تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     17-09-2021

ہے کس کے لیے موت مشینوں کی حکومت؟

چند سال سے جو سٹوڈنٹس پاکستان سے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے چین، یورپ، امریکہ یا کینیڈا جاتے ہیں، وہ لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون کے بغیر تعلیم کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں اچھا لگے یا بُرا، اس وقت ہمارے گلوبل ولیج میں ''تعلیم کا ماسٹر ٹرینر‘‘ کوئی اور نہیں، بلکہ مشین ہے۔
Covid-19 کی وبا پھیلنے کے بعد سے پاکستان میں وِڈیو لِنک کے ذریعے جہاں جہاں طالب علم ہیں، ہر اُس گھر میں کلاس روم بن چکا ہے۔ نئے تعلیمی سال کے آغاز میں بچوں کو ایک ہفتے میں صرف دو دن سکول بلایا گیا، تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ ٹیچر اصل میں امّی ابّا جیسا انسان ہے اور سکول کوئی وَرچوئل سیٹ نہیں جو صرف سکرین پر نظر آتا ہے، بلکہ یہ زمین پر واقع حقیقی بلڈنگ میں درس گاہ ہوتی ہے۔ اب جس قدر کتابیں، لائبریریاں، بُک بینک اور معلومات کا ذخیرہ صرف انٹرنیٹ پر موجود ہے، وہ چند عشرے پہلے والی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی لائبریری میں بھی ایک جگہ نہیں سما سکتا۔
اِن دنوں گھر میں سال دو سال کا بچہ بھی سمارٹ فون سے اپنی دلچسپی کی چیزوں تک پہنچنے کے قابل ہوچکا ہے۔ اب گھر میں نینی کا کام ''Tabbi‘‘ نامی الیکٹرانک مشین کرتی ہے۔ تعلیمی اداروں اور امتحان گاہوں میں اِدھر کسی نے سوال پوچھا اُدھر پوری کلاس گوگل سرچ، وکی پیڈیا، یوٹیوب، کیورا، ریڈِٹ وغیرہ پہ جواب تلاش کرنے میں لگ گئی۔ مولوی، پیر، تعویذ گنڈا، روحانی معالج، جنّات اور پریوں کے مالکان اور پروموٹرز، آرگینک کھانا پکانے والی ماسیاں، لہسن، دھنیا، چٹنی کے ذریعے سارے خفیہ اور پیچیدہ زنانہ اور مردانہ امراض کا علاج بتانے والے۔ گہری نیند سونے کے طریقے بتانے والے، ایک دن میں 37 کلوگرام وزن کم کروانے والے، ستاروں کی چال اور استخارے کا حال بتانے والے‘ سیاسی ٹرالنگ اور ٹرینڈ بنانے والے‘ رینٹ اے کرائوڈ کی طرح، رینٹ اے فالووَر دِلوانے والے، سارے کے سارے مشین پر آچکے ہیں۔ جی ہاں آپ درست سمجھے! یہ سب الیکٹرانک مشین ہی تو ہے۔
شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال ؒ کے زمانے میں مشینوں کی حکومت دل کیلئے موت ہوا کرتی تھی۔ آج سارے دلبر اور تمام تر دلداریاں الیکٹرانک مشین پر پائی جاتی ہیں بلکہ اب تو کسی کا ٹیلی فون نمبر، کسی کے لیے بھی یاد رکھنا ممکن نہیں رہا۔ نام کے ساتھ سیو کئے ہوئے نمبر اگر سکرین سے غائب ہو جائیں، تو گھر اور اہلِ خانہ کا نمبر بھی شاید ہی کسی کو دستیاب ہوگا۔ انسان کی تاریخ میں پچھلے کروڑوں سالوں میں اتنی بڑی تبدیلی پہلے کبھی نہیں آئی تھی، جتنی پچھلے صرف تین عشروں کے مختصر ترین عرصے میں مشین لے کر آئی ہے۔ اس کا ثبوت ڈھونڈنے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، وٹس ایپ، فیس بُک، ٹویٹر، اِنسٹاگرام، ٹِک ٹاک، فیس ٹائم، سنیپ چیٹ، سکائپ، لِنکٹڈ اِن، زُوم، ریڈِٹ، سیلفی، وائس میل، وی لاگ، سب اِنہی 30 سالوں کے تحفے ہیں۔ اِن ساری الیکٹرانک مشینوں کی موجودگی میں پاکستان کے اندر اِن کے یوزَر کچھ شعبوں میں مشین کے استعمال کو اپنے مفادات کی صحت کیلئے موت سمجھتے ہیں۔ آئیے وطنی زندگی میں نمونے کے طور پر چند بڑے شعبوں کے دروازے کا ایک کواڑ کھول کر اندر جھانک لیں۔
پہلا دروازہ: یہ ہے انصاف کا مندر۔ عدلِ جہانگیری کی سنہری زنجیر یہیں پر لٹکائی گئی تھی۔ جس کے بارے میں کسی باغی سوالی نے کیا خوب کہا...
ہم کو شاہوں کی عدالت سے توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
پچھلے 70سالوں میں عدالت اور وکالت کی دنیا میں لاء ریفارمز کے بارے میں ہر روز گفتگو ہوتی ہے۔ ایکسیس ٹُو جسٹس کے نام پہ سیمینار برپا ہوتے ہیں۔ رُول آف لاء کے ٹائٹل کے ساتھ مناظرے اور مباحثے چل رہے ہیں۔ کرمنل جسٹس سسٹم اور لیگل سسٹم میں اصلاح کیلئے درجنوں نہیں، سینکڑوں جوڈیشل ججمنٹس آچکی ہیں‘ جن میں عدالتی، وکالتی اور پولیس ریفارمز، سستا اور فوری انصاف عام آدمی کے دروازے تک پہنچانے کی ضرورت پہ زور دیا گیا۔ مغرب کے جن انصاف پسند معاشروں کی ہم ہر روز مثال دیتے ہیں، وہاں فائل غائب ہو چکی ہے۔ عدالتی نظام پراسیکیوشن سے دلائل تک، گواہی سے جرح تک سب کچھ ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کوئی موشن، پٹیشن، اپیل، لاء سُوٹ فائل کرنے کے لیے لمبے روایتی اخراجات ختم ہوچکے ہیں۔ اِدھر کیس سنا گیا، اُدھر فیصلہ سنا دیا گیا۔ اس ڈیجیٹل دنیا میں اب ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ فیصلہ ڈیڑھ دو سال محفوظ رہے، یا اپیل ملزم کے پھانسی پر لٹکائے جانے کے بعد سُنی جائے۔ سسٹم ڈیجیٹلائز ہو تو ہر طرح کے مقدمات کے دو ترجیحات پر فیصلے ہو سکتے ہیں۔ پہلی ترجیح اَرجنسی، جبکہ دوسری ترجیح فائلنگ میں سنیارٹی‘ یعنی جتنی پرانی کیس فائل ہو اُسے اتنا ہی پہلے نمٹانا ہوگا۔
دوسرا دروازہ مرض‘ تشخیص، علاج اور مسیحائی کی دنیا میں کھلتا ہے۔ اس شعبے میں قانون کی طرح ہر ریفارم کے خلاف جلوس نکلتا ہے۔ رِدھم پر شاعرانہ نغمگی کے ساتھ نعرے بازی ہوتی ہے اور ایمرجنسی وارڈ کا دروازہ بند۔ نیا ٹیسٹ سسٹم‘ امتحانی طریقہ کار، بڑے ڈاکٹروں کو سرکاری ہسپتال میں وقت پر آن ڈیوٹی بٹھانے کی ساری ترکیبیں، 100 سال پرانے انتظامی سٹرکچر کو دنیا کے ہیلتھ سسٹم کے مقابلے میں لانے کی ہر کوشش۔ پاکستان کی ایم بی بی ایس کی ڈگری کو انٹرنیشنل لیول پر ایکریڈیٹنگ کروانے کی سعی۔ پیرامیڈکس اور کلیریکل سٹاف کے آنے جانے کے ٹائمنگز‘ بائیو میٹرک پر لانے اور لابی کے بجائے اہلیت اور پرفارمنس کی بنیاد پر ترقیاں‘ سرکاری ہسپتالوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں کے ہم پلّہ بنانے کے مریضانہ خواب، مرضِ لادوا بن چکے ہیں۔ ہیلتھ سیکٹر میں اصلاحات کے راستے میں روڈ بلاک کون ہے؟ تیسرا دروازہ: 7دسمبر 1970 والے یحییٰ خان کے الیکشن سے لے کر آج تک ہر قومی، صوبائی اور ضمنی انتخاب، ایک ہی ادارہ ایک ہی طریقے سے کرواتا چلا آیا ہے‘ جس پر ہارنے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ایک ہی ردِعمل دیا۔ یہی کہ اِس الیکشن میں دھاندلی نہیں دھاندلہ ہوا ہے، ووٹ ڈالنے والے ہار گئے، ووٹ گننے والے جیت گئے۔ یہ آر اوز کا الیکشن تھا، نئے الیکشن کروائے جائیں، ہم سلیکشن کو نہیں مانتے۔ اسی بنیاد پر جلسے، نعرے، احتجاج، مظاہرے، ماردھاڑ، جلوس، دھرنے، ریلیاں، لانگ مارچ، ملین مارچ، ہر الیکشن کے بعد پُختہ قومی سیاسی منظرنامہ بن چکا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 218 ریگولیٹر کو کمانڈ دیتا ہے کہ وہ فری، فیئر اور ٹرانسپیرنٹ الیکشن قانون کے عین مطابق، آرگنائز اور کنڈَکٹ کروائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ صاحب نے صرف دو دن پہلے ای وی ایم کے قضیے پر رِٹ پٹیشن نمبری3233 آف 2021 میں، پیراگراف نمبر3 میں یہ فیصلہ دیا:
"It is noted that the use of the electronic voting machines during elections is not an alien phenomenon because it has already been introduced in some other countries."
آج ہر گھر میں کپڑے دھونے والی الیکٹرک مشین، مسالا پیسنے والی، قیمہ بنانے والی، آٹا گوندھنے والی، بیڈ روم سے گرد جھاڑنے والی، فرش دھو کر صاف کرنے والی، جوس بنانے والی، ساری دنیا کے سارے ٹی وی شوز، فلمیں دکھانے والی اور نہ جانے کون کون سی مشینیں موجود ہیں۔ اب تو مالشیے کی جگہ بھی الیکٹرانک مساج کرسی، الیکٹرانک لہریں پیدا کرنے والا وائبریٹر بیڈ اور واٹر بیڈ بھی پرانا ہو چکا ہے۔
ایسے میں ای وی ایم کے خلاف لگایا گیا 'سٹیٹس کو‘ کا مورچہ صرف ایک سوال کا جواب نہیں دے پا رہا۔ ہے کس کیلئے موت مشینوں کی حکومت؟؟ دھاندلی کرنے والوں، اُن کے سہولت کاروں یا ایلفی کے لیے...۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved