تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     17-09-2021

ڈاکٹر صفدر محمود کا سفرِ آخرت

لیجئے ڈاکٹر صفدر محمود بھی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں، ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز محنت سے شروع کروں یا اُن کی ان گنت نگارشات و تصانیف سے‘ اُن کی بے داغ دیانت سے شروع کروں یا اُن کی روحانیت سے آغاز کروں‘ پاکستان کیلئے اُن کی بے پناہ محبت سے ابتدا کروں یا پھر فقیر کیلئے اُن کی بے پایاں شفقت سے بسم اللہ کروں۔ ذکر جہاں سے بھی چھیڑوں گا بات اُن کی عظمت تک ہی پہنچے گی۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک ہمہ پہلو شخصیت تھے۔ وہ ایک نیک نام اور فرض شناس اعلیٰ افسر تھے جو فیڈرل سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ درجنوں کتابوں کے محض مصنف ہی نہیں بلکہ پتّہ مار کر سچائی کی تہہ تک پہنچنے والے محقق بھی تھے۔ انہوں نے تاریخ و سیاست کے علاوہ اپنے کالموں میں روحانیت پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتب کے غیرملکی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ سیاسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں زمانۂ طالب علمی سے ہی ڈاکٹر صاحب کا غائبانہ شاگرد تھا۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب بھی اخبار و ٹیلیویژن کے ذریعے اس طالب علم سے متعارف تھے؛ تاہم اُن سے حاضرانہ و نیازمندانہ تعلقِ خاطر دس بارہ سال قبل قائم ہوا تھا جب میں یونیورسٹی آف سرگودھا میں تدریسی و انتظامی فرائض انجام دے رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس وقت ہماری یونیورسٹی کے ممبر آف سنڈیکیٹ تھے۔ اُس وقت علم دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر تھے۔ ڈاکٹر چوہدری صاحب نے سنڈیکیٹ میں ڈاکٹر صفدر محمود جیسی نابغہ روزگار شخصیات کا گلدستہ سجا رکھا تھا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے یونیورسٹی آف سرگودھا کو عالمی معیار کی اعلیٰ یونیورسٹی بنانے کے لیے قابل قدر تجاویز دی تھیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے رشتۂ محبت مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ میں بھی گزشتہ پانچ چھ برس سے مستقلاً لاہور آچکا ہوں لہٰذا ڈاکٹر صاحب سے اکثر فون پر اور گاہے اُن کے دولت کدے پر اور کبھی کبھار جمخانہ میں بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کی علم دوستی، خوئے دل نوازی اور حس مزاح کو قریب سے دیکھنے اور اُن سے فیضیاب ہونے کے مواقع ملتے رہے۔ میں فون پر کہتا کہ حُسین احمد بول رہا ہوں تو وہ بکمال شفقت مسکراتے ہوئے تصحیح فرماتے یوں کہیے کہ حَسین احمد بول رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بالعموم شخصیات کے بارے میں گفتگو سے اجتناب فرماتے مگر کبھی کبھی خیالات و واقعات کے ذکر کے ساتھ ساتھ شخصیات کا تذکرہ بھی آجاتا۔ ایک مرتبہ بتانے لگے کہ جنرل ضیاء الحق کی آمد کے بعد یار لوگوں نے میرے ''روکھے پن‘‘ کے حوالے سے جنرل صاحب کے کان بھرے لہٰذا مجھے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا: میں نے اس جبری فرصت کو نعمت غیرمترقبہ سمجھا اور کتابوں کی دنیا میں مگن ہوگیا۔ اس دوران جنرل صاحب نے جب اپنے ذرائع سے میرے بارے میں معلوم کیا تو انہیں میری ''اصلیت‘‘ کا کچھ علم ہوگیا۔ جنرل صاحب کو میری پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے الفت و محبت کے بارے میں بھی کچھ اندازہ ہوگیا تھا‘ لہٰذا ان معلومات کے بعد جنرل صاحب کی مغایرت میرے ساتھ التفات میں بدل گئی۔ میاں نواز شریف کی پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کے دوران ڈاکٹر صفدر محمود یہاں سیکرٹری اطلاعات تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار میاں نواز شریف صلاح مشورے کیلئے اطلاع دے کر میرے غریب خانے پر بھی تشریف لے آیا کرتے تھے۔ باتوں باتوں میں مجھے معلوم ہوا کہ قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری مرحوم، نوائے وقت کے ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم اور مرزا منور مرحوم کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے بے تکلف دوستانہ مراسم تھے۔
پاکستان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کی چھ انگریزی تصانیف کے علاوہ مشہور اردو کتب میں پاکستان تاریخ و سیاست، پاکستان کیوں ٹوٹا، اقبال جناح اور پاکستان، پاکستان‘ میری محبت کے علاوہ درد آگہی اور بصیرت وغیرہ بہت مشہور ہیں‘ تاہم اُن کے آخری دور میں شائع شدہ ایک کتاب ''سچ تو یہ ہے!‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے تاریخ پاکستان کے حقائق مسخ کرنے والوں کو تاریخی شواہد کی بنا پر مدلل جواب دیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود جہاں کہیں کسی دانشور کو تحریک پاکستان کے حوالے سے کوئی بہتان طرازی یا الزام تراشی کرتے دیکھتے تو تڑپ اٹھتے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے قیام پاکستان کو انگریزوں کی خواہش قرار دیتے ہوئے یہ لکھا کہ 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور کو وائسرائے ہند کی ہدایت پر سر ظفراللہ خان نے ڈرافٹ کیا اور مسلم لیگ نے اسے من و عن قبول کرلیا۔ ڈاکٹر مبارک کا سارا سورس آف انفارمیشن ولی خان کی کتاب ہے جبکہ پروفیسر وارث میر کے ساتھ ایک انٹرویو میں ولی خان نے اعتراف کیا تھا کہ اس حوالے سے اُن کی معلومات و تحقیق ابھی ادھوری ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول ڈاکٹر مبارک نے نہ تو قائداعظم کے بارے میں ثقہ عالمی و پاکستانی مصنفین کی کوئی کتاب پڑھی اور نہ ہی قائداعظم کی تقاریر کا مطالعہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے لکھا ہے کہ قراردادِ پاکستان کے حوالے سے 25 دسمبر 1981ء کے ڈان میں سر ظفراللہ خان نے اسکی تردید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: نہ جانے ولی خان مجھے اس کارنامے کا کریڈٹ کیوں دے رہے ہیں جس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے پوری تحقیق سے ''سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا تھا کہ قائداعظم نے تقسیم سے پہلے 101 بار اور قیام پاکستان کے بعد 14 بار پاکستان کو اسلامی جمہوری ریاست قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود 11 اگست 1947ء کی تقریر کو بعض سیکولر دانشور توڑ مروڑ کر یہ ثابت کرنیکی کوشش کرتے ہیں کہ قائد اسلامی جمہوری نہیں سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔ اسی تراشیدہ کنفیوژن کے ازالے کیلئے قائداعظم نے 25 جنوری 1948ء کو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر کہا تھا ''وہ شرارتی عناصر ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ اسلامی قوانین آج بھی ہماری زندگی پر اسی طرح لاگو ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے‘‘۔
ڈاکٹر صفدر محمود اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کے مخالفین کے خلاف شمشیر برہنہ تھے مگر ایک ایسی شمشیر‘ جو ہر بات تحقیق کے ترازو میں تول کر فضا میں بلند کرتی تھی۔ میں رسمی طور پر نہیں، انتہائی دیانتداری اور ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ محافظ نظریۂ پاکستان کے رخصت ہونے کے بعد مجھے دور دور تک دانش گاہوں، درس گاہوں، تھنک ٹینکوں اور دینی وسیاسی جماعتوں میں کوئی ایسا سینئر یا جونیئر محقق دانشور دکھائی نہیں دیتا جو جھوٹ کی بنیاد پر تشکیک کے کانٹے پھیلانے والوں کا دلیل کے زور پر ابطال کر سکے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب بصیرت پڑھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ وہ باقاعدہ بیعت شدہ پابند شریعت صوفی بزرگ تھے۔ یہ متصوفانہ تحریریں سیدھی آپ کے درِ دل پر دستک دیتی ہیں۔ اسی کتاب کے صفحہ82 پر تحریر فرماتے ہیں:
آج میری طبیعت ڈھیلی تھی تو حضرت بلھے شاہ کا کلام سننے کو جی چاہا۔ آپ اسے بیٹری چارج کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ اسے مادی علوم سے چارج کریں یا کتابِ عشق کا ورقہ کھول کر چارج کریں۔ حضرت بلھے شاہ جیسے ولی کامل نے درج ذیل شعر میں جو بات کہی وہ ''ایویں‘‘ (یونہی) نہیں کہی۔
ہیرے دا کوئی مُل نہ جانے، کھوٹے سکے چلدے ویکھے
اودہی رحمت دے نال بندے، پانی اُتے چلدے ویکھے
یہ ہشت پہلو ہیرا عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے توشۂ آخرت کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا ہے۔ اللہ اُن کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved