تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     13-09-2021

آفر کو عزت دو!

'آفر کو عزت دو‘ پی ڈی ایم مرحومہ کی آخری رسومات کا سب سے بڑا نوحہ ہے‘ لیکن پہلے آفر کی ایک مختصر داستان سن لیجئے۔ تب بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پاکستان واپسی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہمارے گھر کی لینڈ لائن پر گھنٹی بجتی تو اکثر مجھے فون اُٹھانے کا موقع مل جاتا۔ اس طرح سے میں نے بی بی صاحبہ کی بے شمار ٹیلی فون کال اٹینڈ کیں۔ ایک دن مگر ایسی ہی فون کال سننے کے لیے والد صاحب کو بلایا۔ وہ روٹین سے کافی لمبی گفتگو تھی جس میں بار بار ہنسنے کا سپیل بھی آتا رہا۔ اس گفتگو کے دوران ''آفر‘‘ کا ذکر بھی آیا۔ مختصراً یو ں کہ بی بی صاحبہ نے میرے والد صاحب سے پوچھا کہ آپ کو حکومت کی طرف سے کوئی آفر آئی ہے؟ پھر جواب نفی میں پا کر انہوں نے پنجاب کے دو بڑے لیڈروں اور کے پی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما کا نام لے کر کہا کہ وہ دبئی میں آ کر مجھے باری باری ملے تھے۔ کہنے لگیں کہ سرکاری محکمہ خاص کے افسر نے مجھے سیاسی کیریئر کا پیکیج آفر کیا ہے‘ مگر میں نے جمہوریت کی محبت میں اُسے ٹھکرا دیا (یاد رہے یہ تینوں رہنما مشرف دور میں پیٹریاٹ یعنی دیش بھگت المعروف فارورڈ بلاک میں شامل ہوئے اور وفاقی وزیر بن گئے)۔
ان دنوں سامنے آنے والی آفرز کی کہانی ٹرائی اینگولر ہے۔ ہم سب کو یاد ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی بوریا بستر باندھ کر پی ڈی ایم کے قافلے اسلام آباد پہ چڑھ دوڑے تھے۔ آپ اسے آفر کو عزت دینے کا کرٹن ریزر بھی کہہ سکتے ہیں۔ اُن دنوں مولانا کے لہجے اور واک سمیت اُٹھک بیٹھک کا انداز کچھ اقتداری اقتداری لگتا تھا مگر بھاشن اور تقریر کے ذریعے وہ اپنے برانڈ کا اسلامی جمہوری انقلاب لانے کی بات کر رہے تھے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جنرل ضیا کے دعا یافتہ نواز شریف کی صاحبزادی پیپلز پارٹی اور بے نظیر زندہ باد کے نعرے لگا رہی تھیں۔ دوسری جانب پی پی پی کے چیئرمین نواز شریف کی زندگی کو لاحق طبی خطرات کی قوالی فرمایا کرتے۔ ہر طرح کے لیفٹ رائٹ انقلاب والے سیاست کی اسلامائزیشن کے کیمپ میں گھس بیٹھیوں کی طرح نظر آنا شروع ہو گئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کیمپ نواز شریف سے شروع کر کے مولانا صاحب تک سارے کا سارا انقلابی ہو چکا ہے‘ سچ مچ میں انقلابی۔
پھر ایک دن فیڈرل کیپٹل میں جاڑے کا طوفان آ گیا اور لائن کٹ گئی۔ سچ مچ کا انقلاب بے چارہ سچی مچی کا منہ دیکھتا رہ گیا اور اُس کی تبلیغ کرنے والے کہتے رہ گئے کہ ایک نہ ایک دن انقلاب سامنے ضرور آئے گا۔ مہینوں گزرے‘ سال بیتے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے عین سامنے؛ چنانچہ امامِ انقلاب پھر حرکت میں آ گئے اور طویل وقفے کے بعد پہلا فرمان ان لفظوں میں جاری ہوا ''جو آفر پی پی پی کے بلاول نے قبول کر لی ہے وہی آفر ہمیں بھی ہوئی تھی مگر ہم نے اُسے مسترد کر دیا‘‘۔ اس شاہی فرمان کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ووٹ کو عزت والی غلط فہمی پی ڈی ایم میں کسی کو بھی نہیں تھی بلکہ اصلی بات یہ تھی کہ بہتر آفر دو‘ آفر بڑھا دو اور اوپر سے کچھ اچھی سی آفر دے دی جائے تو بات بن جائے۔ اس جیسے انقلابی منصوبے لے کر پی ڈی ایم وجود میں آئی تھی۔
جب یہ وکالت نامہ آپ کے ہاتھوں میں ہو گا اُسی روز پی ڈی ایم صحافتی تنظیموں کی طرف سے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف مظاہرے میں شرکت کر رہی ہو گی۔ عین اُسی وقت صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی موجودہ پارلیمنٹ کے چوتھے پارلیمانی سال کو کِک آف کرنے کے لیے جوائنٹ سیشن سے خطاب کر رہے ہوں گے۔ یہ احتجاج چونکہ صحافتی برادری سے متعلقہ ہے‘ اس لیے کوئی بھی اسے پی ڈی ایم کا شو آف پاور نہیں کہہ سکے گا۔ ہاں البتہ پی ڈی ایم ناتوانی کے جس مقام پر پہنچ چکی ہے اب اُس کے احتجاج اور پاور شو‘ دونوں ہی آ ہنی بیساکھیوں کے محتاج ہیں۔
دوسری جانب نئی پی پی پی کے نئے نویلے چیئرمین صاحب پی پی پی پنجاب کے پرانے نظریاتی جیالوں میں پارٹی کی نئی روح پھونکنے کے لیے مخدوموں کے لائو لشکر سمیت پہنچے‘ جہاں مہنگی گاڑیاں‘ ہٹو بچو‘ ویسٹرن کلوز سرکٹ وائرلیس سسٹم سے لیس سکیورٹی سٹاف کے ملازموں کو دیکھ کر پرانے اور لیفٹ ونگ کے نظریاتی جیالے پنڈال کے اندر ہی نہیں آ سکتے۔ پنجاب میں بلاول کی 20ویں‘ 25ویں لانچنگ کے باوجود سیاست میں ہلچل تو دور کی بات پی پی پی اپنے ورکرز کے بجائے صرف نیوز شوز اور پرائم ٹائم ٹاک شوز کے لیے ہی دلچسپی کا باعث رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ بھی آفر ہی ہے۔ ذرا ہٹ کے دیکھیں تو پی ڈی ایم بار بار ایک دوسرے کے خلاف پانی پت کا میدان سجا رہی ہے۔ پی پی پی کا کلیم یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا ٹریڈ مارک اُن کے نام ہے۔ بے چاری پی ڈی ایم کو آفر نے آفت میں پھنسا دیا ہے‘ بلکہ کئی آفتیں۔
پہلی آفت: اسمبلیوں سے استعفے کا مطالبہ پی ڈی ایم کی اولین اور آخرین آفت ہے۔ مولانا اپنے استعفے دیئے بغیر پی ایم ایل این اور پی پی پی کے استعفے دلوانا چاہتے ہیں تاکہ پی ڈی ایم میں ''گلیاں ہو جان سُنجیاں‘ وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ مولانا کا انقلاب استعفے کے بنا مکمل نہیں ہوتا۔ جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے‘ دوسری پارٹیوں کا استعفا۔
دوسری آفت مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے سے متعلقہ ہے۔ ان پارٹیوں کے پاس کوئی ایسا نام ہی نہیں‘ جس پر وہ تحریک عدم اعتماد کے بعد متفق ہو سکیں کیونکہ ان کا سفر ہی ان کے اپنے لفظوں میں آفر سے شروع ہوا اور آفر کے تعاقب میں جاری ہے۔
تیسری آفت: پی ڈی ایم کی تینوں قابلِ ذکر پارٹیوں میں آفر‘ مزاحمت بھی ہے اور مفاہمت کا ذریعہ بھی لیکن آفر ہے کہاں سے؟ کسی میں بھی اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ اس چھوٹے سے سوال کا جواب دے سکے۔ اسی لئے ان آفرانہ ادائوں کو عوام میں زیرو پذیرائی بھی نہیں ملی۔
ایک اور گمبھیرتا بھی اس کی وجہ بن رہی ہے‘ وہ یہ ہے کہ آفر کو آخر کار عزت دینی کس نے ہے؟ آفر لینے والا سوالی ہوتا ہے جسے اردوئے معلی میں حاجت مند اور اردوئے محلہ میں منگتا کہتے ہیں۔ اس حوالے سے انگریزی کا یہ محاورہ تو قوم نے 50 کی دہائی میں پہلی بار تب سنا تھا‘ جب ہماری جھولی آئی ایم ایف نے ڈالروں سے بھری تھی۔ محاورہ ہے‘ Beggars can't be choosers۔ جو آفر دینے کے قابل ہو‘ وہ عزت کیوں دے گا؟ آفر! بڑی کافر ادا‘ ہوتی ہے۔ آفر گری کی آرٹ یوں بھی گل کھلاتی رہتی ہے۔
پیشہ ورانِ فن کی بدولت خدا گواہ
دانشوروں کا لفظ بھی بدنام ہو گیا
شعر و ادب کی آب‘ رقیبوں نے لوٹ لی
اہلِ قلم کا زورِ بیاں خام ہو گیا
پیرِ مغایں کی ریشِ حنائی کی خیر ہو
خوفِ خدا حوالۂ اصنام ہو گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved