تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-09-2021

نئے امکانات کی کھیتی

افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے پورے خطے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یوریشیا میں سیاسی اور سٹریٹیجک معاملات کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ متعدد ریاستوں‘ بالخصوص پڑوسیوں کے لیے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنا لازم ٹھہرا ہے۔ طالبان کی فتح کے نتیجے میں افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ اور نئی عبوری حکومت کا قیام ایسے معاملات ہیں جنہوں نے علاقائی ممالک کے لیے خصوصی طور پر خاصے خوشگوار امکانات کی فصل اُگادی ہے مگر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ طالبان کو قبول کرنا ہے۔ طالبان کو مکمل طور پر قبول کرنا دنیا کے لیے اب بھی دردِ سر سے کم نہیں۔ اُن کے حوالے سے امریکا اور یورپ نے اتنا زیادہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ تشویش سے مکمل طور پر نجات پانا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ طالبان نے متعدد پریس کانفرنسز میں یقین دلایا ہے کہ وہ انتقامی کارروائیوں پر یقین رکھتے ہیں نہ کسی کو کسی بھی جائز سرگرمی سے روکنے کے حق میں ہیں۔ دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر‘ قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر‘ آج کوئی بھی افغانستان میں اپنی مرضی کے مطابق جی سکتا ہے۔ طالبان کی اچھی خاصی توانائی‘ وقت اور وسائل یقین دہانیوں میں کھپ رہے ہیں۔ وہ بار بار یقین دلارہے ہیں کہ اُن کے بارے میں جو بھی تصورات پائے جاتے ہیں‘ وہ یکسر بے بنیاد ہیں۔ کسی کے حقوق غصب نہیں کیے جائیں گے۔ یقین دہانیوں کے باوجود اب بھی پوری دنیا میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ بھارت جیسی بدخواہ ریاستوں نے تو تحفظات و مغلظات کا مینا بازار لگایا ہوا ہے۔
طالبان نے یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ پاکستان کو زیادہ تشویش لاحق ہے کیونکہ افغانستان میں رونما ہونے والی کسی بھی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر لامحالہ طور پر پاکستان پر مرتب ہوتا ہے۔ طالبان نے پاکستان کو خاص طور پر یقین دلایا ہے کہ افغان سرزمین پر کسی بھی گروہ کو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہونے دیا جائے گا۔ افغانستان کے بدلے ہوئے حالات نے چین کے لیے بھی بہت کچھ بدل دیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو (بی آر آئی) کے حوالے سے اُس کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی اِسی بڑے منصوبے کا ایک جُز ہے۔ چین چاہتا ہے کہ وسطی ایشیا تک اُس کی رسائی آسان ہو اور اِس کے لیے لازم ہے کہ افغانستان میں امن ہو۔ چین نے طالبان کو یقین دلایا ہے کہ اُن کی بھرپور معاونت کی جائے گی۔ طالبان نے بھی چینی قیادت سے رابطہ کرکے بڑے منصوبوں میں افغانستان کو شریک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ طالبان چاہتے ہیں کہ ان کا ملک بھی سی پیک کا حصہ بنے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
روس کے لیے بھی ایک نئی دنیا کا دَر کھلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے تمام ہمسایوں میںتشویش کی جو لہر دوڑی ہے‘ اُس نے روس کے لیے امکانات کی نئی کھیتی تیار کردی ہے۔ روسی قیادت اس صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہے گی اور وہ اس کا عندیہ بھی دے رہی ہے۔ چین اور روس نے افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بہت پہلے یہ اشارے دینا شروع کردیے تھے کہ وہ اب خطے میں وسیع البنیاد سیاسی اور سٹریٹیجک تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ پاکستان اور ترکی کو اعتماد میں لے چکے ہیں۔ امریکا کے لیے افغانستان سے نکلنا ناگزیر ہوچکا تھا کیونکہ اُس کے اپنے آنگن میں بہت سی خرابیاں سَر اٹھاچکی ہیں۔ داخلی کمزوریوں نے امریکی قیادت اور پالیسی میکرز کو مجبور کیا کہ وہ اب بیرونی سیاسی و عسکری مہم جُوئی سے دامن کش ہوکر گھر کے معاملات درست کرنے پر توجہ دیں۔ اندرونی مسائل کا چین اور روس کو بھی سامنا ہے مگر مجموعی طور پر اُن کے معاملات زیادہ پریشان کن نہیں کیونکہ بیرونی عسکری مہم جُوئی کے حوالے سے وہ بدنام نہیں اور امریکا کی طرح اُن پر دنیا بھر میں لعن طعن نہیں کی جاتی۔ امریکا نے اسرائیل کی بھرپور سرپرستی کرکے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے لیے غیر معمولی نفرت پیدا کی ہے۔ جنوبی ایشیا میں افغانستان کو دو عشروں تک نشانے پر رکھنے کی صورت میں امریکا نے یہاں بھی اپنے لیے خوب جگ ہنسائی کا سامان کیا ہے۔ امریکا کے لیے انخلا ناگزیر ہوچکا تھا اور چین و روس کے لیے نئے امکانات کی کھیتی سے اپنے حصے کا پھل حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ افغانستان ایک تباہ حال ملک ہے مگر اِس کے حالات نے پورے خطے کے لیے نئے امکانات کو راہ دی ہے۔ روس ایک زمانے سے اس امر کے لیے کوشاں ہے کہ خطے کی سلامتی کے حوالے سے اُسے کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے حالات پیدا ہوں۔ افغانستان پر امریکا کی طرف سے مسلط کی جانے والی جنگ کے ختم ہونے اور امریکا اور اتحادیوں کی افواج کے انخلا سے روس کے لیے بہت کچھ کر گزرنے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے روس وسطی ایشیا کے خطے میں اپنی سٹریٹیجک پوزیشن قابلِ رشک بنانے کی کوشش میں بہت کچھ کرچکا ہے۔ چند ایک غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ یوکرائن اور کریمیا کے معاملات اِس حوالے سے نمایاں ہیں۔ افغانستان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ روس یہاں اپنے فوجی تعینات کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا‘ اُس کی پوری کوشش ہے کہ وسطی ایشیا کی ریاستیں اُس پر بھروسہ کرتے ہوئے سلامتی اور سٹریٹیجک معاملات کے حوالے سے ایسی فضا پیدا کرنے میں مدد دیں جسے مکدّر کرتے ہوئے امریکا اور یورپ کو کئی بار سوچنا پڑے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وسطی ایشیا کی ریاستیں روس کے حوالے سے غیر ضروری بدگمانی پروان چڑھانے سے گریز کرتے ہوئے زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین کریں اور ایسی مجموعی یا اجتماعی حکمتِ عملی اپنائیں جس کی مدد سے کسی بھی دور افتادہ خطے کی کسی قوت میں اِس طرف آکر کسی بھی طرح کی مہم جُوئی کرنے کی ہمت پیدا نہ ہو۔
وسطی ایشیا کی ریاستوں میں کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان نے افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے زیادہ ریسپانس دیا ہے۔ کرغیزستان اور تاجکستان رواں سال سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہے ہیں‘ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ عروج پانے سے وہ آپس کے اختلافات بھلاکر خطے کی مجموعی کیفیت کے حوالے سے پریشان ہیں اور کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی پریشانی ختم ہو سکے۔ روسی قیادت چاہتی ہے کہ افغانستان کے تمام پڑوسی سلامتی کے معاملے میں اُس پر بھروسہ رکھیں اور 'سی ایس ٹی او‘ (کلیکٹِو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن) کی شکل میں ایک وسیع علاقائی اتحاد موجود رہے۔ اس اتحاد کی کارکردگی کے حوالے سے ارکان کی شکایات بھی ہیں اور تحفظات بھی۔ روس کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے یعنی وہ اس اتحاد کو مضبوط بناتے ہوئے علاقائی سلامتی کے معاملات میں تمام متعلقہ ممالک کے لیے بے فکری کا سامان کرے۔
چین بھی میدان میں ہے۔ وہ بھی علاقائی سطح پر اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔ چینی قیادت نے اب تک کسی بھی عسکری مہم جوئی سے دور رہنے کو ترجیح دی ہے اور شاید ایسا کرنے کا وہ مستقبل قریب میں بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ معاشی معاملات میں اپنی برتری یقینی بنائے رکھنے کو ترجیح دے رہا ہے۔ روس نے بھی معاشی معاملات بہتر بنانے پر توجہ دی ہے؛ تاہم مجموعی طور پر وہ اپنی برتری کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
وسطی ایشیا میں امن و استحکام جنوبی ایشیا کے لیے بھی لازم ہے۔ وسطِ ایشیا میں گڑبڑ کی صورت میں افغانستان بھی متاثر ہوگا اور اس کا اثر پاکستان پر بھی مرتب ہوگا۔ سی پیک منصوبوں میں رکاوٹ سے چین کے مفادات بھی داؤ پر لگیں گے۔ روس کو گرم پانیوں تک خوش دِلانہ رسائی درکار ہے۔ افغانستان کے حالات درست رہیں تو اُس کے لیے یہ خواب شرمندۂ تعبیر کرنا آسان ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ روسی قیادت اس صورتِ حال سے موافقت کیسے کشید کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved