ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یووان میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ 2018ء میں اس پر عملی طور پر کام کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن آج تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ شوکت ترین صاحب سے گزارش ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی درآمدات کے باعث ڈالر کے آوٹ فلو کو روکنے کے لیے چین کے ساتھ تجارت ڈالر کی بجائے یوان میں شروع کر دی جائے۔ پاکستانی درآمدات کا بڑا حصہ چین سے آتا ہے اور برآمدات امریکہ یورپ اور گلف ممالک میں کی جاتی ہیں۔ اس فیصلے سے برآمدات سے آنے والے ڈالرز میں بھی خاص کمی واقع نہیں ہو گی اور ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یا تو سٹیٹ بینک مداخلت کر کے ڈالر کی قیمت کو نیچے لائے جیسے ماضی میں 168 سے 153 تک لے جایا گیا تھا یا پھر اوپر دی گئی تجاویز پر فوری عمل درآمد کا کوئی راستہ نکالیں۔ عدم توجہ پاکستانی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔