تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     14-09-2021

ماہرینِ معیشت کے نام کھلا خط

جب کالم نگار کو یاد آیا کہ وہ پچاس کی دہائی کے نصف میں مرے کالج سیالکوٹ میں خواجہ لطیف مرحوم سے علم معاشیات سیکھنے کی جو کوشش کرتا رہا وہ اُسے بی اے کے امتحان میں معاشیات کے پرچے میں فیل ہونے سے بمشکل بچا سکی تو اُس کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ماہرینِ معیشت کے نام کھلا خط لکھنے کی جرأت کرے۔ میرا قلم رک گیا تھا مگر اِسی سیالکوٹ کے اقبال ؔنے میرا حوصلہ بڑھایا۔ وہ کنجشک ِفرومایہ یعنی بیری کے درختوں پر شور مچانے والی چڑیا کو شاہین سے لڑجانے کا مشورہ دے چکے تھے۔ ہم سے کسی نے بھی چشم دید گواہ کا بیان نہیں پڑھا مگر بدقسمتی سے ان دنوں وطنِ عزیز میں تعصب اورتنگ نظری کا جو الائو بھڑک رہاہے وہ ترکی اور یونان کے جنگلوں میں لگی آگ سے ہر گز کم درجے کا نہیں۔ اس آگ نے عوام دوستی سے لے کر روشن دماغی تک‘ دل و دماغ کی وسعت سے لے کر دورِ جدید کے نئے تقاضوں کے احترام تک‘ اپنے تاریخی اور تہذیبی ورثہ پر فخر نہ کرنے سے لے کر اپنے غرور کا سودا نہ کرنے کے عزم تک‘ شیشہ گرانِ فرنگ کا احسان نہ اُٹھانے کے عہد سے لے کر سفالِ پاک سے مینا و جام پیدا کرنے کے مصمم ارادہ تک‘ قوتِ اُخوت عوام سے محروم ہو جانے سے لے کر تارِ عنکبوت پر سہارا نہ کرنے کی روش تک‘ صداقت‘عدالت اور شجاعت کا سبق بھلا دینے سے لے کر اپنے آپ کو ہر قائدانہ صلاحیت سے تہی دامن ثابت کرنے تک‘ ہر اُس خوبی اور ہر ایسی صلاحیت کو جلا کر راکھ کر دیا ہے جو قائداعظم‘علامہ اقبال‘ چوہدری رحمت علی‘ سرسید احمد خان‘ عبیداللہ سندھی اور قیام پاکستان کیلئے دل و دماغ میں عظمت کے چراغ روشن رکھتی تھی۔ اُس نے ہمارے جھکے ہوئے سر فخر سے اُونچے کر دیے تھے۔میری طرح وہ لوگ جو تقسیم ہند سے پہلے پیدا ہوئے وہ His Masters Voiceکے پرانے گراموفون سے ضرور واقف ہوں گے۔ گراموفون کی اُوپری سطح پر سیاہ رنگ کا گول ریکارڈ رکھا جاتا تھا‘ نچلی سطح پر لگے ہوئے ہینڈل کو گھما گھما کر گراموفون میں چابی بھری جاتی تھی اور اس کی بدولت ریکارڈ گھومنے لگتا تھا اور اُس میں نکلنے والی آواز اُس سوئی کا کرشمہ تھی جو ریکارڈ پر بنی ہوئی لکیروں کو زندگی بخشتی تھی۔ اگر ریکارڈ میں کوئی خرابی پیدا ہو جاتی تھی تو سوئی ایک مقام پر اٹک جاتی تھی۔ ایک ہی آواز بار بار آتی تھی اور یہ تکرار سامعین کو بیزار کر دیتی تھی۔ اس کا ایک ہی علاج ہوتا تھا کہ ہاتھ سے سوئی کو اُٹھا کر ذرا آگے رکھ دیا جائے۔ کالم نگار کو اس گرامو فون کی مثال دینے کی مجبوری یوں پیش آئی کہ ہمارے ماہرین سماجی علوم کی سوئی بھی ایک مقام پر اٹک گئی ہے۔ وہ جن سیاسی اور معاشی تصورات پر بحث کرتے ہیں اور اپنے بیانیے کی بنیاد بناتے ہیں وہ کم از کم پچاس سے سو سال تک پرانے ہیں۔ آج کالم نگار پاکستان کے اُن ماہرین معاشیات سے مخاطب ہے جو ہر سال کے ہر ماہ اور ہر ماہ کے ہر دن جن معاشی نظریات کو پڑھاتے ہیں یا دہراتے ہیں یا ہماری بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کا حل پیش کرتے ہیں تو وہ سن کر یا پڑھ کر مجھے گراموفون پر ایک ہی لکیر میں پھنسی یا اٹکی ہوئی سوئی یاد آتی ہے۔ اگر ان ماہرینِ معیشت نے اقبالؔ کے پہلے مجموعۂ کلام (بانگ درا) میں نیا شوالہ کے عنوان سے نظم پڑھی ہوتی تو وہ جان لیتے کہ ان کے صنم کدوں میں رکھے بت پرانے ہو گئے ہیں اور اقبال کو ان کو ایک نیا شوالہ تعمیر کرنے پر آمادہ کررہے ہیں۔
ایک سو سال گزرے اور ماہرین معیشت ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ وہ اقبالؔ کے مشورہ پر کان دھریں تو کیونکر؟ وہ لکیر کے فقیر ہیں۔ وہ افکارِ تازہ کی بجائے سنگ و خشت سے ہی کام چلانا چاہتے ہیں۔دوسری طرف اقبالؔ کی آواز آتی ہے کہ ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام۔ صدیوں کی غلامی نے صرف ہمارا دل نہیں توڑا‘ ہمارا ذہن بھی Babu Mindبنا دیا ہے۔ انگریز نے ہم پر دو سو سال حکومت کی تو اُس کے نو آبادیاتی نظام کا کلیدی پرزہ بابو تھا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں بابو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ وہ صرف احکامات کی تعمیل کرنا جانتے تھے۔ پڑھائے گئے سبق کو دہرانے کے ماہرین۔ رٹے رٹائے نسخوں کے تکرار میں ید طولیٰ رکھنے والے۔ اندھے بہرے اور گونگے۔ ایسے لوگ اہلِ مدرسہ بنے تو انہوں نے طلبا اور طالبات کا گلا بھی گھونٹ دیا۔ اقبالؔ کو حکم ِاذاں ملا تو وہ بت شکنی کی آواز سننے کیلئے مساجد اور مدرسوں کی طرف دیکھنے لگے۔
یہ اُن کی خوش گمانی تھی جو اُن کی وفات سے پہلے ان کا دل توڑنے کا موجب بنی ہوگی۔ آج اقبالؔ‘ عبید اللہ سندھی اور شاہ ولی اللہؒ کی روحیں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ ہم خستہ حال دیواروں کو گرا کر نئی دیواریں بنائیں گے یا ان پر چسپاں Wall Paperکو بدلنے پر اکتفا کریں گے؟ ماہرین معیشت کا فرضِ منصبی ہے کہ وہ اس سوال کا جواب دیں۔ وہ اُس سے نظر نہیں چُرا سکتے۔ وہ شتر مرغ نہیں کہ خطرے کو دیکھ کر اپنا سر ریت میں دبا لیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دانشوروں کو (مویشوں کی طرح) جگالی کرنا زیب نہیں دیتا۔
مندرجہ بالا بیانیے کے بعد ہم آج اپنے ماہرینِ معیشت سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے اور نجی ملکیت میں دینے کے علاہ ایک تیسرا راستہ بھی ہے جو قابلِ عمل ہے۔ تجربے کی کسوٹی پر پورا اُتر چکا ہے۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ ہم سٹیل مل اور پی آئی اے اور ریلوے جیسے بیمار صنعتی ادارو ں کو نہ سرکاری بابوئوں کے حوالے کریں اور نہ استحصالی ارب پتی سرمایہ داروں کے بلکہ ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں اور مزدوروں کو ہی ان کا مالک بنا دیں۔ یہ کالم نگار بار بار لکھ چکا ہے کہ ہمارے ملک میں لاکھوں ایکڑ قابلِ کاشت زمین غیر آباد پڑی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں کاشتکار بے زمین ہیں۔ آپ اس خالی زمین کوآسان ترین قسطوں پر یا مفت ان بے زمین کسانوں کو دے دیں‘وہ ان ویرانوں کو نخلستان میں تبدیل دیں گے۔ خود بھی خوشحال ہو جائیں گے اور ملکی آمدنی میں بھی نمایاں اضافہ کریں گے۔ اتنا اضافہ کہ ہمیں دوسرے ملکوں سے زرعی پیداوار در آمد نہ کرنا پڑیں۔ ہمارے پاس ڈاکٹر تو ہزاروں ہیں مگر وہ ہماری سب سے بڑی بیماری (معاشی پسماندگی) کا علاج نہیں کر سکتے۔ ماہرینِ معیشت بھی سینکڑوں ہزاروں ہیں مگر وہ ہمارے ایک بھی معاشی مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔ نہ افراطِ زر کا‘ نہ مہنگائی کا‘نہ بے روزگاری کا‘ نہ ہزاروں ارب ڈالروں کے قرض کا‘ نہ بڑھتی ہوئی غربت کا‘ نہ توانائی کے بحران کا‘ غرضیکہ کسی ایک مسئلہ کا بھی نہیں۔
کالم یہاں تک پہنچا تھا کہ میری نظر روزنامہ Timesکے صفحہ نمبر41 پر پڑی جو سارے کا سارا ایک تنظیم کے تعارف اور طریق کار کی وضاحت کیلئے وقف کر دیا گیا تھا۔ یہ ہے وہ نسخہ کیمیا جو ہماری کایا پلٹ سکتا ہے۔ کارخانوں کے مالکان اپنے صنعتی اداروں میں کام کرنے والوں کو کم از کم نصف اور زیادہ سے زیادہ تین چوتھائی حصص کے عطیات دے کر اُنہیں برابر کا حصہ داربنا سکتے ہیں۔ آجروں کو اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے گا۔ حکومت کو ٹیکس اور کارکنوں کو نہ صرف اپنی اجرت بلکہ منافع کا ایک بڑا تناسب۔ سرمایہ داروں اور محنت کشوں کی پانچوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور حکومت؟ اُس کا سَر بجا طورپر کڑھائی میں ہوگا۔
ماہرین معیشت سے دست بستہ عرض کی جاتی ہے کہ اگر وہ اس فارمولے سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کی حمایت کریں۔ اگر وہ اتفاق نہیں کرتے تو پھر دلائل دے کر اسے نقصان دہ ثابت کریں۔ برائے مہربانی وہ خاموش نہ رہیں۔ اگر بدقسمتی سے ہم دیوالیہ ہو گئے (زیادہ اخراجات اور کم آمدنی کی وجہ سے) تو آنے والی نسلیں اسے مجرمانہ غفلت قرار دیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved