تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-09-2021

تحفظات کے درمیان

جب سے افغانستان کا نظم و نسق ایک بار پھر طالبان کے ہاتھ میں آیا ہے، ایسا لگتا ہے مغربی تجزیہ کاروں کی دُم پر پاؤں پڑگیا ہے۔ اب اُن کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے طالبان کے اقتدار میں آنے سے خطے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کی سنگینی بیان کریں اور قیاس کے گھوڑے پر سوار ہوکر معاملات کو وہاں تک پہنچانے کی کوشش کریں جہاں صرف اور خدشات اور تحفظات دکھائی دیتے ہوں۔ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے نکل جانے کے بعد وہاں سٹریٹیجک اعتبار سے جو خلا پیدا ہوا ہے‘ اُسے پُر کرنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ جن میں دَم ہے وہ آگے بڑھ کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روس اور چین اس معاملے میں بہت نمایاں ہیں۔ پاکستان اس وقت براہِ راست کچھ کرنے کے بجائے معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے تاکہ کوئی افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال کا ملبہ کہیں اس پر نہ ڈال دیا جائے۔ خطے کی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر غور کرنے کے لیے اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں چین، روس، ایران، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان اور ترکمانستان کے انٹیلی جنس چیفس کی ملاقات ہوئی۔ یہ سب کچھ بھارت اور مغرب‘ دونوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ بھارتی تجزیہ کار بھی پریشان ہیں اور چینلز تو حلق پھاڑ کر چیخ رہے ہیں کہ ایک بار پھر پاکستان کامیاب رہا ہے اور خطے میں اُس کی پوزیشن بہتر بنانے میں افغانستان کے بحران نے کلیدی کردار ادا کیا ہے! دوسری طرف مغرب کے بیشتر تجزیہ کار یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ افغانستان میں حقیقی امن و استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ افغانستان کے متعدد پڑوسی وہاں اپنی مرضی کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف ایران کی دہائی دی جارہی ہے اور دوسری طرف چین کی۔ روسی قیادت بھی میدان میں ہے۔ وہ افغانستان کی صورتِ حال کو سٹریٹیجک معاملات میں گہرائی پیدا کرنے کی مؤثر تدبیر کے طور پر بروئے کار لانا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے میں روسی قیادت کس حد تک کامیاب رہے گی‘ یہ تو کچھ مدت کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا مگر اس وقت جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُس کی بنیاد پر بلا خوفِ ترید کہا جاسکتا ہے کہ روس ماضی کو بھلاکر پورے خطے میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے اور وسیع البنیاد تجارت کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے افغانستان کو بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ چین کی طرح روس بھی افغانستان کے لیے بہت کچھ کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے دنوں میں اُس نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو صریحاً انتباہ کیا کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو فوجی اڈے دینے سے باز رہیں۔ امریکا نے چاہا تھا کہ وسطی ایشیا کی ریاستیں اُسے فوجی اڈے قائم کرنے دیں تاکہ وہ افغانستان میں ناپسندیدہ عناصر کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری رکھ سکے۔ روس کا انتباہ کارگر ثابت ہوا۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں‘ بالخصوص افغانستان کے پڑوسیوں نے امریکا اور یورپ کو خوش رکھنے کے بجائے زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے معاملات کو بگاڑنے سے اجتناب کیا۔
افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے چین بھی تیار ہے اور کسی حد تک روس بھی۔ ایران بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت سے بہتر تعلقات استوار رکھے تاکہ افغانستان سے ملحق اُس کے سرحدی صوبوں میں امن رہے۔ یہ امن پورے خطے کیلئے لازم ہے کیونکہ چین کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی بھرپور کامیابی کے لیے پُرامن افغانستان چاہیے۔
ماضی میں ایران اور طالبان کے تعلقات زیادہ خوش گوار نہیں رہے مگر اب دونوں زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے مل کر چلنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایران چاہے گا کہ طالبان سے کسی بھی معاملے میں کوئی ایسا اختلاف نہ ابھرے جس سے دو طرفہ تعلقات کشیدہ ہوں۔ مشرقِ وسطیٰ میں الجھے ہونے کے باعث ایرانی قیادت یہی چاہے گی کہ طالبان سے معاملات درست رکھے جائیں تاکہ کم از کم افغانستان کی طرف سے بے فکر رہا جاسکے۔ ایران اور افغانستان کے مابین سرحد کی طوالت 572 میل ہے۔ اس سرحد کا بیشتر حصہ دشوار گزار ہے جس کی بھرپور نگرانی انتہائی مشکل ہے۔ ایسے میں ایران سرحدی مناقشوں سے بھی بچنا چاہے گا اور تمام روابط برقرار رکھنے کو بھی ترجیح دے گا۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سالانہ تجارت کم و بیش دو ارب ڈالر کی ہے۔ ایران تجارتی معاملات کو داؤ پر لگانا پسند نہیں کرے گا۔ طالبان نے بھی اب تک یہی عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان میں تمام نسلی اور مسلکی اقلیتوں کو قبول کرتے ہوئے چلیں گے۔ افغانستان میں پیدا ہونے والے بحرانوں سے پاکستان کی طرح ایران بھی براہِ راست متاثر ہوتا آیا ہے۔ سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے نتیجے میں ایران میں بھی افغان پناہ گزینوں کا ریلا آیا۔ 1996ء میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد افغانستان سے نقل مکانی کرکے ایران میں پناہ لینے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔ اس وقت بھی کم و بیش 35 لاکھ افغان باشندوں نے ایران میں پناہ لے رکھی ہے جن میں سے صرف 7 لاکھ 80 ہزار رجسٹرڈ ہیں۔ ایران کے سرحدی صوبوں رضاوی خراسان، جنوبی خراسان اور سیستان بلوچستان میں پناہ گزینوں کی آمد سے قدرے کشیدگی پائی جاتی ہے۔
چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ فی الحال اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں شورش دبانے کو سب سے زیادہ ترجیح دے رہا ہے۔ چینی قیادت یہ بات یقینی بنانا چاہتی ہے کہ اس شورش کو کم از کم افغانستان کی سرزمین سے مدد نہ ملے۔ چین ساتھ ہی ساتھ افغانستان کی حدود میں بھی امن چاہتا ہے تاکہ ایک طرف تو وہ معدنی وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہو اور دوسری طرف تجارتی راہداری قائم کرنے کا خواب بھی آسانی سے شرمندۂ تعبیر ہو۔ چین کو ہر اعتبار سے پُرامن اور مستحکم افغانستان درکار ہے اور وہ اس حوالے سے مالی اور سفارتی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ روس بھی یہی چاہتا ہے کہ افغانستان میں اُس کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ وہ اس معاملے میں چین اور ایران کو حریف کے طور پر دیکھنے کے بجائے کسی حد تک اتحادی بن کر اُن کے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے لیے حقیقی سپریمو کا درجہ حاصل ہو جائے۔ روسی قیادت خطے کی سلامتی کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرکے عالمی سیاست میں نمایاں حیثیت اختیار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ طالبان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے سوویت یونین کی افواج کو شکست دی تھی۔ اس شکست نے سوویت یونین کی تحلیل کی راہ ہموار کی تھی۔ سوویت عہد کے افغان مجاہدین اور طالبان کے حوالے سے روس کے بھی چند ایک تحفظات ضرور ہوں گے مگر وہ فی الحال تمام اختلافات اور تحفظات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے لیے وسیع تر سٹریٹیجک کردار یقینی بنانے پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتا ہے۔
طالبان کی دوبارہ آمد کو کسی حد تک قبول بھی کرلیا گیا ہے اور اس حوالے سے تھوڑے بہت تحفظات بھی برقرار ہیں۔ چار عشروں میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد کے حالات میں بھی دنیا تبدیلیوں کے متعدد مراحل سے گزری ہے۔ اس بار طالبان کو قبول کرتے ہوئے چلنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ خطے میں بہت اکھاڑ پچھاڑ ہوچکی‘ اب مزید خرابیوں کی گنجائش نہیں۔ ایسے میں طالبان کے لیے بھی دوبارہ حاصل ہونے والا اقتدار کسی آزمائش سے کم نہیں۔ پہلا دور بھی اُن کے لیے آزمائش تھا مگر اب اُنہیں ثابت کرنا ہے کہ دو عشروں کے دوران اُنہوں نے سیکھ لیا ہے کہ عالمی برادری کو کس طور ساتھ لے کر چلا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو بھی بہت سنبھل کر چلنا ہے۔ پُرامن اور مستحکم افغانستان یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر پاکستان کے لیے وسطی ایشیا اور اُس سے آگے روس سے تعلقات بہتر بنانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اس وقت خطے کو ہم آہنگی اور وسیع تر اشتراکِ عمل کی ضرورت ہے۔ پاکستانی قیادت کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہے کیونکہ دنیا نہایت باریک بینی سے تمام معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved