تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     14-09-2021

تصادم کا انجام

''اقتدار کے لیے اپنے گھر پر حملہ کرنے والے کبھی چین کی نیند نہیں سوتے۔ بغاوت وہ دروازہ ہے جو ایک بار کھل جائے تو نسلوں کا خون بہا کر بھی بند نہیں ہوتا‘‘۔ یہ الفاظ ہندوستان کے سب سے بڑے حکمران جلال الدین محمد اکبر کے ہیں‘ جو اس نے اپنے بیٹے جہانگیر کی بغاوت ناکام بنانے کے بعد ادا کیے تھے۔ جہانگیر نے اپنے باپ کے خلاف دو بار بغاوت کی تھی۔ جہانگیر حکمران بنا تو اس کے تینوں بیٹے باری باری باپ کے خلاف سرکشی کے مرتکب ہوئے۔ پھر جہانگیر کا بیٹا شاہ جہاں مسندِ اقتدار پر بیٹھا اور اس کے چارو ں بیٹے بھی ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے۔ پھر اورنگ زیب عالمگیر نے ہندوستان کی کمان سنبھالی۔ دارا شکوہ سمیت تینوں بھائیوں کو قتل کیا اور اپنے باپ شاہ جہاں کو قید خانے میں ڈال دیا۔ جلد ہی اورنگ زیب نے بھی وہ دن دیکھا جب اس کے بیٹے اکبر نے راجپوتوں کے ساتھ مل کر باپ کے خلاف بغاوت کی اور پھر یہ سلسلہ تھما نہیں بلکہ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے تک ایسے ہی چلتا رہا۔ جلال الدین محمد اکبر کے الفاظ سچ ثابت ہوئے کہ اقتدار کے لیے اپنے گھر پر حملہ کرنے والے کبھی چین کی نیند نہیں سوتے۔ بغاوت وہ دروازہ ہے جو ایک بار کھل جائے تو نسلوں کا خون بہا کر بھی بند نہیں ہوتا۔ مغل آپس میں اقتدار کے لیے لڑتے رہے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ہندوستانی عوام کو ہوا۔ دنیا کی نظروں میں ہندوستان سونے کی چڑیا تھا‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا۔ کوئی جائے اور حکمرانوں کو بتائے کہ ان کی آپس کی لڑائی عوام کو لے ڈوبتی ہے۔ چین کی نیند سونے والے بے چین ہو جاتے ہیں اور سکھ کا سانس لینے والے سزا کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ حکمرانوں کے کیے کی سزا عوام کو غربت، محرومی اور غلامی کی صورت میں بھگتنا پڑتی ہے مگر اس کا ادراک کون کرتا ہے؟
جمہوریت میں حکومت‘ ریاست کی اکیلی اولاد نہیں ہوتی بلکہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے آزاد ادارے بھی حکومت کے دست و بازو ہوتے ہیں۔ یہ سارے آئینی ادارے مل کر کام کرتے ہیں تو ہی ریاست اور رعایا‘ دونوں کا بھلا ہوتا ہے۔ ریاست مضبوط ہوتی ہے اور رعایا خوشحال۔ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہوتا ہے اور معیشت توانا۔ الیکشن شفاف ہوتے ہیں اور حکمران قابل گرفت۔ کوئی مقدس گائے ہوتا ہے نہ کسی کو این آر او ملتا ہے مگر جس ملک میں (بدقسمتی سے) جمہوریت کی گنگا الٹی بہتی ہو‘ سب ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے چکر میں ہوں‘ تو وہاں وہی حال ہوتا ہے جو مغلوں کا ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں عوام کو ویسی ہی سزا ملتی ہے جو ہندوستان کے باسیوں کے مقدر میں آئی تھی۔ ہمارے ہاں جمہوریت چار بار ٹھوکر کھا کر گر چکی ہے مگر پھر بھی ہمارے سیاستدان حکمت سے کام نہیں لیتے۔کیوں؟ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہر وہ حربہ آزماتے ہیں جو بعد ازاں جمہوریت کے ماتھے کی کلنک بنتا ہے۔ کیوں؟
حکومت پہلے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن کے ساتھ جنگ وجدل میں مصروف تھی مگر اب اس نے اپنی توپوں کا رخ الیکشن کمیشن اور میڈیا کی جانب موڑ دیا ہے۔ میڈیا اپنی لڑائی لڑنا جانتا ہے کیونکہ اسے ہمیشہ سے ہی حکمرانوں کی اپوزیشن کا سامنا رہا ہے۔ حکمران کبھی میڈیا پر سامنے سے وار کرتے ہیں اور کبھی چھپ کر۔ یہ لڑائی کل بھی تھی، آج بھی ہے اور شاید ہمیشہ رہے گی۔ اہلِ اقتدار عوام کی حق تلفی کرنے سے باز آئیں گے نہ میڈیا خاموشی اختیار کرے گا۔ مگر الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے؟ الیکشن کمیشن کی لڑائی کون لڑے گا۔ آئینی اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ عوامی فورمز پر کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ ان پر کوئی الزام لگائے تو وہ جواب نہیں دے پاتے۔ حکومت نجانے کیوں آئندہ الیکشن میں الیکٹراک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر بضد ہے اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو اہمیت ہی نہیں دے رہی۔ الیکشن کمیشن اگر یہ کہتا ہے کہ ای وی ایم سے دھاندلی کا سدباب ممکن نہیں تو حکومت الزام تراشی پر کیوں اتر آئی ہے؟ وزرا نے الیکشن کمیشن پر سچ اور جھوٹ کے پتھر کیوں برسانا شروع کر دیے ہیں؟ انہیں کیوں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں؟ انہیں کیوں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ترجمان بن چکا ہے؟ انہیں کیوں لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن سے الیکشن کروانے کا اختیار لے کر حکومت کو دے دینا چاہیے؟ حکومت اور اس کے وزرا کیوں بھول جاتے ہیں کہ آزاد ادارے ہی جمہوریت کے ضامن ہوتے ہیں۔ آپ کیسے کسی آئینی ادارے کی تضحیک کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم نہیں چیف الیکشن کمشنر کے پاس سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ قانون کا استعمال کرتے ہوئے آپ کو نااہل قرار دے سکتے ہیں اور توہین عدالت کا مرتکب بھی ٹھہرا سکتے ہیں۔ کیا آپ نے مسلم لیگ نون کے رہنمائوں طلال چوہدری، دانیال عزیز اور نہال ہاشمی سے کچھ سبق نہیں سیکھا کہ کیسے اداروں پر غلط الزام لگا کر وہ نااہل ہوئے تھے۔ اگر چیف الیکشن کمشنر آپ کو اتنے ہی ناپسند تھے تو انہیں تعینات کیوں کیا تھا؟ کیا اس میں بھی کسی اور کا دوش ہے؟ یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ سکندر سلطان راجہ صاحب کا نام حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے ناموں میں شامل تھا۔ جب اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے جانے والے ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا تھا تو حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے ناموں میں سے سلطان سکندر راجہ کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا گیا تھا۔
یوں گمان ہوتا ہے کہ اداروں سے تصادم حکمرانوں کا مشترکہ ترکہ ہے اور یہ ایک حکومت سے دوسری اور دوسری سے تیسری کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ ماضی گواہ ہے جب بھی حکمرانوں کے ستارے بدلتے ہیں‘ وہ آئینی اداروں سے الجھنے لگتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جیسے جہاں دیدہ سیاستدان نے بھی وہی غلطیاں کیں جو ضیاء الحق، نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف زرداری سے سرزد ہوئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ کسی بھی ادارے یا محکمے کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے 1977ء کے الیکشن میں جس طرح من مانی کی‘ اس کا نتیجہ سب نے دیکھا۔ بھٹو خاندان اور پیپلز پارٹی کو بعد ازاں اس کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی‘ یہ سب جانتے ہیں۔ میاں نواز شریف بھی اداروں اور محکموں سے لڑائی لڑتے لڑتے کہیں سے کہیں چلے گئے۔ وہ وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر جیل جاتے رہے اور جیل سے سیدھے جدہ اور لندن۔ میاں صاحب نے کبھی صدر غلام اسحٰق خان سے لڑائی کی تو کبھی پرویز مشرف سے جھگڑا کیا۔ کبھی جسٹس سجاد کے خلاف محاذ کھولا تو کبھی مقتدرہ سے تکرار کی۔ اس مقابلہ بازی کا حاصل حصول کیا ہوا؟ تین بار وزیراعظم بنے اور تینوں بار مدت پوری کر سکے نہ ہی عوام کے دکھوں کا مداوا۔ پرویز مشرف نے بھی آٹھ سال تک بلا خوف و خطر حکومت کی باگ سنبھالے رکھی مگر جیسے ہی اداروں سے الجھنا شروع کیا، ان کے اقتدار کی الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ آصف زرداری جب صدر بنے تو حکومت کے ذریعے سے اداروں کے ساتھ ٹکراتے رہے۔ کبھی سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کا معاملہ تو کبھی میمو گیٹ۔ پانچ سال ایسے ہی جھگڑوں کی نذر ہو گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ پنجاب، کے پی اور بلوچستان کے عوام کا پی پی سے دل بھر چکا ہے، آپ خود فیصلہ کریں، اداروں کی لڑائی میں زیادہ نقصان کس کے حصے میں آتا ہے۔ حکمران یا عوام؟
الیکشن کمیشن کا وقار اور اختیارات کیا ہوتے ہیں‘ یہ جاننے کے لیے آپ انڈیا کے الیکشن کمیشن کو ضرور دیکھیں۔ مجال ہے کہ کوئی سیاستدان اسے ڈرانے‘ دھمکانے یا اس پر الزام لگانے کی جرأت ہی کر سکتا ہو۔ مجال ہے کہ الیکشن کے دنوں میں انتظامیہ اور پولیس سیاستدانوں سے ہدایات لیتی ہوں۔ مجال ہے کہ الیکشن کمیشن کو فنڈنگ کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہو۔ ہر کوئی اپنی آئینی اور قانونی حدود میں رہتا ہے‘ اسی لیے الیکشن سے قبل نگران حکومت کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ کیا ہم بھارت کے درجے پر بھی نہیں پہنچ سکتے؟ ہم ایک دوسرے پرالزام لگانے سے پہلے اپنے اپنے گریبانوں میں کیوں نہیں جھانکتے؟ ہم اپنے اداروں کو آزاد اور بااختیار کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ ہم اپنے حصے کے آدھا کلو گوشت کے لیے دوسرے کی پوری بھینس قربان کرنے پر کیوں تلے رہتے ہیں؟ ہم اپنے ماضی کے تجربات سے کیوں نہیں سیکھتے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved