ڈھاکہ سے تو دل فگار خبریں آہی رہی تھیں، متحدہ پاکستان کی لڑائی لڑنے والوں کو گردن زدنی قرار دیا ہی جا رہا تھا، نام نہاد عدالتی ٹریبونل کے ذریعے موت اورعمر قید کی سزائیں سنائی ہی جا رہی تھیں، 71ء کے واقعات کی من مانی تفصیل بیان کرتے ہوئے، من مانے ملزموں کے خلاف من مانی کارروائیوں کو انصاف کا نام دے کر انصاف کا مذاق اڑایا ہی جا رہا تھا کہ اسلام آباد سے بھی ایک ایسی خبر آئی، جس نے دل چھید ڈالا۔ یوں معلوم ہوا کہ کانوں میں کسی نے سیسہ پگھلا کر ڈال دیا یا آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیں۔ سینے میں خنجر گھونپ دیا ، یا سر پر کلہاڑا دے مارا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ارشاد فرمایا کہ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ اس کا ’’داخلی معاملہ‘‘ ہے۔ انّالِلّٰہِ و انّا الیہِ راجعون۔ اگر یہ منطق تسلیم کر لی جائے کہ کسی بھی ملک میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ صرف اس کا داخلی معاملہ ہوتا ہے تو پھر دنیا کی تاریخ دوبارہ لکھنا پڑے گی۔ اقوام متحدہ کا کردار از سر نو متعین کرنا پڑے گا۔ انسانیت کے نئے معیارات تلاش کرنا ہوں گے اور وزارت ہائے خارجہ کے جواز پر بھی نئے دلائل تراشنا پڑیں گے۔ ہماری وزارتِ خارجہ کی سربراہی آج کل جناب سرتاج عزیز کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے ایک عدد ’’جونیئر پارٹنر‘‘ طارق فاطمی بھی ان کے دائیں یا بائیں جلوہ افروز ہیں۔ یہ دونوں حضرات منجھے ہوئے اور تجربہ کار سفارت کار ہیں۔ انہوں نے ایک دنیا دیکھی ہے اور خارجی تعلقات کی نزاکتوں اور اُلجھنوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرم جہاں بھی سرزد ہوگا، یہ وہاں کا داخلی معاملہ نہیں ہوگا۔ کوئی شخص اگر یہ دعویٰ کرے کہ اسے اپنے ساتھ رہنے والے بھائی کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کھیلنے کا حق حاصل ہے اور وہ جو بھی کرے گا، یہ اُس کے گھر کا داخلی معاملہ ہوگا۔ کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑے گا۔ کوئی انصاف کی دہائی نہیں دے گا اور کوئی بربریت کے خاتمے کے لیے اقدام نہیں کرے گا، تو ایسے شخص کو انسانوں کی کسی بستی میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کا مقام پاگل خانہ ہوگا یا جیل خانہ۔ اگر کوئی شخص اس کی ہاں میں ہاں ملائے، اس کے ان اختیارات کی توثیق کرے، اس کے گھر سے اٹھنے والی آہ و بکا کی طرف کوئی دھیان نہ دے، اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر یہ اعلان کرے کہ خبردار! اس کا ہاتھ رُکنے نہ پائے، کوئی اس کی حرکتوں کی طرف محلے والوں کی توجہ مبذول نہ کرائے کہ یہ اس گھر کا داخلی معاملہ ہے تو ایسے شخص کے بھی دماغ کا معائنہ کرایا جائے گا۔ نتیجہ مثبت برآمد ہوا تو اسے شفاخانۂ امراضِ دماغی میں داخل کرا دیا جائے گا اور اگر یہ بقائمی ہوش و حواس پایا گیا تو پھر اسے اعانتِ مجرمانہ کا مرتکب سمجھا جائے گا کہ چور کا بھائی گرہ کٹ۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے جس افسر نے متحدہ پاکستان کے حامیوں پر توڑے جانے والے مظالم کو بنگلہ دیش کا داخلی معاملہ قرار دیا ہے، اس کی حیثیت بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ وہ یا تو دماغی صحت سے محروم ہے یا جاہل مطلق ہے۔ قانون اور انصاف کے آفاقی اصولوں پر اس کی نظر ہے، نہ اقوام متحدہ کا چارٹر اس کی نگاہ سے گزرا ہے۔ نہ وہ شرفِ انسانی کی حفاظت کے تقاضوں سے باخبر ہے‘ نہ پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ہے اور نہ اسے معلوم ہے کہ بنگلہ دیش کبھی پاکستان کا حصہ تھا۔14 اگست1947ء کو جب پاکستان نے دنیا کے نقشے پر جنم لیا تو مشرقی بنگال اس میں شامل تھا، جس کا نام بعد میں عوام کے منتخب نمائندوں نے مشرقی پاکستان رکھ دیا۔ یہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا، اس کی ایک اپنی کہانی ہے۔ اس میں جس کا جو جو بھی ہاتھ ہو، یہ بہرحال سو فی صد صحیح ہے کہ اس خطے کے عوام نے کبھی کسی ریفرنڈم یا انتخاب کے ذریعے پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جو کچھ ہوا اس میں ان کی آزادانہ مرضی شامل نہیں تھی۔ اس کی تخلیق بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ہی ممکن ہو سکی تھی۔ جب آبادی کا ایک حصہ بھارتی فوجوں کے ساتھ مل گیا تھا تو آبادی کا ایک حصہ پاکستانی فوجوں کے ساتھ مل کر اپنے وطن کا دفاع کر رہا تھا۔ اپنے پاکستانی ہونے کا حق ادا کر رہا تھا۔ اس دوران بہت کچھ ناگفتہ ہوا، لوٹ مار ہوئی، بداخلاقیاں ہوئیں‘ تجاوزات ہوئے‘ ہاتھ خون سے رنگے گئے۔ بدی کی طاقتوں نے بہت کچھ بدل دیا۔ کس نے پاگل پن میں کیا کچھ کیا اور کس کی گولی کس کو لگی۔ اس کی نشاندہی اس وقت بھی ممکن نہیں تھی، کجا یہ کہ آج بیالیس سال بعد اس کا سراغ لگایا جائے اور اپنے سیاسی مخالفوں کا مُنہ کالا کرنے کی سعی کی جائے۔ انہیں پھانسیاں دینے اور عمر بھر قید رکھنے کے منصوبے بنائے جائیں۔ یہ درست ہے کہ بھارتی منصوبہ کامیاب ہو گیا، مشرقی پاکستان کی حفاظت نہ کی جا سکی۔ لیکن دُنیا کا کوئی قانون اپنے وطن کی حفاظت کرنے والوں کو مجرم قرار نہیں دے سکتا، ان کے خلاف حرکت میں نہیں آ سکتا۔ پروفیسر غلام اعظم آج91سال کے ہیں، انہیں90سال کی قید سنا کر اور ان کے متعدد رفقا کو موت کا پھندا دکھا کر یا حبسِ دوام کی دھمکی دے کر واقعات کی ترتیب نہیں بدلی جا سکتی۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ پروفیسر غلام اعظم المیہ لمحات میں مشرقی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے، ان کی شہریت بنگلہ دیش حکومت نے منسوخ کی اور برسوں بعد وہ سر ہتھیلی پر رکھ کر واپس گئے اور سپریم کورٹ تک مقدمہ لڑ کر اسے بحال کرایا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ میں بیٹھے ہوئے کسی اہلکار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ تاریخ سے آنکھیں بند کر لے اور ان لوگوں کا ہم نوا بن جائے، جن کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمارے ہزاروں کیا، لاکھوں ہم وطنوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ گھر بار لٹایا تھا، آبرو کو داؤ پر لگایا تھا۔ وزارت خارجہ کے انچارج جناب سرتاج عزیز، ان کے رفیق جناب طارق فاطمی اور ان دونوں سے بڑھ کر وزیراعظم نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے افسروں اور اہلکاروں کو اپنی تاریخ سے روشناس کرائیں اور وہ کردار بھی ادا کریں جو تحریک پاکستان کے وارث کے طور پر اُن کو ادا کرنا چاہیے۔ ان کی آواز پوری طاقت سے بلند ہونی چاہیے‘ عالمی ضمیر کو متوجہ کرنے کے لیے اور بنگلہ دیش کی حکومت کو خبردار کرنے کے لیے، کہ اس نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ خود بنگلہ دیش کی تباہی کا راستہ ہے۔ تقسیم کی لکیریں گہری کرنے سے اور انتقام کے جذبے میں اندھے ہونے سے اور نسل پرستوں کے جرائم، وطن پرستوں کے سرمنڈھنے سے معاشروں کو توانا بنایا جا سکتا ہے نہ آگے بڑھایا جا سکتا ہے ؎ گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved