تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     15-09-2021

بھاجپا اور کانگرس میں زور کی اُٹھا پٹک

بھارت کی دونوں اہم پارٹیوں‘ بھاجپا اور کانگرس میں آج کل زور کی اٹھاپٹک چل رہی ہے۔ اگر کانگرس میں پنجاب اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ کے بدلنے کی افواہیں زور پکڑ رہی ہیں تو پچھلے چھ ماہ میں بھاجپا نے اپنے پانچ وزرائے اعلیٰ بدل دیئے ہیں۔ تازہ بدلائو گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی کا ہے۔ اس سے پہلے آسام میں سربانند سونووال‘ کرناٹک میں بی ایس یدورپا اور اترا کھنڈ میں ترویندر سنگھ راوت اور تیرتھ سنگھ راوت کو بدل دیا گیا۔ آسام کے علاوہ ان سبھی صوبوں میں جلدی ہی انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابات کی تیاری سال ڈیڑھ سال سے ہونے لگتی ہے۔ یہاں اصلی سوال ہے کہ پرانے وزیر اعلیٰ کو چلتا کر دینے اور نئے کو لے آنے کا جواز کیا ہوتا ہے؟ یہ اکثر تبھی ہوتا ہے جب پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ عوام میں اس کی دال پتلی ہو رہی ہے۔ اگر چنائو جیتنا ہے تو دوسرے پینترے تو ہیں ہی‘ ضروری یہ بھی ہے کہ عوام کے سامنے کوئی تازہ چہرہ بھی لایا جائے۔ جین روپانی کی جگہ کوئی پٹیل چہرے کی تلاش کیوں کی گئی؟ کیونکہ گجرات میں پٹیلوں کے 13 فیصد تھوک ووٹوں کیلئے بھاجپا کی رال ٹپک رہی ہے۔ بھاجپا پارٹی کی تشویش بھی وہی ہے جو دیش کی دوسری فرقہ پرست پارٹیوں کی ہے۔ اسے بھی جاتیوں کے تھوک ووٹ چاہئیں۔ بھارتیہ جمہوریت کو ذات پات کے اس بھوت سے کب نجات ملے گی‘ کہا نہیں جا سکتا۔ 2017ء کے چنائو میں گجرات میں ملی کم سیٹوں نے بھاجپا کے کان پہلے سے کھڑے کر رکھے تھے۔ اگر اگلے چنائو میں بھاجپا کے ہاتھ سے گجرات کھسک گیا تو دہلی کو بچانا مشکل ہو سکتا ہے۔ وزرائے اعلیٰ کو تڑاتڑ بدلنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ بھارتی پارٹیوں کی ٹاپ قیادت کا اعتماد خود پر سے ہل رہا ہے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ وہ ان صوبوںکا چنائو اپنے دم پر شاید جیت نہیں پائیں گے۔ اگر انہیں خود پر اعتماد ہوتا تو کوئی وزیر اعلیٰ‘ کسی بھی ذات کا ہو اور اس کی صلاحیت بہت مؤثر نہ بھی رہی ہو تو بھی وہ اپنے دم پر چنائو جیتنے کا مادہ رکھ سکتے ہیں۔ فی الحال نریندر مودی کی قیادت کا موازنہ کانگرس کی اعلیٰ قیادت سے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک اٹل سچائی ہے کہ مودی کو ہلا سکے‘ ایسا کوئی سیاستدان بھارت میں نہیں ہے لیکن اگر کوئی خود کو ہلکا محسوس کرے تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔ کورونا کی وبا‘ لنگڑاتی معیشت‘ افغانستان پر بے حسی اور خارجہ پالیسی کے معاملے میں امریکہ کی اندھی تقلید یہ بتاتی ہے کہ مودی سرکار سے بھارت کو جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو رہیں۔
مودی صدر شی اور بائیڈن سے سیکھیں!
جب سے جوبائیڈن امریکہ کے صدر بنے ہیں چین کے صدرشی جن پنگ سے پہلی دفعہ ان کی کھل کر بات ہوئی ہے۔ یہ بات ڈیڑھ گھنٹے چلی۔ دونوں صدور نے اپنے معاملے بات چیت سے سلجھانے کی بات کی۔ دونوں نے آب و ہوا‘ آلودگی اور ایٹمی خطرے پر ایک جیسے خیالات کا اظہار کیا لیکن دونوں حکومتوں کے بیچ کئی معاملات پر زبردست ٹکراؤ ہے۔ اس وقت پچھلے کچھ سالوں سے امریکہ اور چین کے بیچ وہی ماحول بن گیا ہے جو 50‘ 60 سال پہلے سوویت روس اور امریکہ کے بیچ تھا یعنی سرد جنگ کا ماحول۔ دونوں ملکوں کی فوجوں کی چاہے سیدھی ٹکر دنیا میں کہیں بھی نہیں ہورہی لیکن ہر ملک میں چینی اور امریکی سفارتخانے ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے ڈپلومیٹس پر بھی کافی سختی رکھی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی دونوں ملکوں کے ترجمان ایک دوسرے کی مخالفت کرنے سے باز نہیں آتے۔ امریکہ کو ڈر ہے کہ چین اسے عالمی بازار میں کہیں پٹخ نہ دے اور اگلے 15‘ 20 سال میں کہیں دنیا کا سب سے مالدار ملک نہ بن جائے۔ امریکہ کے خطرے بھی کم محسوس نہیں ہوتے‘ چین‘ جو اربوں کھربوں روپے خرچ کرکے بی آر آئی منصوبہ بنا رہا ہے‘ پورے ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ میں چینی اثر کو قائم کردے گا۔ لاطینی امریکہ‘ جسے امریکہ اپنا پچھواڑا سمجھتا ہے‘ وہاں بھی چین نے اپنے پاؤں پسار لئے ہیں۔ اس نے ایشیا میں امریکہ کے ہر مخالف سے گٹھ جوڑ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایران امریکہ کے ایٹمی تنازع کا فائدہ چین جم کر اٹھا رہا ہے۔ اس نے ایران کے ساتھ تگڑا گٹھ جوڑ بٹھا لیا ہے۔ پاکستان تو برسوں سے چین کا ہمجولی ہے ان دونوں ملکوں کی دوستی اب افغانستان کے اوپر بھی منڈلا رہی ہے۔بھارت کے سبھی پڑوسی ممالک کے ساتھ چین کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وسط ایشیا کی پانچوں مسلم ریاستوں کے ساتھ بھی اس کے تعلقات بہتر بنتے جارہے ہیں۔ امریکہ کو نیچا دکھانے کیلئے چین نے روس سے بھی ہاتھ ملا لیا ہے۔ امریکہ بھی کم نہیں‘ اس نے جنوبی چینی سمندر میں چینی تسلط کو چنوتی دینے کیلئے جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ مل کر ایک چوکور اتحاد کھڑا کر لیا ہے۔ وہ تائیوان کے سوال پر بھی ڈٹا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے تنازعات کے ہوتے ہوئے دونوںممالک کے رہنماؤں کے بیچ کوئی خوشگوار بات چیت تو نہیں ہو سکتی تھی‘ لیکن ایک دوسرے کے مخالف دو ملکوں کے رہنما اگر آپس میں بات کرسکتے ہیں تو بھارتی وزیر اعظم مودی ہمت کیوں نہیں جٹاتے؟ یہ ٹھیک ہے کہ گلوان میں بھارت چین مڈبھیڑ ہوگئی لیکن جب بھارتی فوجی افسر چینیوں سے بات کر سکتے ہیں تو شی جن پنگ سے‘ جن سے مودی درجن بار سے بھی زیادہ مل چکے ہیں‘ سیدھی بات کیوں نہیں کرتے؟
برکس کی باسی کڑھی اور بھارت
برکس نامی بین الاقوامی تنظیم میں پانچ ممالک ہیں چین‘ روس‘ برازیل‘ جنوبی افریقہ اور بھارت۔ اس کی 13ویں میٹنگ کا صدر اس بار بھارت ہے لیکن برکس کی اس میٹنگ میں افغانستان پر ویسی ہی بات چیت ہوئی جیسا کہ سلامتی کونسل میں ہوئی تھی۔ سلامتی کونسل کی صدارت بھی بھارت نے ہی کی تھی۔ بھارتی حکومت کے پاس اپنا کوئی مقصد ہوتا تو ان دونوں بہت ہی زیادہ اہم اجلاسوں میں وہ ایسا کردار ادا کرسکتی تھی کہ دنیا کے سارے ممالک مان جاتے کہ بھارت ایشیا کااہم ملک ہے‘ لیکن ہوا کیا؟ اس میٹنگ میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے حصہ لیا تو چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی حصہ لیا۔ جنوبی افریقہ اور برازیل کے صدور بھی شامل ہوئے ۔ گلوان گھاٹی کی مڈبھیڑکے بعد مودی اور شی کی یہ سیدھی ملاقات تھی لیکن اس بات چیت میں سے نہ تو بھارت چین تناؤ کو گھٹانے کی کوئی تدبیر نکلی اور نہ ہی افغان مسئلے کو حل کرنے کا کوئی پکا راستہ نکلا۔ پانچوں صدور کی بات چیت کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا اس میں وہی گھسی پٹی بات کہی گئی جو سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہی گئی تھی یعنی افغانستان کے لوگ ملی جلی بات چیت کریں اور اپنی زمین کا استعمال سرحد پار کے ملکوں میں دہشت گردی پھیلانے کیلئے نہ کریں۔ یہ سب تو طالبان رہنما پچھلے 2‘ 3 مہینوں سے خود ہی کئی بار کہہ چکے ہیں۔ کیا یہی باسی کڑھی پروسنے کیلئے یہ پانچ بڑے ممالک کے رہنما برکس اجلاس میں اکٹھے ہوئے تھے۔ جہاں تک چین اور روس کا سوال ہے وہ طالبان سے گہرے رابطے میں ہیں۔ چین نے تو کروڑوں روپے کی مدد فوراً کابل بھیج دی ہے۔ کچھ ممالک اب افغان سرکار سے فائدہ اٹھائیں گے۔ بھارت برکس کا صدر تھا تو اس نے افغانستان کے بارے میں کوئی ذمہ دارانہ بات کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ بھارت نے دوسری بار یہ موقع کھودیا۔ وہ دوحہ بات چیت میں بھی شامل ہوا لیکن بے حیائی سے جنوبی ایشیا کا یہ نام نہاد شیر گیدڑ کی کھال اوڑھے ہوئے ہے۔ وہ طالبان سے سیدھی بات کرنے سے ڈرتا ہے۔اگر افغانستان میں القاعدہ اور خراسان گروہ زور پکڑ گئے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بھارت کو ہوگا۔ افغانستان کی حالت وہی ہوجائے گی جو پچھلے 40 سال سے ہے۔ وہاں تشدد کی گرم بازاری تو ہوگی ہی‘ پردیسیوں کی دہری غلامی بھی شروع ہوجائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved