ہندوستان صوفیا کی سرزمین کہلاتا ہے۔ وہ صوفیا جن کے عمل اور فکر کی روشنی نے ایک جہان کو متاثر کیا ان کی تعلیم کا مرکز و محور محبت تھی۔ ایک بے پایاں محبت جو کسی ایک طبقے اور مذہب تک محدود نہیں تھی۔ انسانیت کا درد اُن کی متاع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں میں ہر عمر‘ ہر مذہب اور ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ صوفیا کے چراغوں کی طویل قطار میں ایک روشن چراغ خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا ہے دہلی میں جن کے مزار پر مسلمان‘ ہندو‘ سکھ یکساں ذوق و شوق سے آتے ہیں اور جذب و کیف کی وہی کیفیت محسوس کرتے ہیں جو ہر مرید خاص کی پہچان ہے۔ نظام الدین اولیاؒ کا ذکر آئے تو ان کے خاص مرید امیر خسرو کا ذکر بھی آتا ہے۔ وہ خسرو جو اقوامِ عالم میں ایک شاعر‘ موسیقار اور عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جو اُردو زبان کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جنہیں لوگ طوطیٔ ہند کے نام سے پکارتے ہیں اور جن کی کتاب ''خالقِ باری‘‘ عربی‘ فارسی اور ہندی کا خوبصورت امتزاج ہے۔ جنہوں نے شاعری کی مختلف اصناف‘ غزل‘ لطیفہ‘ رباعی اور مثنوی میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنا مقام پیدا کیا۔
امیر خسرو اور نظام الدین اولیا کی کہانی رومی اور شمس تبریز سے ملتی جلتی ہے۔ کوئی خاص کشش تھی جس نے رومی کو شمس اور خسرو کو نظام الدین کے عشق کے بندھن میں باندھ دیا تھا۔ امیر خسرو کی طبیعت شروع ہی سے شاعری کی طرف مائل تھی اور ان کے افکار کی اپنی دنیا تھی‘ جس میں انہیں کسی کی مداخلت پسند نہ تھی۔ ادھر دہلی میں نظام الدین اولیاؒ کی خانقاہ کی طرف لوگ کھنچے آ رہے تھے۔ اس کا ایک بڑا سبب حضرت فریدالدین گنج شکرؒ تھے جو پاکپتن میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ تصوف میں ان کا بڑا مقام تھا۔ ان کا احترام دور و نزدیک تھا۔ جب حضرت فرید گنج شکرؒ نے حضرت نظام الدین اولیاؒ کو خلافت کا درجہ سونپا اور حضرت نظام الدینؒ اس اعزاز کے ساتھ پاکپتن سے دہلی آئے تو لوگوں کا ازدحام ان کی چوکھٹ سے لگ گیا تھا۔ ان کے مریدوں میں عام لوگ تھے اور امرائے شہر بھی۔ ان کے مریدوں کی بڑی تعداد دہلی کے دربار میں اہم عہدوں پر فائز تھی۔ حقیقت تو یہ تھی کہ نظام الدینؒ کی خانقاہ بادشاہ وقت کے دربار سے زیادہ طاقتور تھی اور دہلی کے بادشاہوں کو اس کا احساس تھا۔ کبھی کبھی وہ سوچتے کہ نظام الدینؒ کی خانقاہ میں ایسی کیا بات ہے کہ لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں؟ حضرت نے ابتدائی تعلیم بدایوں سے حاصل کی پھر دہلی میں مولانا شمس الملک محدثؒ کے شاگرد ہوئے۔ یہاں سے پاکپتن کا سفر کیا اور فرید گنج شکرؒ کی خلافت کا اعزاز حاصل کیا۔ جب حضرت نظام الدینؒ پاکپتن سے دہلی تشریف لائے تو ان کی عمر صرف بیس برس تھی۔ اس عمر میں فرید گنج شکرؒ سے خلافت کی سند حاصل کرنا معمولی بات نہ تھی۔ یہ وہ اعزاز تھا جس کی حسرت میں بہت سے علما نے اپنی عمریں بِتا دیں تھیں۔
انہی دنوں کی بات ہے امیر خسرو کے گھر میں بھی نظام الدین اولیاؒ کی مجلس کی خبر پہنچی۔ امیر خسرو کے والد امیر سیف الدین محمود تھے۔ انہوں نے نظام الدین اولیاؒ کی خانقاہ کا قصد کیا۔ راستے میں انہوں نے اپنے بیٹوں کی مرضی جاننا چاہی تو بڑے بیٹے نے کہا: آپ جو کچھ کر رہے ہیں ہماری بھلائی کے لیے ہوگا سو میں نظام الدین اولیاؒ کے ہاتھ پر بیعت کے لیے راضی ہوں۔ پھر سیف الدین نے چھوٹے بیٹے امیر خسرو سے پوچھا تو امیر خسرونے توقف کیا اور بولے: میری بیعت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک میں خود ارادہ نہ کروں۔ نیک خصلت والد نے پوچھا: تو پھر تمہارا کیا ارادہ ہے؟ امیر خسرو نے کہا: آپ بھائی کو لے کر اندر چلے جائیں‘ میں خانقاہ کے باہر یہیں بیٹھتا ہوں۔ والد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ جب ان کے والد ان کے بڑے بھائی کو لے کر حضرت نظام الدین اولیاؒ کی محفل میں چلے گئے اور امیر خسرو نے اپنے تصور میں کچھ شعر موزوں کئے اور سوچا کہ اگر نظام الدین دل میں چھپے ہوئے بھید کا حال جانتے ہیں تو میری سوچ کو جان لیں گے‘ اور اگر انہوں نے میرے شعر کا جواب شعر میں دیا تو میں ان کے کشف و کرامات کا قائل ہو جاؤں گا اور خود ان کی مجلس میں جا کر ان سے بیعت کی درخواست کروں گا۔
امیر خسرو کو کیا پتا تھا آج ان کی زندگی میں ایک انوکھا واقعہ رونما ہونے والا ہے‘ جو انہیں نظام الدین اولیاؒ کے عشق میں ایسا گرفتار کرے گا کہ وہ ساری زندگی طائرِ بسمل کی طرح تڑپتے رہیں گے۔ امیر خسرو باہر بیٹھ کر اپنے والد اور بھائی کا انتظار کر رہے تھے کہ انہوں نے تصور میں اپنے موزوں کردہ شعر کو دہرایا:
تو آں شا ہے کہ بر ایوانِ قصرت
کبوتر گر نشیند باز گردد
غریبے مستمندے بر درآمد
بیاید اندروں یا باز گردد
(تو ایسا بادشاہ ہے اگر تیرے محل کے کنگور ے پر کبوتر آ بیٹھے تو تیری وجہ سے وہ باز بن جائے میں ایک غریب حاجت مند ترے دروازے پر آیا ہے وہ اندر آ جائے یا واپس چلا جائے؟)
امیر خسرو کو بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک خادم انہیں اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ خادم نے قریب آکر ان سے پوچھا: آپ ہی تُرک زادے ہو؟ امیر خسرو نے نگاہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا۔ اس پر خادم نے کہا: مجھے حضرت نے بھیجا ہے‘ ان کا حکم تھا کہ باہر ایک تُرک زادہ بیٹھا ہے اس کے پاس جاؤ اور یہ شعر پڑھ کر واپس آ جاؤ۔ امیر خسرو ایک لحظے کے لیے چونک گئے اور خادم سے کہا: بولو حضرت نے کون ساشعر پڑھنے کو کہا ہے؟اس پر خادم نے حضرت کے دیے ہوئے اشعار پڑھے:
بیاید اندروں مردِ حقیقت/ کہ بامایک نفس ہم راز گرد
اگر ابلہ بود آں مرد ناداں/ ازاں راہے کہ آمد باز گرد
(حقیقت کے میدان کے مرد اندر چلا آتا کہ ہمارا ہم راز بن جائے اور اگر آنے والا ناسمجھ اور نادان ہے تو اسی راستے سے واپس چلا جائے)
امیر خسرو ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھے اور دیوانہ وار حضرت نظام الدین اولیا کی مجلس کی طرف لپکے اور حضرت سے بیعت کی درخواست کی۔ وہ بیعت عشق کے اٹوٹ رشتے میں ڈھل گئی۔ پھر تو حضرت نظام الدین اولیاؒ کی مجلس ان کی زندگی کا معمول بن گئی۔ وہ باقاعدگی سے نظام الدین اولیاؒ کی مجلس میں شرکت ان کے سفر کے ساتھی بنے۔ کہتے ہیں ایک بار حضرت نظام الدین اولیاؒ نے امیر خسرو سے کہا: حشر کے دن جب سب لوگ اپنے اعمال نامے لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو میرا رب مجھ سے پوچھے گا کہ تو دنیا سے کیا لایا ہے؟ تو میں کہوں گا ''میں اپنے ہمراہ خسرو کا سوزِ دل لایا ہوں‘‘۔ لیکن کیسی عجیب بات تھی کہ جب حضرت نظام الدین اولیاؒ کا وصال ہوا تو امیر خسرو دہلی سے باہر گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں خبر ملی تو وہ دہلی واپس لوٹے لیکن انہیں لگا کہ یہاں تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ ان کے دل سے بے اختیار آواز آئی:
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈالے کیس
چل خسرو گھر اپنے سانجھ پئی جو دیس
(محبوب چہرے پر زلفیں ڈالے سو رہا ہے۔ خسرو اب اپنے گھر چلو چاروں طرف شام ہو گئی ہے)
حضرت نظام الدینؒ کے وصال کے چھ ماہ بعد امیر خسرو نے بھی داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ان کی قبر اپنے مرشد کے مزار سے کچھ فاصلے پر ہے۔موت بھی ان کے مابین حدِفاصل نہ بن سکی۔