تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-09-2021

آئیے‘ تھوڑا ذہین ہو جائیں

ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت کچھ بدل جانا تھا اور بدل ہی تو گیا ہے۔ زندگی اس قدر متنوّع ہوچکی ہے کہ بہت کچھ دیکھا بھالا ہونے کے باوجود پہچانا نہیں جاتا۔ آج کے انسان کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اُسے وہ سب کچھ میسّر ہے جس کے کبھی صرف خواب دیکھے جاتے تھے۔ اور کیا کیجیے کہ بدنصیبی بھی یہی ہے! جو کچھ کبھی صرف خواب و خیال کا حصہ تھا وہ حقیقت کا روپ دھار بیٹھا ہے تو زیادہ الجھنوں کا سامان کر رہا ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن! یعنی ع
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دَم نکلے
ہر دور بہت سی تبدیلیاں اور اُتنی ہی پابندیاں بھی لاتا ہے۔ جن تبدیلیوں کے نتیجے میں زندگی کا حلیہ تبدیل ہوتا ہے اُن سے مطابقت رکھنے والی عادات کو اپنانا بھی ناگزیر ٹھہرتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گام گام فکری و عملی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان نے گزشتہ چار صدیوں کے دوران بہت کچھ سیکھا اور اُسے زندگی کا حصہ بنایا ہے یعنی فطری علوم و فنون سے متعلق پیش رفت کو بنیاد بناکر زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنایا ہے‘ آراستہ کیا ہے۔ مادّی اعتبار سے انسان نے کم و بیش وہ سب کچھ پالیا ہے جس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی الجھن سی محسوس ہوتی تھی کہ وہ سب کیسے حاصل کیا جاسکے گا۔ آج عام آدمی کو بھی ایسی سہولتیں میسّر ہیں جو کبھی شہنشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوا کرتی تھیں! اور کبھی کیا‘ ابھی سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک یہی تو کیفیت تھی۔ ایک دور تھا کہ بادشاہوں کو بھی کہیں پیغام پہنچانا ہوتا تھا تو کئی کئی دن اور بعض معاملات میں تو کئی ہفتے لگ جاتے تھے۔ اعلیٰ نسل کے اور غیر معمولی طاقت کے حامل گھوڑوں پر قاصدوں کو روانہ کیا جاتا تھا۔ جب تک کہیں پیغام پہنچتا تھا‘ دونوں طرف بہت کچھ بدل چکا ہوتا تھا۔ آج عام آدمی معمولی سے خرچ پر دنیا بھر میں کہیں بھی موجود شخص سے گفتگو بھی کرسکتا ہے اور اُسے دیکھ بھی سکتا ہے۔ ایک دنیا ہے جو اب ہماری انگلیوں پر متحرّک ہے‘ بلکہ ناچ رہی ہے۔ مگر یہ ناچتی ہوئی دنیا ہمیں بھی تو تِگنی کا ناچ نچارہی ہے۔
وقت کے بہت سے تقاضے ہیں۔ ہر دور میں وقت کا ایک تقاضا ہر صورت برقرار رہتا ہے اور وہ ہے ذہن کے استعمال کا۔ ذہن کو بروئے کار لاکر کیے جانے والے فیصلے ہی ہماری زندگی کو آسان بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ غور و فکر کرنے کی عادت انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ جہاں ناگزیر ہو وہاں ذہن کو بروئے کار لائے بغیر کیا جانے والا ہر کام غیر مطلوب نتائج پیدا کرتا ہے۔ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں کم و بیش ہر انسان پر لازم ہوچکا ہے کہ ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ یہاں ذہن کے پردے پر یہ سوال ابھر سکتا ہے کہ ذہن تو سبھی استعمال کرتے ہیں‘ پھر اس معاملے پر زیادہ زور دینے کی کیا ضرورت ہے؟ عمومی حالت میں ہم ذہن کو بروئے کار نہیں لاتے بلکہ محض اس گمان میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم ذہن کو بروئے کار لارہے ہیں۔ جو کچھ ماحول میں ہو رہا ہے اُسے دیکھنے‘ سننے اور جھیلنے یا ہضم کرنے کو سوچنے کا عمل نہیں کہا جاسکتا۔ جو معلومات ہم حواس کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اُس پر غور کرکے مطلوب نتائج اخذ کرنے اور اُن نتائج کی روشنی میں خیالات مرتب کرکے اپنے لیے موزوں لائحۂ عمل مرتب کرنے کی صورت ہی میں ہمارے لیے کامیابی اور خوش حالی یقینی بنانے کی سبیل نکلتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ زندگی کے کم و بیش ہر معاملے میں پورے انہماک کے ساتھ ذہن کو بروئے کار لایا جائے تاکہ جو بھی لائحۂ عمل مرتب کیا جائے وہ جامع‘ موثر اور بارآور ہو۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ایسا کرنے کے لیے ہم واقعی سنجیدہ ہوں۔ سنجیدہ ہوئے بغیر ہم زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے ایسا کچھ بھی نہیں کرسکتے جو وقت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔
آج کی زندگی ہم سے ہر معاملے میں ذہین ہونے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اب ہر وہ اُس چیز کو ''سمارٹ‘‘ کہا جارہا ہے جو کم سے کم وسائل کے خرچ پر زیادہ سے زیادہ مسائل کا حل یقینی بناتی ہو۔ ہر دور میں اہلِ فکر نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ کم سے کم وسائل بروئے کار لاکر زیادہ سے زیادہ موافق نتائج یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ آج لازم ہوچکا ہے کہ ہم اپنے وسائل کو ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ بارآور طریقے سے بروئے کار لائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مسائل کا حل ممکن بنایا جاسکے۔ ہر شعبے میں بڑھتی ہوئی مسابقت کے پیشِ نظر اب وقت اور وسائل کے ضیاع کی عیاشی برداشت نہیں کی جاسکتی۔ مسابقت کی نوعیت دیکھتے ہوئے وقت بہت بھی ہو تو بہت کم دکھائی دیتا ہے اور وسائل اچھے خاصے ہوں تب بھی لازم ٹھہرتا ہے کہ اُنہیں پورے انہماک اور سنجیدگی سے بروئے کار لایا جائے تاکہ اُن کے نتائج ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ موافق ثابت ہوں۔ ہماری معاشی‘ معاشرتی اور خانگی زندگی بدل چکی ہے۔ ہر شعبہ ہم سے بھرپور توجہ کا طالب ہے۔ یہ بھرپور توجہ وقت اور وسائل دونوں کے درست ترین استعمال سے متعلق ہونی چاہیے۔ آج کی معاشی دنیا غیر معمولی مسابقت کی حامل ہے۔ محشرؔ بدایونی نے خوب کہا ہے ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
آج اگر کسی کو کچھ کر دکھانا ہے تو بہت سوں کو پیچھے چھوڑنا پڑے گا۔ مسابقت کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہر طرح کے معاملات میں دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایسے میں ذہن کا معقول انداز سے استعمال ہی انسان کو کسی قابل بناسکتا ہے‘ بہتر زندگی یقینی بنانے کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔
''سمارٹ کلچر‘‘ نے آج کم و بیش ہر شعبے پر اپنا تصرّف قائم کرلیا ہے۔ کارپوریٹ کلچر کے تحت کام کرنے والے اداروں نے ایسا ماحول متعارف کرایا ہے جس میں صرف اُن کے لیے پنپنے کی گنجائش ہے جو اہلیت کے ساتھ کام کرنے کی سکت اور لگن بھی رکھتے ہوں۔ اب محض خواندگی سے کام نہیں چلتا‘ معاملات کو سمجھنا اور مزید سوچنا بھی پڑتا ہے۔ اب صرف وہی لوگ تیزی سے زیادہ کامیابی کی طرف بڑھ سکتے ہیں جو ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملات کو تیزی سے اور کم وسائل میں درست کرنے کے ماہر و عادی ہوں۔ فی زمانہ سمارٹ ہونے کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ آپ کسی کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کے ثابت ہوں۔ ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے جب ہم یہ طے کرلیں کہ اپنی ذات کو ویلیو ایڈیشن کے مرحلے سے گزارتے رہیں گے‘ اپنے وجود کو اپ گریڈ کرتے رہیں گے۔ جو لوگ ایک ہنر جانتے ہیں وہ بھی کامیاب رہتے ہیں مگر زیادہ کامیابی اُنہیں ملتی ہے جو کئی ہنر سیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اکیسویں صدی چاہتی ہے کہ ہر انسان بارہ مسالوں کی چاٹ جیسا ہو جائے۔ جس میں جتنی زیادہ خوبیاں ہوں گی وہ اتنا ہی زیادہ کارگر ہوگا۔ ادارے بھی ایسے افراد کی خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن میں کئی کام کرنے کی اہلیت پائی جائے اور وہ بھی نمایاں مہارت کے ساتھ۔ مہارت کا حامل ہونے پر انسان کم وسائل استعمال کرکے زیادہ اور بہتر نتائج دیتا ہے۔ آج ہر ادارہ صرف اُن کی خدمات حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مہارت رکھتے ہوں بلکہ کام کرنے کی لگن کے ساتھ ساتھ ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے کم سے کم وسائل کی مدد سے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی اہلیت کے بھی حامل ہوں۔ لاگت میں کمی ہر کاروباری ادارے کا انتہائی بنیادی مسئلہ ہے۔ منافع بڑھانے کے لیے قیمت کا بڑھانا تو لازم ہے ہی مگر اُس سے بھی بڑھ کر لاگت کا گراف نیچے لاکر افادیت بڑھانا بھی ناگزیر ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب لوگ اپنے حصے کا کام زیادہ سے زیادہ ذہانت بروئے کار لاتے ہوئے انجام دینے کے عادی ہوں۔ ایک نئی اور زیادہ معیاری زندگی آپ کی منتظر ہے۔ اُسے اپنانے کے لیے تیار ہو جائیے مگر شرطِ اوّل یہ ہے کہ ذہانت کا ساتھ اپنائیے‘ اپنے حصے کے کام کو مہارت اور ذہانت دونوں سے آراستہ کیجیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved