تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     17-09-2021

حکومت اور الیکشن کمیشن تصادم سے گریز کریں!

الیکشن کمیشن نے وزرا کی جانب سے آگ لگانے کی دھمکی‘ رشوت اور جانبداری کے الزامات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فواد چودھری اور اعظم سواتی کے خلاف کارروائی کا آغاز کرکے دونوں وفاقی وزرا کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے وزرا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان الزامات کے ثبوت طلب کر لیے ہیں اور 14 روز میں تحریری جواب مانگا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر‘ اور سپیشل سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایوانِ صدر‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور پریس بریفنگ کا تمام ریکارڈ بھی طلب کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے نوٹس کے حوالے سے فواد چودھری نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے مزید الزام لگایا کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے آلہ کار ہیں اور یہ کہ ان کا نواز شریف سے قریبی تعلق ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اپنا کام اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کرنا ہے‘ نیز یہ کہ الیکشن کمیشن کا نوٹس ملنے کے بعد تفصیلی جواب دیں گے۔ فواد چودھری نے اپنے انداز میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن مکمل نہیں‘ دیکھیں گے کہ نوٹس دے بھی سکتا ہے یا نہیں۔ فواد چودھری صاحب کا یہ مؤقف اور الیکشن پر الزامات کی بھرمار ان کی اپنی رائے نہیں ہو سکتی‘ اس رائے کو کابینہ اور وفاقی حکومت کا سرکاری مؤقف ماننا چاہیے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن کو کابینہ کے سیکرٹری کے ذریعے اس معاملے میں وزیر اعظم کا مؤقف جاننے کیلئے ان کو بھی نوٹس میں شامل کرنا پڑے گا اور کابینہ کی کارروائی کو بھی نوٹس کا حصہ بنانا ہو گا۔
معاملات جس سمت آگے بڑھ رہے ہیں اس میں حکومت اور الیکشن کمیشن کے تنازع سے ملکی نظامِ انتخاب کی بساط لپیٹے جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے تاہم میرا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے آگے تک جائے گا اور وفاقی وزرا اگر الزامات کو ثابت نہ کر سکے تو الیکشن کمیشن چاہے تو آئین کے آرٹیکل 62‘63(1)الف‘ آئین کے آرٹیکل 204 اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 10 کے تحت ان وزرا کو نااہل کرسکتا ہے۔ ان وفاقی وزرا نے الیکشن کمیشن کی خود مختاری‘ غیر جانبداری‘ ساکھ اور الیکشن کمیشن کے آئینی اختیار کو چیلنج کیا ہے۔ اب اگر الیکشن کمشنر اپنے ادارے کی ساکھ کو بچانے میں ناکام رہے تو آئندہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کو بطور ادارہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور پولنگ سٹیشنوں پر آئینی اختیارات کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔ اس طرح بیوروکریسی حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو جائے گی اور الیکشن کمیشن کے تمام انتظامات کا سٹرکچر زمین بوس ہو جائے گا۔ اسی طرح 2023ء کے قومی انتخابات میں سات مارچ 1977ء کی تاریخ دہرائے جانے کا بھی اندیشہ ہے۔
الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی جنگ آئین اور قانون کی روشنی میں لڑنے کے لیے گرائونڈ ورک مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اس معاملے میں گمان یہ ہے کہ اپوزیشن الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین تصادم میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے بجائے ساحل پر کھڑے ہوکر تماشا دیکھے گی۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ فوری طور پر اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کرنے کے حوالے سے نوٹس بھجوائے۔ آئینی ادارے کے تحفظ کے لیے اٹارنی جنرل نے وہی کردار ادا کرنا ہوگا جیسے وہ سپریم کورٹ کی معاونت کرتے ہیں کیونکہ اٹارنی جنرل ریاست کے نمائندہ ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ حکومت مخصوص حکمت عملی کے تحت الیکشن کمیشن کو دبائو میں رکھنے کے لیے وزرا کے ذریعے حملے کروا رہی ہے‘ مگر ان وزرا کو ماضی کی محاذ آرائی کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔ آئینی ادارے سے تصادم کی پالیسی بے نظیر بھٹو نے کبھی بھی نہیں اپنائی مگر نوازشریف‘ جو اپنے مخصوص حامیوں کے نرغے میں گھرے رہے‘ کی محاذ آرائی کا نتیجہ 12اکتوبر 1999ء کی صورت میں سامنے آیا۔
جہاں تک الیکشن کمیشن کے مکمل ہونے کی بات ہے تو یہ آئینی لحاظ سے مکمل ہے‘ دو ارکان کا تقرر نہ ہونے کے باوجود آئینی ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن فعال ہے۔ فواد چودھری کو چاہیے کہ آئین کی18ویں سے 24ویں ترامیم تک کا مطالعہ کریں۔ جب الیکشن کمیشن نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کنٹونمنٹ بورڈ کے 42 حلقوں میں کروائے تو یہ الیکشن کمیشن کے مکمل ہونے ہی کی علامت ہے۔ وزرا کے بیانات سے ایک بات طے ہے کہ سیاسی بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ وزیر اعظم ہر صورت الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے چاہتے ہیں اور ساتھ ہی بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت دینے کے بھی خواہاں ہیں مگر جو طریقہ ان کی حکومت اور ان کی جماعت اختیار کرنے جا رہی ہے اس سے 1977ء جیسا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے طریقہ کار کو شفا ف الیکشن کرانے کے حوالے سے منفی قرار دے کر اس کی اونرشپ قبول نہیں کی جبکہ عوام کو مقامی حکومت سے محروم نہ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات جلد کروانے کا حکم جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اب چند ہفتوں میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہوتا ہے تو چاروں صوبوں میں سیاسی ہلچل شروع ہو جائے گی۔ حکومت ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے گریز کرے گی جبکہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں اپنے داخل کیے ہوئے جواب کے مطابق بلدیاتی انتخابات کروانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں مزید تاخیر ہر گز نہیں کرنی چاہیے اور بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردینا چاہیے۔ اس معاملے میں عوام کو جمہوری حق سے مزید محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔
ملک بھر کے 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 212 وارڈز کے نتائج کا غیرجانبدارانہ طریقے سے تجزیہ کیا جائے تو ان الیکشنز نے تحریک انصاف کے لیے آئندہ انتخابا ت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگرچہ بحیثیتِ مجموعی تحریک انصاف ہی پہلے نمبر پر آئی ہے‘ لیکن اس کی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکمران جماعت سے صرف تین سیٹیں کم ہیں جبکہ پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی مکمل طورپر آئوٹ ہوگئی ہے۔ وزیراعظم کو کنٹونمنٹ کے انتخابات میں آزاد امیدواروں کے سہارے سے غلط حقائق پر بریفنگ دی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے حکمران جماعت سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ وزیرِ اعظم اپنے ماضی کے وعدے کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز انتخابات کے آزاد امیدواروں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے سے گریز کریں کیونکہ آزاد امیدواروں کی حیرت انگیز کامیابی سے یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ عوام نے حکمران جماعت پر عدم اعتماد کیا ہے۔ ووٹرز نے اپنی نمائندگی کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کا کسی پارٹی سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا؛ اگرچہ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج قومی انتخابات سے مطابقت نہیں رکھتے مگر ووٹروں کے عمومی رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ ووٹرز کے اعتبار سے ان کی پوزیشن کیا ہے۔ انہیں اپنے اپنے منشور اور پالیسیوں کو عوامی خواہشات کا ترجمان بنانے کے لیے مزید اپنے ارد گرد کے ترجمانوں کی کارکردگی دیکھنی ہوگی۔ شفاف الیکشن کروانے کا سہرا الیکشن کمیشن کو اور کنٹونمنٹ بورڈ کی انتظامیہ کو جاتا ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے ان انتخابات سے لاتعلقی کا مظاہرہ کیا۔ کنٹونمنٹ کے انتخابات کی مہم کے دنوں میں حکومتی ارکان اسمبلی حکومت اور پارٹی کے بارے میں عوام میں سیاسی مہم چلانے کے بجائے ٹاک شوز میں شرکت کرتے دکھائی دیتے رہے۔ وزیر اعظم کو لوکل گورنمنٹ کے انتخابات اور آئندہ انتخابات کیلئے اپنی موجودہ ٹیم کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اس وقت ملک کی مجموعی صورتحال کا یہ تقاضا ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن کو تصادم سے گریز کی پالیسی اختیار کرکے ایسا مفاہمانہ راستہ اپنانا چاہیے جس سے ملکی اداروں اور جمہوریت کا نقصان نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved