فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ڈیٹا ہیک ہونے اور ڈارک ویب پر بیچنے جانے کے حوالے سے میں پچھلے کالموں میں ذکر کرتا رہا ہوں۔ تقریباً پچیس دن تک یہ پتا ہی نہیں لگایا جاسکا کہ حملہ آور کون تھے۔ بالآخر پچیس دن بعد وزیرخزانہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ اس حملے کے پیچھے انڈین ہیکرز تھے لیکن ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آر اور پاکستان ریونیوآٹومیشن لمیٹڈ میں ایک بھی ایسا آئی ٹی پروفیشنل نہیں‘ جو ان حملوں کو روک سکتا۔ ہم نے ذمہ داروں کو سزا دے دی ہے۔ وزیر خزانہ صاحب کے یہ الفاظ اہمیت کے حامل ہیں۔ شوکت ترین صاحب تقریباً پانچ ماہ سے وزیر خزانہ کی مسند پر متمکن ہیں‘ چیئرمین ایف بی آر سے کئی مرتبہ میٹنگز بھی کر چکے ہیں حتیٰ کہ وزیراعظم صاحب بھی چیئرمین ایف بی آر اور آفیسرز سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ڈیٹا ہیک ہونے کے بعد ہی یہ احساس کیوں ہوا کہ محکمے میں ایک بھی قابل شخص نہیں ہے حالانکہ سب جانتے تھے کہ آئی ٹی نظام مئی 2020ء سے ایکسپائر ہو چکا ہے۔ اگر اس واقعے کے ذمہ داروں کی بات کی جائے تو میرے خیال میں کچھ سوالات ریفارمز اینڈ ماڈرنائزیشن ڈپارٹمنٹ سے بھی کیے جانے چاہئیں کیونکہ ایف بی آر ذرائع کے مطابق‘ تقریباً ایک سال تاخیر کی زیادہ ذمہ داری اسی محکمے پر عائد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ وزیر خزانہ صاحب اس طرف بھی توجہ دیں گے۔
سائبر حملے کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے علاوہ ایک بڑا معاملہ آئی ٹی نظام کی تبدیلی ہے‘ جس کا ذکر میں پہلے کالموں میں بھی کرتا آیا ہوں۔ اس حوالے سے حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ سرکار ایف بی آر کے آئی ٹی سسٹم کی خریداری کے لیے آپریشنل ایمرجنسی لگانے جا رہی ہے۔ جب میں نے ایف بی آر ذرائع سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ آپریشنل ایمرجنسی پچھلے چیئرمین عاصم نصیر نے لگائی تھی جس پر اب عمل درآمد کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت کیبنٹ سے منظوری کے بعد خریداری کی جائے گی۔ میڈیا ذرائع کے مطابق‘ ایف بی آر کی جانب سے کیبنٹ کو درخواست کی گئی ہے کہ پیپرا رولز کو نظر انداز کرتے ہوئے خریداری کر لی جائے۔ اس حوالے سے ایف بی آر ذرائع سے جب میں نے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ غلط خبر پھیلائی جا رہی ہے کہ پیپرا رولز سے ماورا خریداری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پیپرا رول 42، C5 کے تحت ایمرجنسی صورتحال میں ٹینڈر کے بغیر خریداری کرنا رولز کے مطابق قانونی طور پر درست ہے۔ ایف بی آر میں اس وقت ایمرجنسی صورتحال میں ہے‘ دشمن نے ادارے پر سائبر حملہ کیا ہے اور وہ دوبارہ بھی کوشش کر سکتا ہے‘ اس لیے جتنی جلدی ہو سکے آئی ٹی سسٹم خرید کے ممکنہ اگلے حملے کو روکا جا سکتا ہے۔ اگر ٹینڈر دینے کے مکمل عمل سے گزرا جائے تو عمومی حالات میں اس میں کم از کم تین ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے اور جس طرح آج کل کورونا کی وجہ سے سرکاری دفاتر میں معاملات چل رہے ہیں‘ اس میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔
رولز کے مطابق چیئرمین ایف بی آف آر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ٹینڈر دیے بغیر خریداری کا حکم دے سکتے ہیں لیکن چیئرمین صاحب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کی منظوری کیبنٹ سے لی جائے گی۔ یہ ایک احسن اقدام ہے۔اس وقت ملک میں احتساب کا کافی شور بلند ہو رہا ہے۔ بیوروکریسی میں سب سے زیادہ خوف نیب، ایف آئی اے اور ان جیسے دوسرے اداروں کو لاحق ہے۔ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جارہا ہے۔ اس طریقہ کار سے شفافیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ پوچھنے پر ذرائع نے مزید بتایا کہ آئی ٹی سسٹم کی خریداری کے لیے فنڈز حکومت دے رہی ہے۔ ورلڈ بینک سے ابھی منظوری نہیں ہوئی۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے 8 ملین ڈالرز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مکمل بجٹ 80 ملین ڈالرز کا ہے لیکن فوری طور پر جن اشیا کی ضرورت ہے‘ فی الوقت صرف وہی خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کن کمپنیوں سے سامان خریدا جائے گا‘ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مائیکروسافٹ یا اسی لیول کی کسی کمپنی سے خریداری کی جائے گی جس میں شفافیت کا عنصر نمایاں ہو۔
سرکار کے نظام میں شفافیت ہونے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ شفافیت سے کام ہوتا دکھائی بھی دے جو کہ باڈی لینگویج اور فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ ابھی اس حوالے سے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن بظاہر آئی ٹی نظام کی خریداری میں بہت احتیاط برتی جا رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ ممکنہ پریشر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ڈیٹا ہیک ہونے کے بعد سے تمام نظریں اسی مدعے پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ یہ سارا کام خوش اسلوبی اور شفافیت سے طے پا جائے گا۔
دوسری طرف جرمن سرمایہ کاروں کو پاکستان بلا کر سرمایہ کاری کی دعوت دی جا رہی ہے۔ جرمن اماراتی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے 20 نمائندوں نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ساتھ کراچی میں ملاقات کی‘ جہاں انہیں سی ای او عبدالعلیم نے بتایا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک ہے۔ او آئی سی سی آئی کے نمائندوں نے پچھلے نو سالوں میں اٹھارہ ارب ڈالر دوبارہ انویسٹ کیا جو ملکی معیشت پر اعتماد کا اظہار ہے۔ مثبت پہلو سامنے رکھنا یقینا قابلِ تحسین عمل ہے لیکن آج کی دنیا میں مکمل تصویر پیش کرنا زیادہ ضروری ہے ‘اس سے اعتماد کی فضا قائم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ انفارمیشن کا دور ہے۔ کسی بھی معلومات کو کراس چیک کرنا انتہائی آسان ہے‘ اس لیے صرف ایک طرف کا ڈیٹا دینا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (ایف آئی ڈی) کی بات کی جائے تو اعدادوشمار زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ نئے مالی سال کے پہلے مہینے میں ہی فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں تقریباً 39 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ پچھلے سال جولائی میں ایف آئی ڈی تقریباً 129 ملین ڈالرز تھی جو کم ہو کر اب صرف 90 ملین ڈالرز رہ گئی ہے۔ جس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم صاحب نے بھی حالیہ معاشی میٹنگ میں اس بارے استفسار کیا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جا سکا۔ کسی نے گیند چینی کورٹ میں پھینکی تو کسی نے متحدہ عرب امارات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ذریعہ چین ہے اور اس ماہ چین کی طرف سے سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ کس ملک سے کتنی سرمایہ کاری کم موصول ہوئی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری کم کیوں ہوئی ہے۔ کیا ملک میں سرمایہ کاری کے لیے مطلوبہ ماحول نہیں ہے یا پھر کسی وزرا اورمشیروں کی نااہلی کی وجہ سے منفی اعدادوشمار دیکھنے کو ملے۔ اس حوالے سے بوجھ افغانستان کی صورتحال پر ڈالنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ مغربی ہمسایہ ملک میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول نہیں بن رہا۔ حالانکہ یہ زمینی حقائق کے منافی ہے۔ چین کی جانب سے سرمایہ کاری کا تعلق کبھی بھی افغانستان کے حالات سے نہیں رہا حتیٰ کہ شدید دہشت گردی اور بم دھماکوں کے دور میں بھی چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا رہا ہے۔ او آئی سی سی آئی کے سی ای او سے گزارش ہے کہ ان تلخ حقائق کو بھی جرمنی سے آئے سرمایہ کاروں کے سامنے رکھیں تا کہ معاملے کی اصل اور مکمل تصویر سامنے ان کے سامنے ہو۔ ایف بی آر ہو یا ایف ڈی آئی‘ دونوں شعبے ملکی معاشی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ معمولی سی کوتاہی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈال کر مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ بروقت اور درست فیصلے ہی معیشت کی سمت درست کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔