عمران خان سے سی این این کی نمائندہ نے انٹرویو کے درمیان امریکی صدر جو بائیڈن کی فون کال کے بارے میں پوچھا تو وزیراعظم نے کہا: ابھی تک فون نہیں آیا‘ ہوسکتا ہے صدر بائیڈن مصروف ہوں۔یہ سوال سن کر میں بہت محظوظ ہوا اور مجھے گائوں کا چاچا میرو کمہار یاد آگیا۔
یہ سوال سے زیادہ اب چھیڑ بن گئی ہے اور ہر آتا جاتا صحافی یا مخالف سیاستدان ہنس کر ‘آنکھ مار کر یہ ضرور پوچھتا ہے ''یار ذرا دسیں بائیڈن نے فون کیتا اے کہ نئیں؟ ‘‘اب حکومت کا کوئی نمائندہ ‘ وزیر یا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر میڈیا کو انٹرویو دے یا کسی شو میں شریک ہو تو چسکا لینے کے لیے یہ سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ '' پائین صدر بائیڈن دا فون ایا جے یا نئیں؟‘‘اور آگے سے وہ وزیر یا مشیر خاصی محنت سے جواب دینے کی کوشش کرے گا کہ بائیڈن کا فون نہیں آیا اور پھر اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے سنجیدہ منہ بنا کر کافی دیر تک میزبان اور قوم کو یہ سمجھائے گا کہ بائیڈن کے وزیر اعظم کو فون نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ جب وہ وزیر یا مشیر دیکھے گا کہ اس بات پر سب چسکے لے رہے ہیں اور مذاق بن رہا ہے تو پھر وہ بڑھک مارے گا کہ کون مرا جارہا ہے کال کے لیے۔
اب تک یہ سوال ملکی میڈیا تک محدود تھا لیکن اب لگتا ہے باقی دنیا بھی اس چھیڑخانی میں شریک ہوگئی ہے کہ اگر پاکستانی قوم‘ میڈیا اور سیاستدان اس پر چسکا لے رہے ہیں تو وہ کیوں پیچھے رہیں۔ اب کی دفعہ سی این این کی نمائندہ نے چھیڑ دیاکہ خان صاحب‘ جو بائیڈن آپ کو فون کال کیوں نہیں کررہا؟ وجہ وہی چسکا تھا یا چھیڑ خانی ورنہ سی این این سے زیادہ کس کو پتہ ہوگا کہ صدر بائیڈن نے پچھلے آٹھ ماہ میں دنیا کے دو تین درجن لیڈروں کو فون کیے ہیں لیکن اگر کسی کو فون نہیں کیا تو وہ پاکستانی وزیراعظم ہیں اور اگر نہیں کیا تو اس کی کیا وجہ ہے‘ لیکن وہی بات کہ ان سب نے اسے ہماری چھیڑ بنا دیا ہے کہ پا جی فون نئیں آیا؟ ساتھ ہی آنکھ ماردی اور میسنی سی ہنسی۔
جب عمران خان صاحب سی این این کی اینکر کو بڑی سنجیدگی سے صدر بائیڈن کی مجبوریاں گنوا رہے تھے کہ اب تک انہیں فون کیوں نہیں کرسکے تو مجھے خیال آیا کہ یہ وہ حشر ہے جو امیر رشتے دار اپنے غریب رشتے داروں کا کرتے ہیں اور وہ بے چارے اس طرح کے جواز ڈھونڈ کر اپنے محلے داروں کو مطمئن کررہے ہوتے ہیں۔ اگر امیر رشتے دار اپنے غریب رشتے دار کی بیٹی یا بیٹے کی شادی میں وعدے کے باوجود شریک نہ ہوں اور وہ بے چارے محلے میں اپنی ٹور بنانے سے محروم ہو جائیں تو یہ ایسے پھوکے دعوے کررہے ہوتے ہیں اور امیر رشتے داروں پر ناراض ہونے کے بجائے ان کی خود ساختہ مجبوریاں گنوانے لگ جاتے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا جواز یہی ہوتا ہے جو خان صاحب نے سی این این کی خاتون اینکر کو پیش کیا تھا کہ صدر بائیڈن مصروف ہوں گے۔ امیر رشتے دار کی مصروفیت بھی ہمیں اچھی لگتی ہے بلکہ اس سے بھی ہمیں رومانس ہے کہ ہمارا رشتے دار اتنا بڑا آدمی ہے کہ وہ ہر وقت رہتا ہی مصروف ہے‘ اتنا مصروف کہ وہ اپنے رشتے دار کی شادی کیلئے بھی وقت نہیں نکال سکتا۔
سوال یہ ہے کہ جو بائیڈن کتنے مصروف ہوں گے کہ خان صاحب سے فون پر بات کرنے کیلئے ان کے پاس پانچ منٹ بھی نہیں ہیں؟ کبھی کوئی انسان مصروف نہیں ہوتا‘ معاملہ صرف ترجیحات کا ہوتا ہے کہ آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں اور کس سے نہیں۔ اپنی پسند کے بندے سے ملنے کیلئے آپ ہر وقت فارغ ہیں جبکہ جو پسند نہیں اس کا فون بھی نہیں سنیں گے‘ ملنا تو دور کی بات ہے۔ پہلے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کوشش کی‘ پھر امریکہ میں پاکستانی سفیر نے اور پھر نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف نے کوششیں کرکے دیکھ لیں اور کسی حد تک وہ امریکہ سے اکھڑے اکھڑے بھی نظر آئے۔ سب نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر وہ ایک فون کال بھی امریکہ سے نہیں کرا سکتے تو پھر انہیں اس عہدے پر رکھا ہی کیوں گیا تھا؟ ان کو عہدے پر رکھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ تاثر دیتے تھے کہ ان کے امریکہ میں بڑے تعلقات ہیں اور وہ جب چاہیں کسی سے خود ملاقات کر سکتے ہیں اور کرا بھی سکتے ہیں۔ اس وقت معید یوسف نے اپنا پروفائل اس طرح بیچا اور پاکستانی قیادت نے خرید لیا۔ اب پتہ چلتا ہے ان کی امریکہ کی ایلیٹ محلے داری میں اتنی ہی چلتی ہے جتنی ہم سب کی چلتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں ناں کہ 'اللہ کسے نال کم ناں پاوے‘۔ جب تک کام نہیں پڑتا سب اچھے اور پیارے ہوتے ہیں۔ کام پڑنے کی دیر ہے سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اب معید کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ جب تک انہیں امریکنوں سے کام نہیں پڑا تھا اور بات محض گپ شپ‘ کافی یا ڈنر تک تھی تو امریکن بھی اچھے تھے اور کانگریس اور وہاں کے تھنک ٹینکس میں بھی نام تھا۔ کام پڑا تو لگا کہ اسے تو کوئی جانتا تک نہیں حالانکہ معید صاحب کو ان کی اپنی خودساختہ ریپوٹیشن پر پاکستان کا اہم ترین عہدہ دیا گیا۔ یوں ان کا پہلا امتحان لینے کا فیصلہ کیا گیا کہ صدر بائیڈن کی کال تو کرائو‘ مخالفوں کا دل تو ذرا جلائیں۔ یہی دیکھ لو ہمارے ہمسایے میں نریندر مودی کو تو بائیدن نے حلف اٹھانے کے دو ہفتے بعد فون کال ٹھوک دی تھی اور اپنا یہ حال ہے کہ آٹھ ماہ سے مس کر رہے ہیں۔
امریکہ سے جو بھی جواب ملا‘ وہ الگ مگر باہر نکل کر معید یوسف نے مزید اس کال کو اہم کر دیا اور وہاں سے یہ چھیڑ بننا شروع ہوگئی کہ اگر جو بائیڈن فون کال نہیں کرتے تو نہ کریں مرے ہم بھی نہیں جا رہے یا ہمارے پاس کال کے دوسرے طریقے ہیں‘ جس پر سوشل میڈیا پر ایک نیا مذاق بن گیا اور لوگوں نے مزاحیہ جملے بنا کر چسکا لینا شروع کر دیا۔ بعض نے کہا کہ دوسرے ذرائع سے مراد ہے اگر بائیڈن نے فون پر بات نہیں کرنی تو واٹس ایپ پر کر لیں اور اگر وہاں بھی کوئی مسئلہ ہے تو پھر فیس بک میسنجر پر ہی کر دیں۔ ہاں اگر فون میں بیلنس نہیں ہے تو مس کال ہی کردیں ہم خود فون کر لیں گے۔ کسی نے لکھا کہ لگتا ہے صدر بائیڈن کے فون کا بیلنس ختم ہوگیا ہے‘ انہیں کارڈ خرید کر بھجوا دیں تاکہ وہ فون کریں۔ یوں جتنے منہ اتنی باتیں اور یوں جو بات اندر کھاتے ایک فون کال سے شروع ہوئی تھی وہ اسی طرح جناب وزیراعظم کی چھیڑ بن گئی ہے جیسے ہمارے گائوں کے چاچا میرو کی بن گئی تھی۔
شروع میں تو چاچا میرو ہر ایک کو منع کرتا تھا کہ آتے جاتے اس کے کچے گھر کی چھت کے باہر گلی میں باہر نکلے شہتیر کی نکڑ کو ٹھوکر مت مارا کریں۔ ایک دن کسی نے چاچا میرو کی چھت کے شہتیر سے روڑا رگڑا تو چاچا میرو چڑ گیا اور اس بندے کو اندر سے آواز لگائی کہ مت کرو یہ۔ پہلے چاچا میرو اندر سے سبھی کو روکتا تھاکہ شہتیر کو مت چھیڑو‘ مت کرو‘ لیکن جب کوئی باز نہ آیا تو وہ گالیاں دینے لگ گیا۔ پھر حالت یہ ہو گئی کہ ابھی کسی نے شہتیر کو چھیڑا ہی نہیں ہوتا تھا اور محض گلی سے گزرتے لوگوں کے قدموں کی چاپ سن کر ہی چاچا میرو گالیاں دینے لگ جاتا اور پورے گائوں کے لڑکے اس کا چسکا لیتے تھے۔ نوجوان شہتیر کو چھیڑنے کے بجائے پائوں میں پہنی جوتی رگڑ کر چلتے تاکہ آواز پیدا ہو اور چاچا میرو گالیاں دے۔
جو بائیڈن کو مشورہ ہے سی این این کی چھیڑ خوانی کے بعد چھیڑ اب بڑھ گئی ہے‘ بہتر ہے بائیڈن پائین تسی گالیوں والی سٹیج آنے سے پہلے فون کر لو۔