تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     13-09-2021

حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے

حکومتی وزرا کی جانب سے سنگین الزامات کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیااور آئینی ماہرین سے آرٹیکل 204‘163(1)جی اور الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 10پر مشاورت کی جارہی ہے۔ اس کی روشنی میں اہم فیصلے کی توقع کی جارہی ہے۔گز شتہ روز ایوانِ صدر میں ہونے والی میٹنگ کے دوران بھی الیکشن کمیشن کے سینئرحکام کے بارے بعض وزرا کے ناپسندیدہ ریمارکس کا مسئلہ زیر غور آیا۔ عوامی حلقوں اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین سینیٹر تاج کی دعوت پر سا ت ستمبر کے روز مجھے بھی قائمہ کمیٹی کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر بریفنگ دینے کا موقع ملا ۔ میں نے انہی نکات پر بات کی تھی جو ووٹنگ مشین کے معاملے میں تنازع کا سبب بن سکتے ہیں۔ بعد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی جس پر اعتراضات کی ایک فہرست کمیٹی کو بھیج دی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر میری بریفنگ میں جو نکات تھے حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ان کی تائید کی تھی۔میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ انڈیا کو 25 سال کا عرصہ لگا‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے پائلٹ تجربات کرتے ہوئے‘ لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں جن خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ‘ان کے ازالے کیلئے اہم پیشرفت کی جانی چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ وزیراعظم کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں تکنیکی طورپر بریف نہیں کیا جا رہا حالانکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ماہرین کی خدمات حاصل کی تھیں ‘ان کا بھی یہی مشورہ تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے شفاف الیکشن ممکن نہیں کیونکہ یہ فول پروف نہیں اور الیکشن کمیشن اتنا بڑا انتخابی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ الیکشن کمیشن نے پارلیمانی روایات کے مطابق مجوزہ انتخابی ترامیم پر 37 نکات پر مشتمل تحفظات سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین تاج حیدر کو خط کے ذریعے آگاہ کیا۔ اس خط کو آئین کے آرٹیکل 218 اور 219کی روشنی میں ملاحظہ کرنا چاہیے تھا اور خط کے متن کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو سپریم کورٹ نے رازداری ‘شفافیت اور غیر جانبدارانہ طریقہ کار پر ماضی میں جو ریمارکس دیے تھے اسی کے پس منظر میں الیکشن کمیشن نے اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے قوم کو آگاہ کیا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر عجلت میں کیے گئے فیصلے سے ملک میں انتخابی ووٹنگ تباہ کن ہوگی۔ الیکٹرانک ووٹنگ منصوبے پر عمل درآمد ہمیشہ پیچیدہ ہو گا ‘ مشینوں کا استعمال قابل عمل نہیں ‘عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اُٹھ جائے گا ‘الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے جلد نتائج کا امکان نہیں ‘انتخابی فراڈ روکنا مشکل ہو گا۔ دنیا کے بہترین جمہوری ممالک بھی انتخابات کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال نہیں کرتے ‘اس میں زور آزمائی کے ذریعے ووٹ کے اندراج اور ووٹ کی خریداری کا اندیشہ ہوتا ہے ۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین تیار کرتے ہوئے اس میں ایسی خفیہ چِپ لگائی جاسکتی ہے جو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے کارآمد ہو۔
ان اعتراضات کے جواب میں حکومتی ارکان کو الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے الیکشن کمیشن کی جانب سے 34 اعتراضات پر مبنی خط کے متن پر غور کرنے کے لیے ایک کمیٹی مقرر کرنی چاہیے تھی جو باریک بینی سے تمام خدشات پر غور و فکر کرنے کے بعد اپنی رائے پیش کرتی۔ ترقی یافتہ ممالک‘ جن میں جرمنی ‘نیدرلینڈ اور یورپی ممالک شامل ہیں ‘ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کرکے پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی الیکشن کرانے کو ترجیح دی ہے۔ میں اس سلسلے میں ذاتی تجربہ پیش کررہا ہوں کہ 2008ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) قاضی محمد فاروق کو اور مجھے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے مدعوکیا تھا ۔ ہم نے جب چارنومبر 2008ء کو واشنگٹن میں بعض پولنگ سٹیشنوں کا معائنہ کیا تو ہمیں حیرانی ہوئی کہ ووٹرز کی اکثریت مینوئل طریقے سے بیلٹ فارم حاصل کرکے ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال رہی تھی اور بیلٹ پیپرز کے حصول کا وہی طریقہ دیکھنے میں آیا جو ہمارے ملک میں رائج ہے۔ چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق نے ایک ووٹر سے دریافت کیا کہ وہ بیلٹ پیپر بیلٹ بکس میں ڈالنے کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو استعمال کیوں نہیں کررہے‘ جو پولنگ سٹیشن پر موجودہیں‘ تو اس ووٹرز نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ یہ سسٹم فراڈ ہے اور فلوریڈا میں گزشتہ صدارتی انتخاب میں اس کے فراڈ کوقوم دیکھ چکی ہے ۔ہمارے تجسس کو نیپال کے چیف الیکشن کمشنر اور انڈیا ‘انڈونیشیا‘ افغانستان کے الیکشن حکام نے بھی محسوس کیا اور افغانستان کے چیف الیکشن کمشنر نے بھی اس کا بغور جائزہ لیا اور انڈین الیکشن کمشنر کو بھی بڑی حیرت ہوئی۔ اسی دورے کے دوران انٹرنیشنل فائونڈیشن فار الیکٹورل سسٹم کے صدر سے بھی اس سسٹم کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ‘انہوں نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ہیرا پھیری کے اندیشے موجود ہوتے ہیں۔ اسی دورے کے دوران ہماری یو ایس ایڈ کے چیف ایڈمنسٹریٹر سے بھی پاکستان کے انتخابی نظام کے بارے میں بات چیت ہوئی تواُنہوں نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں مقیم امریکی پاکستان کے حالیہ انتخابات سے مطمئن ہیں ۔
وزیرِ اعظم عمران خان ملک میں شفاف الیکشن کرانے کے داعی ہیں تو اس سلسلے میں تمام ممکن اقدامات ضرور کریں لیکن انہیں زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے۔ امریکا میں جو طریقہ کار ہے اس کی رپورٹ ہمارے پاس موجود ہے اس کے علاوہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے متبادل طریقہ کار کی بھی رپورٹ موجود ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین رپورٹس اور تجزیات بھی موجود ہیں جو انتخابی سسٹم کے ماہرین نے تیار کی ہیں۔ حکومت کو ان کا جائزہ لینا چاہیے۔ میرے خیال میں وزیرِ اعظم صاحب کے بعض ساتھی آنے والے انتخابات سے قبل انتخابات کومتنازع بنا رہے ہیں‘ یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ حکومت ملک کو سنگین انتخابی بحران کی طرف لے جارہی ہے۔ وزیراعظم کو ان کے آئینی ماہرین نے بریف نہیں کیا کہ انتخابی قوانین میں ترامیم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے بارے میں الیکشن کمیشن اپنے انتظامی اختیارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ازخود روڈ میپ تیار کرے گا اور ٹیکنالوجی کا انتخاب اور الیکٹرا نک ووٹنگ مشین کی قسم کے تعین کرنے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو مل جائے گا ۔ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو وسیع اختیارات حاصل ہو جائیں گے ۔ ترامیم کے ذریعے سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق اس ملک سے‘ جہاں وہ رہائش پذیر ہیں‘ دلانے کے لیے نادرا یا کسی ادارے یا ایجنسی کی معاونت آئین کے آرٹیکل 220کے تحت حاصل کی جاسکتی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترامیم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے مدت کا تعین نہیں کیا گیا ‘ الیکشن کمیشن مرحلہ وار وار یا تجرباتی طورپر اس کو آگے بڑھانے کے لیے ٹائم فریم مقررکرنے کا مجاز ہوگا اور ملک انتخابی بحران سے بھی نکل جائے گا۔ جن وفاقی وزرا نے الیکشن کمیشن پر اس طرح الزامات عائد کئے ہیں ‘ آگ لگانے تک کی باتیں ہوئیں میرے خیال میں انہوں نے الیکشن کمیشن کی تحقیر کی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے وفاقی وزرا کے الزامات پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ سپیشل سیکرٹری ظفر اقبال نے قائمہ کمیٹی میں پیش آنے والے واقعے سے چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن کا خصوصی اجلاس (آج) پیر کو طلب کر رکھا ہے جس میں تمام ممبران کو شرکت کی ہدایت کی گئی ہے۔ چیف الیکشن کمشنرکی جانب سے ڈی جی لاء کو قانونی آپشنز پر بریفنگ دینے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔اس اہم معاملے پر کیا پیش رفت ہوتی ہے اس حوالے سے آج کادن اہم ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved