تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     16-09-2021

توانا فارن آفس، پاکستان کی ضرورت

کسی بھی ادارے کی صحت اور ڈلیوری اس کے بشری وسائل (Human resources) کے معیار پر منحصر ہے۔ بشری وسائل کی کوالٹی تین عوامل سے منسلک ہے۔ اول یہ کہ ریکروٹمنٹ میرٹ پر ہو، دوئم ٹریننگ بہت اچھی ہو، سوئم ادارے کی قیادت اچھے ہاتھوں میں ہو۔ فارن آفس کی قیادت فارن منسٹر اور فارن سیکرٹری‘ دونوں کے پاس ہوتی ہے لیکن اصل قائد جو افسروں کا رول ماڈل بھی ہونا چاہیے وہ فارن سیکرٹری ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق فارن سروس سے ہوتا ہے۔ سروس کے مفادات کا خیال کرنا افسروں اور سٹاف میں محنت کی لگن پیدا کرنا، سروس لیڈر کا کام ہے۔ فارن سروس یوں سمجھئے کہ پاکستان کی آنکھیں اور کان ہیں جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہائبرڈ وار (Hybrid war) کے زمانے میں اس دفاعی لائن کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔
پاکستان فارن آفس شاندار روایات کا امین ہے۔ اس ادارے کے افسر جب ٹی وی پر بولتے ہیں یا پرنٹ میڈیا میں لکھتے ہیں تو ان کے دلائل میں تجربہ بولتا ہے‘ باتوں میں گہرائی محسوس ہوتی ہے۔ فارن آفس کا اولین فرض حکومت وقت کو فارن پالیسی کے امور میں مشاورت فراہم کرنا ہے۔ تجارت کا فروغ، عسکری تعاون، پاکستان کا بیرون ملک اچھا تاثر قائم کرنا، اہم امور میں پاکستان کے لیے حمایت حاصل کرنا‘ جس کی ایک مثال FATF ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ اور اس کے علاوہ کئی فرائض ہمارے سفارتی مشن سرانجام دے رہے ہیں۔ اس اہم قومی ادارے کو اچھے بشری اور مالی وسائل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اس بات سے چشم پوشی ناممکن ہے کہ اس وزارت کو آج کل اچھی قیادت میسر نہیں لہٰذا مورال خاصا گرا ہوا ہے۔ لیکن موجودہ احوال کی اصلاح ممکن ہے‘ اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ فارن سیکرٹری ایسا ہو جو افسروں اور سٹاف کو انسپائر (Inspire) کرے‘ جو حق بات پر سٹینڈ لے سکے۔ دنیا میں اس وقت پاکستان کے لیے دس ملک اہم ہیں، ان میں سے پانچ تو سلامتی کونسل کے دائمی ممبر ہیں۔ تین ہمسایہ ممالک ہیں اور دو اہم برادر مسلم ممالک ہیں۔ نئے فارن سیکرٹری انتخاب یہ دیکھ کر کیا جائے کہ وہ ان ممالک میں سے کتنے میں کام کر چکا ہے یا اُن سے متعلقہ ڈیسک پر منسٹری میں کام کر چکا ہو، مثلاً سابق فارن سیکرٹری ریاض محمد خان کی پوسٹنگ کبھی افغانستان میں نہیں ہوئی‘ لیکن وہ افغان ڈیسک پر لمبا عرصہ رہے اور افغانستان کے بارے میں ان کی دونوں کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آئندہ فارن سیکرٹری کے پاس سیاسی امور کے تجربے کے علاوہ انتظامی امور کا تجربہ بھی ہو۔ یہ تجربہ ہو گا تو موصوف بشری اور مالی وسائل کا دانشمندانہ استعمال کر سکیں گے۔ ٹریننگ افسروں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ سنا ہے کہ فارن سروس اکیڈمی لمبے عرصے تک ہمہ وقت ڈائریکٹر جنرل سے محروم رہی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال چیف آف پروٹوکول کے عہدے کا بھی ہوا جو بذات خود بڑا اہم عہدہ ہے۔ پاکستان میں موجود سفارتی مشن روزانہ کی بنیاد پر چیف آف پروٹوکول کے دفتر سے ڈیل کرتے ہیں۔ چیف آف پروٹوکول نہ صرف صدر مملکت اور وزیرِ اعظم کے بیرونی دوروں میں عموماً ساتھ ہوتا ہے بلکہ پاکستان آنے والے اہم مہمانوں کے لیے ضیافتوں اور دیگر امور کا بندوبست بھی وہی کرتا ہے۔ یہ سارے کام لمبے عرصے تک ڈپٹی چیف کے حوالے کرنا مناسب نہیں۔
بدلتے عالمی تقاضوں کی وجہ سے ہمارے فارن سروس کے افسروں کو اعلیٰ ٹریننگ کی ہمہ وقت ضرورت ہے۔ آج کی دنیا میں انٹرنیشنل لا، ماحولیات، پانی کے جھگڑے، کلچرل ڈپلومیسی اور برآمدات بڑھانے کے طریقے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ فارن آفس کو ہر سال چند افسروں کو بیرون ملک اچھی یونیورسٹیوں اور اداروں میں ٹریننگ کے لیے بھیجنا چاہیے۔ ہر افسر کو کم از کم ایک غیر ملکی زبان پر عبور ہونا چاہیے۔
تقریر اور تحریر‘ دونوں فارن سروس کے لیے اہم ہیں۔ جونیئر افسروں میں خود اعتمادی اور کام کی لگن پیدا کرنا سینئرز کا کام ہے۔ انہیں دیدہ زیب لباس اور اچھے آداب کا بخوبی علم ہونا چاہیے۔ سفیر کے لیے اعلیٰ درجے کا میزبان ہونا ضروری ہے۔ اس کا دستر خوان وسیع اور فراخ دلانہ ہونا چاہیے۔ جو مہمان پاکستانی سفارت کار کا کھانا کھا کر جائے وہ نہ صرف ہمارے کھانوں کا شیدائی ہو جائے بلکہ سفارت کار کی گفتگو اور آداب سے بھی متاثر ہو۔ انگریزی میں ایک اصطلاح ہے Well rounded personality‘ اس کا قریب ترین ترجمہ شاید ہمہ جہت شخصیت ہو گا۔ سفارت کار اگر اچھا سپورٹس مین ہو تو وہ خود بھی دیار غیر میں بور نہیں ہو گا بلکہ کھیل کے ذریعے غیر ملکی دوست بھی بنا سکتا ہے جو بذات خود بہت ضروری ہے۔ صاحبزادہ یعقوب خان کو گھڑ سواری اور پیراکی کا شوق تھا۔ فارن سیکرٹری شہریار خان کرکٹ اور ٹینس کے شیدائی تھے۔ فارن سیکرٹری اور فارن منسٹر انعام الحق بیڈمنٹن شوق سے کھیلتے تھے۔ فارن سیکرٹری ریاض کھوکھر گالف اور ٹینس کے اچھے کھلاڑی تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جس ادارے میں لوگ کھیلوں کا شغف رکھتے ہوں وہاں میڈیکل بل بھی کم ہوتا ہے اور لوگ خوش مزاج ہوتے ہیں۔
فارن آفس میں رات گئے تک کام کرنے کی روایت پرانی ہے۔ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے، غالباً 1982ء کی بات ہے، صاحبزادہ یعقوب خان پہلی مرتبہ فارن منسٹر بنے تو اولین فرصت میں افسروں سے خطاب کیا۔ کہنے لگے‘ میں نے سنا ہے کہ کئی افسر بہت دیر سے گھر جاتے ہیں۔ آئندہ جو افسر اوقات کار کے بعد دفتر میں نظر آیا تو میں یہ سمجھوں گا کہ اس میں کچھ کمی ہے جو وقت مقررہ میں اپنا کام ختم نہیں کر سکا؛ چنانچہ اس روایت کی کچھ عرصہ حوصلہ شکنی ضرور ہوئی مگر جلد ہی واپس لوٹ آئی۔ فارن آفس میں کچھ افسر تو واقعی مصروف ہوتے ہیں لیکن چند سینئرز کو امپریس کرنے کیلئے بھی دیر تک بیٹھتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم ایک ایسی برائی ہے جو ہمارے ملک میں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ 1973ء کے آئین میں یہ رعایت دس سال کیلئے دی گئی تھی، لیکن نصف صدی ہونے کو ہے‘ کئی قسم کا کوٹہ سسٹم اب بھی ہے۔ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے بشری وسائل کا صحیح استعمال منفی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں گریڈ 17 کی سطح پر بھی کوٹہ موجود ہے اور نان کیریئر سفرا کا علیحدہ کوٹہ ہے۔ انڈین فارن سروس میں معمولی سا کوٹہ صرف شیڈول کاسٹ کیلئے ہے۔ سفارتکاری اور جذباتیت متضاد چیزیں ہیں۔ سفارتکار کی شخصیت میں ٹھہرائو اور معروضیت‘ دونوں موجود ہوں تو وہ صحیح تجزیہ کر پائے گا۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ موجودہ وزیر خارجہ ایک نہایت اہم ملک کے بارے میں جذباتی ہو گئے اور بیان داغ ڈالا‘ جس سے پاکستان کو یقینا فائدہ نہیں ہوا تھا۔ سفارتکار کو تول کر بات کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں صاحبزادہ یعقوب خان اور آغا شاہی یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ سفارتخانوں کو مناسب مالی وسائل فراہم کرنا ازبس ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں اس پر غور کم ہی ہے۔ دس سال سے فارن الائونس منجمد ہے۔ یہ الائونس ہر تین سال بعد افراطِ زر کے حساب سے بڑھنا چاہیے۔
فارن منسٹر وزارت خارجہ کا سیاسی سربراہ ہوتا ہے، جبکہ فارن سیکرٹری انتظامی اور مالیاتی ہیڈ ہوتا ہے۔ فارن سیکرٹری خارجہ پالیسی کے بارے میں حکومت وقت کا چیف کنسلٹنٹ بھی ہوتا ہے۔ وزیر خارجہ اور فارن سیکرٹری کو ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کا احترام کرنا چاہیے۔ میں نے خورشید محمود قصوری کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ اس وقت ریاض کھوکھر فارن سیکرٹری تھے۔ دونوں میں احترام کا رشتہ تھا۔ یہ ضروری ہے کہ فارن سیکرٹری کے عہدے کی مدت تین سال مقرر کر دی جائے۔ انڈیا میں یہ روایت قائم ہے اور انڈیا میں نان کیریئر سفیر لگانے کی روایت بھی بہت کم ہے۔ جب سروس کے لوگوں کو سفارت کے زیادہ مواقع نظر آئیں گے تو وہ زیادہ تندہی سے کام کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved