تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     16-09-2021

سہ رنگ بارش

لاہور میں پچھلے دنوں خوب جھما جھم بارش ہوتی رہی۔ چند روز پہلے صبح دفتر آ کر بیٹھا تو کچھ دیر بعد سامنے شیشے کی دیوار کے پار مٹیالی زمین اور نیلے آسمان کے رنگ گہرے ہونا شروع ہوگئے۔ پھر بوندا باندی نے خشکی کو ڈسنا شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں موسلادھار بارش نے ہر طرف بے رنگ پانی کے رنگ بچھا دئیے۔ شہر بھر میں بارش نے اے سی بند کروا دئیے، پنکھوں کی ہوا ٹھنڈی کردی اور تنگ اور پتلی گلیوں سے لے کر کشادہ سڑکوں اور صاف ستھرے محلّوں تک ہر طرف پانی کے پھول کھلا دئیے۔ ایسے پھول جو آسمان سے برستے ہیں۔ زمین پر گرتے ہیں تو ایک فوّارہ سا بلند ہوتا ہے۔ پانی کے اس پھول کی عمر صرف ایک لمحہ ہے، اس کے بعد پھول کی پتیاں بکھر جاتی ہیں لیکن پھول ہیں کہ گنتی میں نہیں آتے اور چھوٹے بڑے فوّارے ہیں کہ پھوٹنے بند نہیں ہوتے۔
آسمان، زمین، سمندر، دریا، پہاڑ، ہوا، بارش‘ خوبصورتی کی یہ سات پریاں اس سیارے پر خدا کے تحفے ہیں۔ ایک سے ایک متنوع اداؤں والی پریاں‘ لیکن یہی پریاں غضبناک اور ناراض ہو جائیں تو ان سے کہیں پناہ بھی نہیں۔ انسان کے ہاتھ جڑوا دیتی ہیں‘ لیکن بات بارش کی خوبصورتی کی ہو رہی ہے۔ ان علاقوں کی بات الگ جہاں مسلسل بارش دق کردیتی ہے یا تباہی مچا دیتی ہے لیکن عام طور پر مجھ جیسے گرم خطوں کے رہنے والے کا جی بارش سے بھرتا ہی نہیں۔ بارش مجھے شاعری کی بہترین علامت لگتی ہے اور اسی لیے میں نے اپنے دوسرے شعری مجموعے کا نام ''بارش‘‘ رکھا تھا۔ کبھی سوچیں کہ شاعری اور بارش‘ دونوں میں کتنی مماثلتیں ہیں۔ دونوں پر اپنا اختیار نہیں۔ دونوں اوپر سے نازل ہوتی ہیں۔ دونوں کا پتہ نہیں کہ کئی دن یا ہفتوں کی جھڑی لگے گی یا چند گھنٹوں میں مطلع صاف ہوجائے گا۔ شاعری اور بارش، دونوں کی خوبصورتی بیان نہیں کی جا سکتی۔
بارش کی خوبصورتی؟ کوئی ایسی ویسی خوبصورتی؟ ہر علاقے، ہر موسم، ہر شہر میں الگ الگ خوبصورتی۔ دھان کی اٹھتی فصلوں سے بھرے ہرے میدانوں میں دور دور تک برستی، ہوا کے جھونکوں میں بل کھاتی لہریے دار بارش۔ میدانوں کے ٹوبوں، جوہڑوں، تالابوں کو بھرتی بارش۔ خنک پہاڑی قصبوں میں آس پاس پھرتے بادلوں سے رس ٹپکاتی بارش۔ تپتے صحرا میں جلتی بالُو میں جذب ہوتی ہوئی بارش۔ سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں کے جھلمل پانیوں پر برستی ترچھی بارش۔ آتش دان میں اٹھتے شعلوں کے درمیان سامنے گرتی ہلکور ے لیتی بارش۔ دریچوں اور شیشوں کو نم کرتی اور کھڑکیوں سے غرفوں کے اندر جھانکتی بارش۔ بارش کے ہزاروں رنگ ہیں اور ہر رنگ دوسرے سے مماثل بھی ہے اور مختلف بھی۔ یوں تو عمر بھر میں سینکڑوں بار بارش دیکھی ہوگی لیکن اس کے تین رنگ اور تین منظر بھولتے ہی نہیں‘ اور شاید بھولیں گے بھی نہیں۔
ہم دوپہر سے کچھ پہلے ''بٹراسی‘‘ کے ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ بٹراسی مانسہرہ اور بالاکوٹ کے درمیان ایک خوبصورت اور سرسبز پہاڑی جنگل ہے۔ لمبے دیودار اور چیڑ کے درختوں سے بھرا ہوا جنگل اور درختوں کے درمیان سے بل کھاتی سرمئی سڑک۔ ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار عرفان بابا نے گرم چائے بنائی اور سامنے فلک بوس برف پوش پہاڑ ''موسٰی کا مصلّیٰ‘‘ کی وجہ تسمیہ اور گھڑی گھڑائی داستان ایک بار پھر سنائی۔ چائے پیے گھنٹہ بھر نہ گزرا تھاکہ سامنے پہاڑوں کے پیچھے سے سیاہ بادل اٹھے اور سر پر سیاہ سائبان تان دیا۔ پہلے موٹی موٹی بوندیں گریں اور پھر موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ گہرے سبز پہاڑ کے پس منظر میں چاندی جیسی بارش کا تار چوٹی سے نظر آنا شروع ہوتا تو ایڑی تک جاتا دکھائی دیتا۔ ایک مکمل آہستہ روی کے ساتھ۔ جیسے کسی نے بارش کو سلوموشن میں کردیا ہو۔ ایک گھائل رفتار سے گرتی بارش زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی اور آنکھیں جھپکنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
ایک اور منظر ''پیر چناسی‘‘ کشمیر کا ہے۔ مظفر آباد پر سایہ فگن 9500 فٹ اونچے پیر چناسی پہاڑ کی چوٹی کے قریب ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس بنا ہوا ہے۔ کمروں کی عقبی بالکنی میں کھڑے ہوں تو بہت نیچے، ہزاروں فٹ نیچے، مظفرآباد کا شہر پھیلا ہوا ہے۔ اس روز دن اور رات کے ملاپ کے وقت بھی دریائے نیلم اور دریائے جہلم کا سنگم واضح اور صاف تھا۔ کچھ ہی دیر میں مغرب کے بعد شہر میں ایک ایک کرکے چراغ روشن ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر جھلمل روشنیوں سے بھرگیا۔ اس بلندی سے یہ منظر ایک طلسمی منظر جیسا تھا لیکن اس کے جادو میں ابھی اضافہ باقی تھا۔ ذرا دیر بعد ''مکڑا‘‘ پہاڑ کے پیچھے سے سیہ گھٹا اٹھی۔ لمحہ بھر میں ہوا تیز ہونے لگی اور بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر منڈلانے لگے۔ ہواؤں کی پھنکار میں اضافہ ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں اندازہ ہواکہ ہم بادوباراں کے ایک طوفان کی زد میں ہیں۔ کچھ ہی دیر میں بادل سر پر چھا چکے تھے اور کمروں میں بھی اب ہم ہی نہیں بادل بھی مقیم تھے۔ پیر چناسی کی بلندی پر اگر ہم اس وقت یہ دعویٰ کرتے کہ ہمارے قدم بادلوں پر ہیں تو غلط نہ ہوتا۔ ایسے میں بالکنی میں کبھی کبھار ساتھ والے کا چہرہ دیکھنا مشکل ہو جاتا تھا‘ لیکن اصل ڈرانے والی چیز بجلی کی مسلسل چمک اور بادلوں کی کڑک تھی۔ یہ خوفناک آواز اور دھاری دار برچھیوں جیسی بارش کی بوچھار ہمیں بہت پہلے بالکنی سے ہٹا چکی ہوتی لیکن جو منظر ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں وہ ناقابل فراموش تھا۔ بارش پوری تیزی کے ساتھ نیچے جاتی دور تک دکھائی دیتی۔ بادلوں کے کٹے پھٹے ٹکڑوں کے درمیان سے نیچے شہر کی گیلی روشنیاں دکھائی دیتیں اور بارش کی آڑی ترچھی نقرئی ڈوریاں ان روشنیوں کو رنگ برنگ کرتی جاتیں۔ آج تک زمین پر کھڑے ہوکر بارش کو اپنے اوپر اترتے دیکھا تھا لیکن بادلوں کی اونچائی سے بارش کو جھمکتی فضا میں نیچے بستیوں پر گرتے دیکھنا الگ طرح کا نظارہ تھا۔ بجلی کی چکا چوند اس منظر کواور خوابناک بنارہی تھی۔ اس طرح کہ تمام تر ڈر اور خوف کے باوجود جیسے پاؤں کسی نے جکڑ لیے تھے اور پلکیں صرف بارش کی بوندیں جھٹکنے کیلئے جھپکی جاتی تھیں۔ یہ طلسم چند گھنٹوں تک رہا، بادل غائب ہوئے اور منظر مزید شفّاف ہوگیا لیکن ان چند طلسمی گھنٹوں نے آج تک اپنے جادوئی اثر میں رکھا ہوا ہے۔
بارش کے اس سلائیڈ شو میں تیسری تصویر کوہ لارن کی ہے۔ سیام یعنی تھائی لینڈ کے ساحلی شہر پتایا کے قریب ایک ہرا بھرا جزیرہ کوہ لارن۔ جزیرے پر چھوٹی چھوٹی سبز پہاڑیاں زینہ اترکر سفید ریت سے بغل گیر ہوجاتی ہیں اوریہ سفید ریت سو دو سو گز آگے جاکر نیلے سمندر کے سینے میں منہ چھپا لیتی ہے۔ ہم نے یہ زینہ چڑھنے کی ٹھانی۔ تجسس تھاکہ چوٹی سے سمندر اور جزیرے کا منظر کیسا ہوتا ہے؟ آدھا راستہ ہی طے کیا تھاکہ ایک بڑا سیاہ بادل نظر آیا جسے ہوا جھکولے دیتی ہوئی جزیرے کی طرف لارہی تھی۔ پہلے بجری سی پڑنی شروع ہوئی۔ یہ بجری موٹی بوندوں میں تبدیل ہوئی اور پھر تیز بارش کے تریڑوں نے ان کی جگہ لے لی۔ چھپنے کی نہ کوئی جگہ تھی اور نہ چھپنے کی خواہش‘ لیکن اب چکنی مٹی والی پہاڑی پرچوٹی تک پہنچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ جہاں کھڑے تھے وہیں شرابور کھڑے رہ گئے۔ اس منظر کی انفرادیت وہ مرغولے داربارش تھی جو آنکھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ ہوا کا ایک کھلنڈرا جھونکا بادل کے ایک ٹکڑے کو چکر دیتا کبھی دور اور کبھی قریب لے آتا۔ دور ہوجانے پر بارش محض دھواں اور قریب آجانے پر دھواں دھار۔ ریت کے بگولے بہت دیکھے تھے لیکن بادل کا ایسا بگولا کبھی نہ دیکھا تھا۔ جانے اس گھنگریالے بادل نے ہمیں کتنی بار چھیڑا، اب یاد نہیں۔ یاد ہیں تو گالوں پر بہتی بوندیں جو پتہ نہیں آنسو تھے کہ بارش۔
ہر خوبصورتی میں ایک اداسی چھپی ہوتی ہے۔ بارش بھی ایک خوبصورتی ہے۔ اس کا خیرمقدم کیجیے۔ اس اداس خوبصورتی کو دل اور آنکھوں میں جگہ دیجیے کہ یہی ان کے اصل ٹھکانے ہیں۔گالوں پر بوندوں کو بہنے دیں۔ یہ بات چھوڑیں کہ یہ آنسو ہیں کہ بارش۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved