تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-09-2021

اُدھر آسماں رو رہا ہے!

نئی دہلی میں محض دو دن میں ایک ہزار ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ یہ بارش بھی عجیب موقع پر ہوئی ہے۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز نے جو گُل کھلائے ہیں‘ اُن کی ''خوشبو‘‘ چھپائے نہیں چھپتی۔ بعض معاملات میں تو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا جان لیتی ہے کہ نئی دہلی کے بزرجمہروں نے کچھ اُلٹا سیدھا کیا ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال نے بھارت کے لیے عجیب الجھنیں پیدا کر رکھی ہیں۔ ایک طرف تو وہاں کی جانے والی اچھی خاصی سرمایہ کاری داؤ پر لگ گئی ہے اور دوسری طرف پالیسی میکنگ کے میدان میں بھی جو کچھ کیا گیا ہے، اُس کے منطقی نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ نئی دہلی میں پالیسی میکرز زیادہ روئے ہیں یا آسمان نے زیادہ آنسو بہائے ہیں! پچاس ساٹھ سال پہلے کا لتا منگیشکر کا گایا ہوا فلم ''ان پڑھ‘‘ کا گیت یاد آگیا جس کا مکھڑا تھا ؎
وہ دیکھو جلا گھر کسی کا‘ یہ ٹوٹے ہیں کس کے ستارے
اِسی گیت کے انترے کا جاندار شعر تھا ؎
اِدھر رو رہی ہیں یہ آنکھیں ‘اُدھر آسماں رو رہا ہے
مجھے کرکے برباد ظالم پشیمان اب ہو رہا ہے
مودی سرکار نے علاقائی اور عالمی سیاست میں کچھ نام بنانے، کچھ کر دکھانے کے نام پر جو شاندار بلنڈرز کیے ہیں اُن کے نتائج اب سفارت کاری کے میدان میں بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ مودی سرکار نے میڈیا کو کام پر لگا رکھا ہے یعنی یہ کہ جو کچھ غلط ہوا ہے‘ اُسے بالکل درست ثابت کرکے دکھاؤ۔ پاکستان کو بالخصوص نشانے پر رکھا جاتا رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ بھارت میں کہیں بھی کوئی گڑبڑ ہو تو پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے، اُسی کا ہاتھ ثابت کیا جائے۔ بہت سے معاملات میں داؤ اُلٹا بھی پڑا ہے یعنی پاکستان کے لیے کھودے جانے والے گڑھے میں بھارت خود گرا ہے مگر پھر بھی نئی دہلی کے اعلیٰ ترین ذہن کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔
افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے بھارت کے سیاسی قائدین اور پالیسی میکرز کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ مودی سرکار کی ہاں میں ہاں ملانے والے تجزیہ کار بھی اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے افغانستان کے حوالے سے اپنائی جانے والی پالیسیوں کو انتہائی فاسِد قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ اب اصلاحِ احوال پر توجہ دی جائے۔ بھارت نے افغانستان میں ایسے مفادات کی فصل بونے کی کوشش کی تھی جو کسی بھی طور ممکن نہ تھے۔ افغانستان کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ اُس پر بھارت کا راج کبھی نہیں رہا۔ انگریزوں کے دور میں کچھ مدت افغانستان کو ماتحت رہنا پڑا تھا مگر مسلمانوں کی آمد کے بعد سے تو اِس خطے پر ہندوؤں کی واضح حکومت کبھی نہیں رہی۔ یہی سبب ہے کہ وہاں اپنے تصوراتی مفادات کو پروان چڑھانے کے نام پر بھارت نے جو کچھ خرچ کیا‘ وہ ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب وہاں کی صورتِ حال دیکھ کر نئی دہلی کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر خیالی گھوڑے دوڑانے والے یہ سوچ کر افسردہ ہیں ؎
کل چمن تھا، آج اِک صحرا ہوا‘ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا
مودی سرکار کے ہاتھوں معاملات نے ایسی شکل اختیار کی ہے کہ بہت کچھ دیکھا بھالا ہونے کے باوجود پہچانا نہیں جاتا۔ نریندر مودی نے وزیر اعظم کی حیثیت سے کئی تجربے کیے ہیں اور ہر تجربہ پلٹ کر آیا اور اُن کے منہ پر طمانچا رسید کرگیا۔ انتہا پسند ہندو لابی کی حکومت نے ایسا بہت کچھ کیا ہے جسے دیکھ کر خیال آتا ہے ؎
سوچتا ہوں اپنے گھر کو دیکھ کر ‘ہو نہ ہو، یہ ہے مرا دیکھا ہوا!
پورے افغانستان پر طالبان کا تصرف قائم ہو جانے کے بعد سے اب تک بھارتی میڈیا نے جو کچھ کیا ہے اُس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قومی معاملات میں اندھے ہوکر تمام زمینی حقیقتوں اور اخلاقی معیارات کو نظر انداز کرنے کا کیا نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ نریندر مودی کا حال یہ کہ وہ اب بھی کچھ سیکھنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے۔ نئی دہلی کی اسٹیبلشمنٹ کو اس خطا کی سزا تو ملنا ہی تھی۔ مودی اینڈ کمپنی کو ملک سونپنا بھی کچھ کم نہ تھا مگر اِس سے بڑی حماقت یہ ہوئی کہ پالیسی میکنگ میں بھی انتہا پسندوں کا دباؤ قبول کرلیا گیا۔ اِس کے نتیجے میں جو پالیسیاں مرتب کی گئیں وہ خطے میں بھارت کی پوزیشن کو مزید کمزور کرگئیں اور لازم ہوگیا کہ ایک دنیا لعن ملامت کرے۔ اب یہی ہو رہا ہے اور یہ بالکل فطری معاملہ ہے مگر مودی اینڈ کمپنی کو یہ بات بہت بُری لگ رہی ہے۔ حقیقت پسندی پر مبنی تنقید برداشت کرنے کے لیے وہ کسی طور تیار نہیں۔ حکمرانی کے نام پر بھارت کو پستی میں دھکیلنے والا انتہا پسند ٹولہ کہتا ہے ؎
مجھ کو بربادی کا کوئی غم نہیں‘ غم ہے بربادی کا کیوں چرچا ہوا!
افغانستان میں بھارت کو جس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے اُس کے بیان کے لیے اردو کے کئی شعرا سے مدد لی جاسکتی ہے۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اشعار مودی اینڈ کمپنی کی حماقتوں کے بیان کی خاطر ہی کہے گئے تھے! اگر غالبؔ کے نتائجِ طبع سے استفادہ کریں تو کہا جائے گا ع
بہت بے آبرو ہوکر تِرے کوچے سے ہم نکلے
پالیسی میکنگ کے معاملے میں نئی دہلی جن حماقتوں کا مرتکب ٹھہرا‘ وہ سراسر بے ذہنی اور بے عقلی کی ناقابلِ تردید عملی مثالیں ہیں۔ لیاقت علی عاصم مرحوم کہتے ہیں ؎
شاعری کرتے مگر سوچ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں، زخمِ جگر ہے کہ نہیں
جب مودی اینڈ کمپنی نے افغانستان میں اپنے مفادات مضبوط کرنے کے نام پر بنیادی ڈھانچے کی اَپ گریڈیشن کے لیے سرمایہ کاری کا ڈول ڈالا تھا‘ تب سمجھانے والوں نے جاذبؔ قریشی مرحوم کے سے پیرائے میں سمجھایا بھی تھا کہ ؎
کیوں مانگ رہے ہوں کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو!
ایک زمانے سے بھارت کی سیاسی و عسکری قیادت خطے میں بالا دستی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر تو نہیں مگر شرمندہ ضرور کیا جا رہا ہے، بات بات پر پاکستان کو دبوچنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر پاکستان ہے کہ پکڑائی نہیں دے رہا۔
اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں چین، روس، ایران، تاجکستان، قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے انٹیلی جنس چیفس کا اجلاس ہوا‘ جس میں افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے جنوبی ایشیا اور یوریشیا کے لیے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کی ممکنہ حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ایک ہفتے قبل کابل کا دورہ کیا تھا اور وہاں کھینچی جانے والی اُن کی ایک تصویر بھی مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر وائرل رہی جس میں وہ چائے کا کپ پکڑے ہوئے تھے۔ یہ گویا بھارت میں اعلیٰ سطح پر براجمان کسی ''چائے والے‘‘ کے نام خاموش پیغام تھا۔ تصویریں خاموش پیغام دیتی ہیں مگر پیغام پانے والے چیخ پڑتے ہیں۔ نئی دہلی کے ردِعمل سے تو یہی ثابت ہوا ہے۔ کچھ دن قبل امریکا اور روس کے انٹیلی جنس چیفس نے بھی بھارت کا دورہ کیا تھا مگر جمگھٹ لگ نہ سکا۔ رونق میلہ اسلام آباد میں لگا ہوا ہے اور صفِ ماتم نئی دہلی میں بچھی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس افغانستان کی صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی سٹریٹیجک پوزیشن پر تلملاتے ہوئے غُرّانے کے مرحلے سے بھی اب آگے گزر چکے ہیں۔ ہم بھی کتنے ظالم ہیں، پڑوسی کو چین سے جینے نہیں دیتے!
مون سُون تو ختم ہوا مگر نئی دہلی میں ابھی کچھ دن آنسوؤں کی جھڑی لگی رہے گی۔ مودی اینڈ کمپنی نے پالیسی میکرز کے لیے رونے کے سوا کوئی آپشن چھوڑا ہی کب ہے؟ مودی کا معاملہ یہ ہے کہ بار بار ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں
کی منزل سے گزرتے ہیں مگر سیکھتے کچھ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved