افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے جلد بازی میں انخلا نے سرد جنگ کے بعد کے زمانے میں طاقت اور اس کی مینجمنٹ کے تصور کے بارے میں سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ زیادہ تر مصنفین امریکی طاقت کے بتدریج زوال اور دوسروں کے عروج کے بارے میں بات کرتے ہیں‘ تاہم افغانستان میں امریکہ کے زیر انتظام گورننس اور سکیورٹی سسٹم کی حالیہ ناکامی نے ایک ایسی ریاست کی صلاحیت کا بنیادی مسئلہ کھڑا کر دیا ہے جو طاقتور فوج کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی اپنا غلبہ قائم کر سکتی ہے اور ہدف بننے والے معاشرے کو اس کے اطمینان کی حد تک بدل سکتی ہے۔
روایتی طور پر، دوسروں پر حاوی ہونے کی طاقت کو بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ہر ریاست نہ صرف اپنی علاقائی حدود میں بلکہ دیگر ریاستوں پر بھی غلبہ قائم کرنا چاہتی تھی۔ دوسرا مطلوبہ ہدف یہ تھاکہ دوسری ریاستوں کے غلبہ پانے کے عزائم کو کیسے بے اثر کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے فوجی طاقت اہم ذریعہ تھی۔ سرد جنگ کے بعد اور سوویت یونین کے بعد کے دور (1990-91 کے بعد) میں امریکہ کے عسکری کمانڈنگ کردار کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ جنوری‘ فروری 1991 میں عراق کے فوجی کنٹرول سے کویت کو آزاد کرانے کیلئے امریکی فوجی کارروائی کو کئی لوگوں نے امریکی بالادستی کی فتح کے طور پر دیکھا۔ دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد، امریکہ کو ''واحد سپر پاور‘‘ اور مغربی لبرل جمہوریت اور آزاد معیشت کی فتح قرار دیا گیا۔ افغانستان میں امریکی شکست (اگست 2021) عالمی سیاست کی نوعیت اور سمت تبدیل کرنے میں فوجی طاقت کی محدودات کو واضح کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپر پاور کی حیثیت میں عسکری بالادستی دور دراز کے ممالک پر حاوی ہونے اور وہاں ایک مختلف اور کُلی طور پر راسخ سماجی اور ثقافتی نظام پر مغربی سیاسی اور معاشرتی اقدار کو مسلط کرنے کی بالکل ضمانت نہیں دیتی۔ پائیدار سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں ایک طاقتور فوج کی موجودگی‘ پراکسی اشرافیہ کی تشکیل اور درآمد شدہ سماجی و سیاسی ایجنڈوں سے فائدہ اٹھانے والوں کے ذریعے نہیں لائی جا سکتیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ فوجی طاقت مکمل طور پر غیرمتعلق ہوچکی ہے‘ تاہم دور دراز کے خطوں میں اس کا استعمال اب کوئی مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ فوجی طاقت صرف علاقائی حدود کے دفاع اور براہ راست یا بالواسطہ خطرات کے خلاف ریاست کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے ہوتی ہے۔ اس تصور کے تحت کسی دوسری سرزمین پر فوج بھیجنا کہ وہاں دہشتگردی یا انتہا پسندی کی صورت میں ایک سکیورٹی خطرہ پیدا ہو رہا ہے، ایک گمراہ کن مفروضہ ہے اور اس کے نتیجے میں وسیع انسانی اور مادی نقصان ہو سکتا ہے جبکہ حملہ آور طاقت کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا‘ اس کا بھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دہشتگردی، انتہا پسندی اور مغربی لبرل جمہوریت کو درپیش چیلنجوں کے خلاف عالمی سرپرست کی حیثیت سے کردار اس جارحانہ ایجنڈے پر عمل پیرا طاقتور ریاست کے ''فوجی ٹھیکیداروں‘‘ کے ''فوجی صنعتی کمپلیکس‘‘کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس سے ہدف بننے والی اور گارڈین کا کردار ادا کرنے والی‘ دونوں میں سے کسی ریاست کے عوام کی کچھ مدد نہیں ہوتی۔
ایک مکمل طور پر مختلف معاشرے کو ''پراکسی‘‘ اشرافیہ یا اس معاشرے کے غیرملکی عسکری طاقت سے فائدہ اٹھانے والوں کے ذریعے تبدیل کرنے کا خیال مقامی ثقافت یا سماجی نظام میں پائیدار تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتا۔ امریکی اور نیٹو فوجیوں نے افغانوں کا ایک ایسا طبقہ بنایا جس نے مختلف اسائنمنٹس میں ان فوجیوں کے ساتھ وابستہ ہونے سے فائدہ اٹھایا یا انہیں بنیادی خدمات فراہم کیں۔ غیرملکیوں نے دسمبر 2001 میں کرزئی حکومت کے قیام کے بعد بیرون ملک سے واپس آنے والے افغانوں کی بڑی تعداد کی سرپرستی بھی کی۔ تیسری قسم افغانوں کی نئی نسل کی تھی جس نے ان بیس سالوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ یہ نئی کلاسیں یا طبقے کابل اور دوسرے بڑے شہروں تک محدود تھے جہاں یا تو امریکی موجود تھے یا نئی تعلیمی اور ثقافتی سہولیات دستیاب تھیں۔ غیرملکیوں نے ان کیلئے نیم مغربی ماحول بنایا۔ باقی افغانستان ہمیشہ کی طرح بدحالی اور پسماندگی میں ہی رہ رہا تھا۔ جب امریکی فوجی افغانستان سے چلے گئے تو یہ نئی کلاس اور نئی ثقافت‘ دونوں باقی نہ رہ سکے۔ ان میں سے کچھ ملک چھوڑ گئے، دیگر منظر سے غائب ہوگئے‘البتہ کچھ وہیں موجود رہ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے۔ سماجی انجینئرنگ کا یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔افغانستان سے امریکی پسپائی نے یورپ میں امریکہ اور یورپی ممالک کے مابین سکیورٹی پارٹنرشپ کے قابلِ اعتبار ہونے کے بارے میں بھی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا جرمنی اور فرانس جیسی بڑی یورپی ریاستوں کو اپنے خود مختار سکیورٹی نظاموں کو مضبوط بنانے کیلئے کام کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے؟ یہ نیٹو کے سکیورٹی فریم ورک پر نظرثانی اور موجودہ شراکت داری کے نظام کو یورپ کی زیادہ سے زیادہ سکیورٹی خود مختاری کے نظام سے تبدیل کرنے کا موقع ہے۔
دور دراز علاقوں میں سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے متبادل فریم ورک سماجی و اقتصادی ترقی پر مبنی ہونا چاہئے اور فوجی پہلو کو پیچھے دھکیل دینا چاہیے۔ مغربی ریاستیں اگر انتہا پسندی اور دہشتگردی ختم کرنا چاہتی ہیں تو انہیں غربت اور پسماندگی جیسے مسائل حل کرنے میں غریب ممالک کی مدد کرنی چاہیے۔ سماجی و اقتصادی ترقی اور اقتصادی رابطہ کاری‘ دونوں باہمی مفید صورتحال پیدا کرتی اور باہمی انحصار کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ایک اور اہم پہلو غیرملکی اقتصادی اور تکنیکی امداد کے استعمال میں ان ممالک میں پائی جانے والی بدانتظامی اور بدعنوانی پر نظر رکھنے سے متعلق ہے۔ ایسے مسائل معاشرے کو تعلیم، صحت‘ بنیادی شہری خدمات اور روزگار کے مواقع کو بہتر بنانے کیلئے براہ راست مدد فراہم کرکے حل کئے جا سکتے ہیں۔ ممکن ہے یہ ساری کوششیں کامیاب نہ ہوں لیکن ان کا نتیجہ پھر بھی طاقت کے جارحانہ استعمال سے بہتر نکلے گا۔
مختلف براعظموں کے ساتھ اقتصادی رابطہ کاری کو فروغ دینے کی چین کی پالیسی سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے چین کو کئی ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے قابل بنایا ہے۔ اس چینی حکمت عملی میں کچھ خامیوں اور رکاوٹوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، لیکن مجموعی طور پر اثر مثبت ہے، اور یہ چین کو ایشیا اور افریقہ کے مختلف علاقوں تک رسائی فراہم کررہی ہے لہٰذا، امریکہ اور مغربی ممالک کو سماجی اور اقتصادی آپشن کو زیادہ مستحکم انداز میں آزمانے کی ضرورت ہے۔
امریکہ کو چین کے ساتھ اپنی مسابقت کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اس کی امریکی کثیرالقومی کارپوریشنوں کے ذریعے مضبوط معاشی تعلقات بھی ہیں۔ چین کے خلاف فوجی آپشن پر زور دینے یا چین کو دباؤ میں رکھنے کیلئے مقامی ملٹری پراکسی بنانے کی امریکی حکمت عملی کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ امریکہ اور چین کو غیرفوجی ذرائع سے معاشی میدان میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ وہ بھوک، غربت، پسماندگی اور قدرتی آفات بشمول وبائی امراض سے انسانیت کو بچانے کیلئے بھی تومقابلہ کرسکتے ہیں۔ کورونا نے ایک نیا سکیورٹی چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اس سے امریکہ کو نائن الیون اورافغانستان و عراق میں فوجی آپریشنوں سے زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس قسم کے چیلنج کا مقابلہ فوجی کارروائی سے نہیں بلکہ تعاون کی پالیسیوں سے اور ان پالیسیوں کو ترجیح دینے سے ہوتا ہے جن کا مقصد براہ راست انسانی سلامتی اور معاشرتی ترقی ہو۔ عالمی سلامتی کے پُرامن، انسانی اور باہمی تعاون کے متبادلات کے بارے میں سوچئے۔