تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-09-2021

پنج شیر‘ کردار اور کہانی

تھیوریز تو بہت سی ہیں، ایک یہ بھی کہ اگر 1997ء میں طالبان ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ تیل اورگیس کی دریافت کا معاہدہ منسوخ نہ کرتے تو ایک طویل عرصے تک افغانستان پر ان کی حکومت رہتی۔ نہ نائن الیون کا سانحہ پیش آتا، نہ نیو یارک کے ورلڈٹریڈ سنٹر اور پنٹاگون سے جہاز ٹکراتے، نہ تین ہزار کے قریب امریکی ہلاک ہوتے، نہ امریکا افغانستان کا رخ کرتا اور نہ ہی امریکی، نیٹو اورایساف فورسز سمیت افغان عوام، فوج اور پولیس اہلکاروں کی لاکھوں ہلاکتیں ہوتیں ۔ واضح رہے کہ افغان جنگ میں پچاس ہزار سے زائد طالبان اور دوسرے جنگجو مارے گئے جبکہ پچپن ہزار سے زائد افغان فورسز اور پولیس اہلکار،نیٹو اور ایساف فورسز کے 450 فوجی،امریکا کے 2ہزار 300 فوجی ہلاک اور لگ بھگ 20 ہزار زخمی ہوئے۔اس جنگ کی اصل قیمت افغان عوام کو چکانا پڑی۔ ایک لاکھ گیارہ ہزار سے زائد عام شہری دو طرفہ حملوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔ یہاں پر یہ واضح رہے کہ عام افغانوں کی ہلاکت یا ان کے زخمی ہونے کا ڈیٹا اقوام متحدہ نے 2009ء میں جمع کرنا شروع کیا تھا۔اس سے قبل آٹھ سالوں میں جتنے عام شہری ہلاک ہوئے‘ ان کا تو شاید کوئی ریکارڈ بھی نہیں۔بات ہو رہی تھی نائن الیون کی‘ نہ یہ سانحہ پیش آتا، نہ بھارت کو کابل، قندھار ،جلال آباد اور پاک افغان سرحدی علا قوں کے پاس اپنی فوجی چوکیاں قائم کر کے پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کوآپریٹ کرنے کے مواقع ملتے، نہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جاتی اور نہ پاکستان کے70 ہزار عام شہری اور دس ہزار کے لگ بھگ فوجی اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتیں ہوتیں،نہ بھارت کو افغان فوج کی ٹریننگ کا موقع ملتا اور نہ ہی یہ اپنے پائوں افغانستان میں پسار پاتا۔ ملا فضل اللہ، ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گردوں کے ذریعے جی ایچ کیو، مہران نیول بیس، کامرہ (دو مرتبہ) ، کراچی میں چینی قونصلیٹ، ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر (دو مرتبہ)،مناواں پولیس ٹریننگ سنٹر (دومرتبہ)، کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر،آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر (لاہور) اور اسلام آباد میں اس کی سٹاف بس پر حملے بھی نہ ہوتے ۔ یہ سب نہ ہوتا تو شاید دنیا کا منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا۔
طالبان کو پنج شیر وادی کا کنٹرول کس طرح حاصل ہوا؟ کسی دوسرے ملک نے ان کی مدد کی یا نہیں‘ یہ باتیں اول تو واضح ہیں مگر اس کی آڑ میں جس طرح بھارت نواز حلقوں نے پاکستان کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے‘ اس کی وجہ ایسی نہیں کہ جو سمجھ میں نہ آ سکے۔ اب کی بار تو طالبان نے بھی تسلیم کیا ہے کہ وہ غلطیاں جو ان سے 1996ء میں سرزد ہوئی تھیں‘ انہیں دہرانے سے اجتناب کیا جائے گا۔ 1996ء میں طالبان نے جب قندھار سے مغربی افغانستان کی جانب بڑھنا شروع کیا توشمالی اتحاد نامی ایک گروپ ان کے سامنے کھڑا کیا گیا جسے تین بڑے ممالک کی مدد حاصل تھی۔ تاجکستان کے سرحدی علاقے میں پنج شیر نامی پہاڑوں سے گھری وادی میں اس کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ یہ رقبہ‘ کل افغانستان کا لگ بھگ دو فیصد ہے‘ اسے چھوڑ کر پورے افغانستان پر ملا محمد عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی،ابتدا میں طالبان نے اس وادی کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا مگر بعد ازاں یہی وادی طالبان مخالف قوتوں کی محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوئی، اسی لیے اس مرتبہ پچیس برس قبل کی جانے والی غلطی سے سبق سیکھتے ہوئے طالبان نے پنج شیر کی طرف بھی اپنے لوگ بھیج دیے جنہوں نے سب سے پہلے شیر خاں کلی اور تاجکستان کے سرحدی راستوں کا کنٹرول سنبھالا اور بعد ازاں پنج شیر کا رخ کیا۔ کوہ ہندو کش کی پنج شیر (پانچ شیر) وادی کو چہار جانب سے پانچ بڑے بڑے پہاڑوں نے اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے کہ یہ فوجی نقطہ نظر سے ایک محفوظ چھائونی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی طالبان نے قندھار پر قبضہ کیا توان کی تمام مخالف فورسز پنج شیر میں احمد مسعود کی قیا دت میں اکٹھا ہونا شروع ہو گئیں، یہیں پر سابق افغان نائب صدر امر ﷲصالح کا مرکز بھی تھا جنہوں نے آئینی صدر ہونے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ افغانستان میں اپنی حکومت کا اعلان بھی کیا تھا۔ طالبان نے اس وقت تک اپنی عبوری حکومت کا اعلان نہیں کیا جب تک پنج شیر کا معرکہ سر نہیں کر لیا۔ اس مرتبہ ازبکستان اور تاجکستان نے طالبان کے مقابلے میں احمد مسعود کا ساتھ کیوں نہیں دیا‘یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اب ذرا ماضی قریب کا دورہ کرتے ہیں۔ 2006ء میں ایک معمولی سے شخص بیت ﷲمحسود کی قیا دت میں ٹی ٹی پی قائم ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وزیرستان سمیت (سابقہ) فاٹاکی ساتوں ایجنسیوں میں پھیل جاتی ہے، کیا یہ معمولی بات ہے؟سب سے بڑھ کر یہ کہ شمالی وزیرستان میں اتمان زئی قبیلے کے حافظ گل بہادر کاکمانڈر بن جانا؟ پھر اس کے چچازاد بھائی عبد ﷲمحسود‘ جس کی جنگ میں ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی‘ کو اچانک‘ ڈھائی برس قید رکھنے کے بعد ‘گوانتانامو جیل سے رہا کر دینا، یہ یقینا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔
فروری1989ء میں روس کی شکست کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں کی خواہش تھی کہ افغانستان کے سب وار لارڈز آپس میں لڑ مر کر جب تھک جائیں گے اور ان کی نفری اور ہمت جواب دے جائے گی تو وہ امن فورسز کے نام پر افغانستان میں اپنا تسلط قائم کر لیں گے اور پھر بھارت کو اپنے ساتھ ملا کر سینٹرل ایشیا سمیت خلیج ، ایرا ن اور پاکستان کواپنی مرضی اور خواہشات کے مطا بق آپریٹ کریں گے۔ اس سے پہلے کہ چین اپنے قدموں پر کھڑا ہو‘ اسے چلنے سے پہلے ہی لڑ کھڑا دیا جائے گا لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔1994ء میں ملا محمد عمر کی قیادت میں‘ معاشرے میں جاری ظلم و ستم کے خلاف ایک دستہ کھڑا ہوا جس نے ظالموں کا ہاتھ طاقت سے روکنے کا فیصلہ کیا، ابتدا میں یہ تیس طالبعلموں پر مشتمل گروہ تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طالبان کے نام سے مدرسوں کے بچوں کی ایک ایسی جماعت کا جنم ہوا جس نے دنیا کی جنگی تاریخ میں ایسے باب شامل کیے جن پر دنیا حیران و پریشان کھڑی ہے۔ قندھار کے دینی مدرسوں کے طلبہ کی مٹھی بھر جماعت نے دیکھتے ہی دیکھتے ستمبر1996ء میں افغانستان کے85 فیصد سے زائد حصے پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا، جس طرح آج سب انگشت بدنداں ہیں کہ ایک ہفتے ہی میں طالبان کابل تک کس طرح پہنچ گئے‘ اگر تاریخ اور جنگی واقعات کے ورق الٹا کر دیکھیں تو اسی قسم کی عوامی تائید اورمدد انہیں اس وقت بھی حاصل ہوگئی تھی جب انہوں نے قندھار سے مملکت اسلامیہ کے نام سے اپنی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان کیا تھا ۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات‘ محض تین ملک تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کے علا وہ ان کی مدد جاری رکھی جبکہ ان کے مقابلے میں شمالی اتحاد کو بھارت اور روس سمیت تمام علاقائی اور مغربی ممالک کی بھر پور مدد حاصل تھی۔ ملا عمر کی مقبولیت اور عوامی تائید میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں امن و امان کی بحالی تھی۔ ملا عمر نے اعلان کیا کہ قندھار سے کابل اور پنج شیر تک‘ اگر کسی بھی علاقے میں کسی خاتون یا کسی دوسرے فرد کوکسی لٹیرے‘ ڈاکو یا کسی وارلارڈ نے روکا یا کوئی کوئی نقصان پہنچایا تو اس کا بدلہ ملا عمر کے ذمے ہو گا۔ خواتین اور بچوں کی بے حرمتی، منشیات، اس کے استعمال اور سمگلنگ میں ملوث مجرموں کو اس طرح سب کے سامنے سزائیں دی جاتیں کہ کئی کئی دن تک ان کے جسم پھندوں پر جھولتے رہتے؛ البتہ طالبان کاموجودہ رویہ اب کافی لبرل ہے کیونکہ خواتین کی تعلیم،ملازمت اور لباس کی سخت ترین پابندیاں اس بار نافذ نہیں کی گئیں۔
ادھر اگست 2009ء میں پاکستان کو آگ اور خون میں نہلانے والے غیر ملکی ایجنٹ بیت ﷲ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد اس کے سسرالی گھر کے تہہ خانے میں رکھی تجوریوں سے جب لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر برآمد ہوئے تو دیکھنے والوں کی رال ٹپکنے لگی اور پھر ٹی ٹی پی میں تین نئے گروپ سامنے آ گئے جنہوںنے بھارت اور اجیت دوول سے اپنے لئے بھی بوریاں وصول کرنا شروع کر دیں ۔اب پنج شیر میں امر اللہ صالح کے گھر سے بھی لاکھوں ڈالر ملنے کی وڈیوز سامنے آئی ہیں۔شاید کردار بدل گئے، کہانی وہی چل رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved