تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-09-2021

بلاول کا دورۂ ملتان اور موٹر وے کا ٹال ٹیکس

گزشتہ ہفتے ملتان میں خاصی سیاسی ہلچل رہی۔ یہ ساری سیاسی چہل پہل بلاول بھٹو زرداری کے طفیل تھی۔ ایک عرصے کے بعد کسی قومی سیاسی لیڈر نے جنوبی پنجاب میں اتنے دن لگاتار گزارے۔ نو‘ دس روزہ دورے میں بلاول نے درجن بھر تعزیتیں بھگتائیں‘ جلسے کیے اور مختلف شہروں کا دورہ کر کے کارکنوں کو دوبارہ سے متحرک کرنے کی کوشش کی۔ ان ساری چیزوں میں تو وہ کسی حد تک کامیاب رہے مگر اندر خانے والا جو مقصد تھا وہ خاصی حد تک ناکام رہا؛ تاہم بلاول نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن قومی سیاسی منظر نامے پر خاصی گرما گرمی کا سامان پیدا کیا۔ ان کے سابقہ اتحادیوں اور حالیہ متحارب سیاسی لیڈروں نے ان پر کھل کر تنقید کی اور جواباً بلاول نے بھی ان کی اچھی طرح دھلائی کر کے سکور برابر کیا۔ مولانا فضل الرحمن اور ن لیگیوں نے خوب دل کے پھپھولے جلائے اور اپنی پرانی ساجھے کی ہنڈیا کو بیچ چوک میں پھوڑا؛ تاہم ایک بات کی ضرور تعریف کرنی چاہیے اور وہ یہ کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنے‘ پیپلز پارٹی کے جیالوں کو آئندہ الیکشن کیلئے چارج کرنے اور مایوسی کی گہری کُھڈ میں گری ہوئی مقامی قیادت کو کم از کم پینا فلیکسز کی حد تک ضرور زندہ کر دیا۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران وزیراعظم ہاؤس میں سب سے زیادہ قیام کرنے اور فائدے اٹھانے والے سابق ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر جاوید صدیقی نے سب بھر پور پوسٹر‘ بینر اور پینافلیکس لگوا کر دوبارہ سے میدانِ عمل میں آنے کا اپنا ارادہ ظاہر کر دیا۔ جاوید صدیقی خاصاسمجھدار آدمی ہیں وہ کبھی بھی جذباتی ہو کر پیسہ نہیں لگاتے اور ناپ تول کے اعشاری نظام کے مطابق ہمیشہ نفع آور سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اب بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے کافی غور و خوض کے بعد یہ خرچہ کیا ہے لیکن موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھیں تو فی الحال ان کی ساری انویسٹمنٹ کے تلوں سے تیل نکلتا نظر نہیں آ رہا۔
یہ سارا شو جو بلاول بھٹو زرداری کیلئے سجایا گیا تھا اس کا کریڈٹ دو بندوں نے سمیٹا۔ ایک سید یوسف رضا گیلانی مع بچگان اور دوسرے مخدوم احمد محمود تھے۔ گو کہ اس بار بلاول نے قیام تو اپنے بلاول ہاؤس میں کیا لیکن سارے کا سارا پروگرام ملتان اور نواح کی حد تک سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں نے ہائی جیک کیا ہوا تھا اور تنظیمی طور پر پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود اس سارے میلے میں آگے آگے تھے۔ ویسے بھی ماموں پھوپھی کی طرف سے آپس میں فرسٹ کزنز یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود نے یہ سارا شو گھریلو طور پر ہی سنبھال رکھا تھا۔
اس کا اعلان تو نہیں کیا گیا تھا لیکن منتظمین اس بات کا نجی محفلوں میں برملا اظہار کر چکے تھے کہ بلاول کے دورۂ جنوبی پنجاب کے دوران خاصی تعداد میں الیکٹ ایبلز کو پیپلز پارٹی میں شامل کروا کر اپنے نمبر ٹانک لیں گے لیکن ان کی ساری امیدیں محض خوش فہمی ثابت ہوئیں اور کم از کم الیکٹ ایبلز کی حد تک تو اس سارے پہاڑ کو کھودنے کے باوجود کوئی تگڑا چوہا نہیں نکلا۔ گو کہ اس مایوس کن نتیجے کے بعد سب یہی کہتے سنے گئے کہ بلاول کے حالیہ دورے کا مقصد صرف اور صرف پرانے کارکنوں سے ان کے عزیزوں کی وفات پر تعزیت کرنے‘ کارکنوں کو متحرک کرنے اور سیاسی لیڈر شپ کو دھکا لگا کر سٹارٹ کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ''انگور کھٹے ہیں‘‘ والا معاملہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ الیکٹ ایبلز بہت سمجھدار ہیں اور وہ فی الحال ''انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی پر کار بند ہیں۔ اگر انہیں ہوا کے رخ کا اندازہ ہو گیا کہ کس طرف چلنے والی ہے تو وہ خود آواز دے کر بلاول بھٹو زرداری کو بلا لیں گے بصورتِ دیگر آپ ان کے ترلے کر لیں وہ کوئی سیاسی طور پر احمقانہ فیصلہ نہیں کریں گے۔ فی الوقت ہمیشہ کی طرح ہوا کے رخ کا اندازہ کر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے موقع پرستوں کا ٹولہ صورتحال واضح ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ انہیں فی الحال کسی جانب سے کسی واضح اشارے کا کوئی عندیہ نہیں ملا‘ اب دیکھیں غیبی اشاروں کنایوں کا کھیل کب شروع ہوتا ہے۔
اور ہاں! ایک بات اور۔ وہ یہ کہ ملتان کے صحافیوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ بلاول کی میڈیا ہینڈلنگ اور پرفارمنس میں خاصی بہتری آئی ہے اور انہوں نے میڈیا کا بہت اچھی طرح سامنا بھی کیا اور سوال و جواب کی نشست میں اپنی نپی تلی گفتگو اور قوتِ برداشت کا مظاہرہ کیا۔ میں نے جب اپنے ایک دوست سے اس بات کا ذکر کیا‘ پہلے تو وہ زور سے ہنسا اور پھر کہنے لگا :آپ کو اس پر حیرانی کس بات کی ہے؟ آپ ان کے نام کو دیکھیں یہ بلاول بھٹو زرداری ہے۔ '' بھٹو اور زرداری خاندان کے خونی امتزاج کا بہترین شاہکار‘‘ سیاسی بردباری اس کے خون میں ماں کی طرف سے ہے اور معاملات کو عزت و آبرو کا مسئلہ بنائے بغیر ٹھنڈے پن سے ہینڈل کرنا اس نے باپ سے وراثت میں پایا ہے۔ یہ بڑا شاندار کمبی نیشن ہے اور شاید کسی اور سیاستدان کو اس طرح کی قدرتی صلاحیت میسر نہیں ہے۔ میں بھلا اس بات کا کیا جواب دیتا؟
میں نے دو چار دن قبل جب شوکت گجر سے الیکٹ ایبلز کی شمولیت میں ناکامی کے سلسلے میں گفتگو کی تو اس کے اندر کا جیالا کود کر باہر نکل آیا اور کہنے لگا: آپ کو نظر نہیں آ رہا کہ لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہور ہے ہیں۔ میں نے کہا چلو کوئی دو نام بتا دو۔ وہ بولا کہ لوگ شامل تو ہو رہے ہیں؛ تاہم مجھے فی الوقت ان کے نام یاد نہیں آ رہے۔ میں نے لطف لیتے ہوئے اس سے کہا کہ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ کوئی ایسا نامور یا قد آور سیاستدان پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوا جس کا نام آپ کو آتا ہو۔ جس بندے کا نام آپ کو یاد نہ ہو‘ بھلا وہ کہاں کا الیکٹ ایبل ہوا؟ اگر وہ واقعتاً الیکٹ ایبلز ہوتے تو آپ کو ان کے نام یاد ہوتے۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد وہ کہنے لگا کہ ایک آدھ دن میں لیہ سے بہادر خان سیہڑ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہا ہے۔ میں نے کہا: اس جملے کی درستی کر لیں۔ بہادر خان سیہڑ ''دوبارہ‘‘ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہا ہے۔ 2002ء اور 2008ء کے الیکشن میں وہ مسلم لیگ ق کی جانب سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ مسلم لیگ ق کے کوٹے میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزارت کے مزے لینے کے بعد 2013 ء میں پیپلز پارٹی سے اور 2018ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑنے اور شکست کھانے کے بعد اب دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے جا رہے ہیں تو اسے آپ کوئی بریک تھرو تو نہیں کہہ سکتے۔ ہاں! البتہ ایک شمولیت ایسی ہے جس نے تھوڑا دھماکہ کیا ہے اور وہ یہ کہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے صدر نور خان بھابھہ کا بھتیجا اور داماد عمران خان بھابھہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا ہے۔ لیکن اصل خبر یہ نہیں کہ عمران خان بھابھہ پی پی میں شامل ہو گیا ہے بلکہ اصل خبر یہ ہے کہ عمران خان بھابھہ کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا نزلہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر نور خان بھابھہ پر گرا ہے اور اسے جنوبی پنجاب کی پارٹی صدارت سے فارغ کر کے سینیٹر عون عباس بپی کو یہ عہدہ دے دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ جنوبی پنجاب کا سب سے اہم شکار کوئی اور نہیں نور خان بھابھہ ثابت ہوا ہے۔شاہ جی کہنے لگے: اگر اس طرح کی باتوں سے رشتہ داروں کی چھٹی ہونے لگ گئی تو کہیں چودھری پرویز الٰہی سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 38 میں ضمنی الیکشن میں جیتنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار احسن سلیم بریار کے والد اور ق لیگ کے توپ لیڈر سلیم بریار کو فارغ نہ کر دیں۔ اور ہاں! یاد آیا‘ قانون کی حکمرانی کے دعویداروں کا قافلہ رحیم یار خان جاتے ہوئے جب موٹروے کے اقبال آباد انٹرچینج سے نیچے اترا تو کسی نے بھی ٹال ٹیکس ادا نہیں کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved