ہم نے تو دریائے سندھ کے کنارے پہ واقع ایک معمولی سے پرائمری سکول سے حرف شناسی کا آغاز کیا تھا‘ جو پاکستان کی آزادی سے تقریباً تیس سال قبل قائم ہوا تھا۔ اس وقت میری چند ہی سال عمر ہو گی۔ جو یاد پڑتا ہے‘ یہ ہے کہ جب میں سکول جانا شروع ہوا تو ان دنوں دریا طغیانی پہ تھا اور ہمارے پہلے دن سے ایک رات پہلے سکول بپھرتی لہروں کی نذرہو چکا تھا۔ لکڑیاں اکٹھی کر کے کچھ فاصلے پر جلدی سے ایک چھپر بنا دیا گیا۔ وہ ٹاٹوں کا زمانہ تھا۔ ہم ٹاٹ زمین پر بچھاتے اور قطاروں میں بیٹھ جاتے تھے۔ ایک دو ہفتوں میں وہ چھپر بھی پانیوں میں بہہ گیا۔ پھر تقریباً ایک میل دور ایک محفوظ جگہ پر سکول منتقل ہوا۔ وہ کسی پُرانی بستی کے کھنڈرات تھے۔ ایک ٹاہلی کا درخت اور ایک بوسیدہ کمرہ‘ یہ تھا اس وقت کا بھاگسر پرائمری سکول۔ پہلی اور دوسری جماعت کی تعلیم وہاں سے مکمل کی۔ اس زمانے میں کوئی فیس نہ ہوتی تھی‘ تعلیم مکمل طور پر مفت تھی۔ ایک دو کتابیں جو ہم پڑھتے‘ وہ سرکار کی طرف سے حاصل ہو جاتی تھیں۔ ہمارے اساتذہ تب مڈل سکول پاس تھے‘ یعنی انہوں نے آٹھ سال کی تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ ان کی تقریباً ایک سال ٹریننگ ہوتی تھی۔ اس کے بعد ان کو سکول میں تعینات کیا جاتا تھا۔ اردو زبان‘ حساب‘ جغرافیہ اور تاریخ اوائل کے سالوں میں پڑھائے جاتے تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ ہمارے اساتذہ میں سے کبھی کوئی غیر حاضر ہوا ہو یا کلاس میں آ کر پڑھایا نہ ہو۔ اگلے مرحلوں میں بھی سکولوں میں نظم و ضبط‘ وقت کی پابندی اور روزانہ کوئی نئی بات سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔
کالج میں پہنچے تو نئی دنیا دیکھی۔ تب ویت نام کی جنگ شروع ہو چکی تھی اور ہم بھارت کے ساتھ ستمبر کی جنگ اور شملہ معاہدہ کر چکے تھے۔ کالج میں کشادہ‘ صاف اور روشن کلاس رومز تھے۔ گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں داخلہ لے کر جو خوشی ہوئی وہ ذاتی طور پر امریکہ کی چھ جامعات میں‘ جہاں مختلف اوقات میں دس سال گزارے‘ داخل ہونے پر بھی نہ ہوئی تھی‘ مگر جامعہ پنجاب میں داخلہ‘ نصف صدی پہلے جب آتش ابھی جوان تھا‘ یونیورسٹی آف کیلے فورنیا‘ سانتا باربر میں تعلیم کے کئی سال منفرد تھے۔ اس سے قبل میں جامعہ پنجاب میں تین سال اور قائدِ اعظم یونیورسٹی میں تقریباً ڈیڑھ سال کی معلمی کر چکا تھا۔ علم کی روشنی کے دروازے کوئی کھولنا چاہے تو حسبِ مقدور کھلتے ہی رہتے ہیں۔ اس کے لیے یونیورسٹی میں بھی جانے کی ضرورت نہیں‘ کتاب‘ مشاہدہ‘ کھلی آنکھیں‘ کشادہ دل اور تھوڑا تر دماغ‘ کافی ہیں۔ لگن ہو تو دماغ میں تری اس کے اندر سے ہی اتر آتی ہے۔ بہرحال اس وقت مقصد اپنی سوانح عمری لکھنا نہیں‘ بلکہ یہ بتانا ہے کہ مفت سرکاری تعلیم نے ہمیں آگے نکلنے کے مواقع دیئے۔ ہمارے سب ہم عصر اور ہمارے بڑے شاعر‘ فلسفی‘ ادیب‘ لکھاری اور برصغیر کے سب نامور تقریباً ایک جیسے سکولوں‘ کالجوں اور جامعات میں پڑھتے تھے۔ انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں ہمارے علاقوں خصوصاً غیر منقسم پنجاب‘ سندھ اور سرحد اگرچہ بنگال اور تب کے ہندوستان کے دیگرعلاقوں کی نسبت ابھی تعلیمی میدان میں پیچھے تھے‘ لیکن پھر بھی یہاں سے نوجوان مرد و خواتین یورپ اور امریکہ کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے۔ جنہیں اور بھی کچھ پانے اورآگے بڑھنے کا راز مل سکا‘ انہوں نے وقت‘ سرمایہ اور جوانی کا ایک حصہ تعلیم حاصل کرنے میں گزارا۔ تحریکِ آزادی کی اعلیٰ قیادت نے ابتدائی تعلیم اپنے ملک میں حاصل کرنے کے بعد مغرب کا رخ کیا تھا۔ وہاں علمی روایات گہری اور معیار بلند ترین تھا۔
آج بھی مغرب ہر نوع کی تعلیم میں آگے ہے‘ خصوصاً برطانیہ اور امریکہ کی جامعات۔ چین‘ جاپان اور فرانس میں جامعات کی کمی نہیں‘ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے وہاں بھیجتے ہیں۔ صرف بھارت کے امریکہ کی جامعات میں ایک لاکھ کے قریب طلبا و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ ہماری تعداد آبادی کے لحاظ سے کافی کم ہے‘ مگر ہزاروں میں جا رہے ہیں۔ ہم یا دیگر ترقی پذیر ممالک جتنی بھی سرمایہ کاری کیوں نہ کر لیں‘ ان کے مقام تک پہنچنا تا حال نا ممکن نظرآتا ہے اور میرے خیال میں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ ہر ادارے کی اپنی ایک تاریخ‘ ثقافت‘ ماحول اور روایات ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے ہر تعلیمی ادارہ منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ جو ہے اس کو بہتر سے بہترکرنے کی ضرورت ہے۔ یہ طے ہے کہ نقل بمطابق اصل ہو ہی نہیں سکتی۔ مغرب میں بھی کوئی یہ بھونڈا طریقہ اختیار نہیں کرتا۔ امریکہ میں بھی دیکھا ہے کہ ہر کوئی کسی بڑی مشہور یونیورسٹی کا رخ نہیں کرتا‘ اگرچہ رش ان کی طرف ہی ہوتا ہے۔ علاقہ‘ ماحول‘ علمی شعبہ اور مشہور اساتذہ کی موجودگی جیسے معاملات بھی ترجیحات طے کرتے ہیں۔
میں تو ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جن کو تعلیم بھاگسرپرائمری سکول سے یونیورسٹی آف کیلے فورنیا تک مفت ملی۔ جامعہ پنجاب میں بھی پنجاب حکومت کا میرٹ پر وظیفہ خوار تھا۔ میں یہ بات اس لیے نہیں کر رہا کہ خود سرکاری تعلیم سے مستفید ہوا‘ بلکہ سب ترقی یافتہ ممالک میں بارہویں تک تعلیم مفت ہے‘ البتہ کالجوں اور جامعات کے لیے داخلے کا معیار سخت ہے‘ مگر جس کو داخلہ مل جائے‘ اس کے لیے سہولتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ فیسیں دینا پڑتی ہیں‘ مگر کوئی جامعہ تجارتی بنیادوں پہ نہیں چلائی جاتی۔ امریکہ میں تین مختلف قسم کی جامعات ہیں۔ اول‘ سرکاری یا جنہیں سٹیٹ یونیورسٹی کہا جاتا ہے‘ ہلکی پھلکی فیس اور ہر ریاست کے شہریوں کیلئے نسبتاً مزید کم‘ اور کوئی بھی نہ دے پائے تو طلبا کو قرض دیا جاتا ہے۔ دوسری قسم اس سے بہتر جامعات کی ہے‘ جنہیں اپنی سٹیٹ نے قائم کیا ہو اور ہر سال مالی امداد دی جاتی ہے‘ مگر زیادہ تر وسائل جامعات خود بھاری فیسوں اور وفاقی اداروں کی امداد سے پیدا کرتی ہیں۔ ایسی جامعات نے صدیوں سے وقف بھی قائم رکھے ہیں‘ جن کی سرمایہ کاری سے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ نارتھ کیرولینا کے مشہور تمباکو کا کاروبارکرنیوالے ارب پتی خاندان نے نہ صرف اربوں کا سرمایہ ویک فاریسٹ یونیورسٹی کے وقف میں رکھا بلکہ ہزاروں ایکڑ زمین اور تمام تر عمارات بھی بنوا کر دیں۔ یہاں بھی درویش نے ایک سال معلمی کی تھی۔ یہ امریکہ کی خوبصورت ترین جامعات میں سے ایک ہے اور یہ پرائیویٹ یونیورسٹی کے زمرے میں آتی ہے‘ مگر اس کو چلانے میں نہ بانی خاندان کا ہاتھ ہے‘ نہ کوئی اثر و رسوخ اور نہ کوئی منافع۔
ہمارے ہاں طبقاتی امتیاز جاگیرداری اور ذات پات کے نظام کی پیداوار ہے۔ سرمایہ داری نظام میں معاشی طبقات تو موجود ہیں‘ مگر قانونی طور پر اور تعلیم کے میدان میں مساوات ہے۔ برطانیہ میں محدود پیمانے پر پرائیویٹ سکول ہیں‘ جہاں صرف دولت مند لوگوں کے بچے جا سکتے ہیں‘ مگر بہت محدود۔ ہمارے ہاں سرکاری کے ساتھ نجی تعلیمی ادارے بھی ملک بھر میں موجود ہیں اور تعلیم کے فروغ میں اپنے حصے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آج لاکھوں کی تعداد میں بچے برطانیہ کی جامعات کا امتحان انہی پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ کر پاس کر رہے ہیں۔ اب تو ملک بھر میں پرائیویٹ جامعات بھی قائم ہو چکی ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائے۔ پچھلی دو دہائیوں میں اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری ماضی کی نسبت خاصی زیادہ ہوئی ہے۔ اب ہزاروں کی تعداد میں طلبا نہ صرف مقامی طورپر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں بلکہ دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں میں بھی داخلے لے رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پچیس ہزار پاکستانی طلبا صرف چینی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اچھی خبریہ ہے کہ اب پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے نام بھی یونیورسٹیوں کی عالمی رینکنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔