تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     17-09-2021

21جوڑے

اگر آج ارسطو حیات ہوتا تو 'المیہ‘ کی تعریف میں رد و بدل عین ممکن تھا۔ وہ اس دور میں مروجہ رسومات کو دیکھ کر المیہ کی تعریف کچھ یوں کرتا: ''ایک انسان کا جذبات سے عاری ہو کر دوسرے انسان کے متعلق سوچنا المیہ ہے‘‘ یا اس کے لفظ ہوتے ''معاشرتی المیہ انسانی خود غرضی سے جنم لیتا ہے‘‘۔ اگر ہم معاشرے اور معاشرتی رسوم و رواج کا عمیق مشاہدہ کریں تو علم ہو گا کہ ہم نے بذاتِ خود معاشرے کو کچھ ایسی روایات میں جکڑ رکھا ہے جو ہمارے لیے وبال بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان سے انحراف کو تیار نہیں۔ جہیز بھی ایسی ہی ایک لعنت ہے جس نے معاشرے میں شادی جیسے بنیادی اور فطری عمل کو انتہائی پیچیدہ اور مشکل بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس رسم کو بقا دینے میں لڑکے کا خاندان‘ بالخصوص لڑکے کی ماں سرفہرست ہے۔ لڑکے کی ماں مختلف گھروں میں جا کر اپنے بیٹے کا دام لگاتی ہے کہ کوئی ہے جو منہ مانگے جہیز، زمین اور بینک بیلنس کے بدلے اس کا بیٹا خرید لے اور پھر جہاں سب سے زیادہ جہیز ملنے کی امید ہو یا جس لڑکی کا تعلق دولت مند خاندان سے ہو‘ وہاں بات پکی کر دی جاتی ہے۔ لڑکے والے تو شادی کی تاریخ طے کر کے چلے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد لڑکی کے گھر والوں کی پریشانی کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں کئی دردناک مناظر نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ کچھ روز قبل میں فیملی کے ساتھ کپڑوں کی خریداری کیلئے ایک شاپنگ مال میں موجود تھا۔ ایک بچی‘ جس کی عمر بیس‘ بائیس سال ہو گی‘ اپنے والدین کے ہمراہ مال میں داخل ہوئی۔ میری نظر بچی کے ساتھ آنے والے بزرگ پر پڑی جن کے پیروں میں خستہ حال چپل ان کی زبوں حالی کا پتا دے رہی تھی۔ جس طرح ہمارے ہاں اکثر بزرگوں کو بہ آوازِ بلند بات کرنے کی عادت ہوتی ہے‘ اسی طرح وہ بزرگ مال میں داخل ہوتے ہیں اونچی آواز میں گفتگو کرنے لگے ''پتری ایتھے شیواں بہت مہنگیاں نیں‘ اسی پورے 21 جوڑے لینے نے اجے‘‘ (بیٹا یہاں چیزیں بہت مہنگی ہیں۔ ابھی تو ہم نے اکیس جوڑے خریدنے ہیں)۔ اس گفتگو سے اندازہ ہوا کہ ہو نہ ہو‘ یہ جہیز کی خریداری کیلئے آئے ہیں کیونکہ اکیس جوڑوں والی رسم ہمارے ہاں جہیز کیلئے مخصوص ہے۔ لڑکی کی ماں بضد تھی کہ ہم بیٹی کیلئے اسی مال سے خریداری کریں گے۔ اسی دوران بچی نے سامنے لگے کچھ جوڑوں کو غور سے دیکھا اور پھر منتخب شدہ جوڑے پر لگے پرائس ٹیگ کو غور سے دیکھ کر ایسے تاثرات دینے لگی جیسے اسے کچھ پسند نہیں آ رہا، کچھ دیر بعد وہ خاندان مجھے گہری سوچ میں ڈوبا چھوڑ کر بغیر کچھ خریدے شاپنگ مال سے باہر نکل گیا۔
ہم بچپن سے ایک جملہ لکھتے‘ پڑھتے‘ بولتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک سوچ جنم لیتی ہے کہ ''بیٹی پرایا دھن ہے‘‘، جیسے جیسے بیٹی کی عمر بڑھتی ہے‘ یہ سوچ بھی جوان ہوتی جاتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ اکثر خواتین جب خریداری کے لیے گھر سے نکلیں تو کچھ نہ کچھ ایسا ضرور خرید لاتی ہیں جو بیٹی کو جہیز میں دیا جا سکے۔ کبھی پتیلوں کا سیٹ تو کبھی کوئی ڈنر سیٹ، کبھی کمبل تو کبھی کام والا جوڑا۔
جہیز کے مروجہ اصول بھی عجیب و غریب ہیں۔ کم سے کم 21 جوڑوں کا ہونا لازم ہے اور کپڑوں سے میچنگ جوتے بھی لازمی قرار دیے جاتے ہیں۔ چھ کمبل، چھ رضائیاں‘ کم سے کم اور اگر ناک اونچی رکھنی ہے تو یہ تعداد اٹھارہ تک جا پہنچتی ہے۔ علاوہ ازیں گدّے، کھیس، دریاں، تکیے، بیڈ شیٹس اور نجانے کیا کیا۔ برتنوں کی تو ایک طویل فہرست ہے‘ پتھر کا سیٹ، شیشے کا سیٹ، چائنا بون کا سیٹ، مختلف طرح کے مگ، ٹی سیٹ، گلاس سیٹ‘ پھر الیکٹرانکس اشیا‘ جن میں فریج، اوون، واشنگ مشین، اے سی اور LED سے لے کر سوئچ بورڈ اور کیبل تک تمام چیزیں جہیز میں دینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بات کریں فرنیچر کی تو اس کی تفصیل کیلئے جگہ کم پڑ جائے گی۔ شادی بیاہ کے موقع پر لڑکے والوں کے پروٹوکولز الگ ہی ہوتے ہیں۔ لڑکے کے گھر والوں کیلئے بہترین جوڑے اور ساس کیلئے سونے کی انگوٹھی یا جھمکے نہ ہوں تو شروع کے چار دن جو دلہن کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں‘ سسرال والے وہ بھی نہیں اٹھاتے اور ہر دوسری بات کے ساتھ بیچاری لڑکی کو طعنے دے کر بے حال کر دیا جاتا ہے۔ وہی ساس‘ جو بہو کو کم جہیز لانے پر طعنوں مارتی ہے‘ جب اپنی بیٹی کی شادی کی باری آئے تو اس کے سسرال کی طرف سے ایسے سلوک پر احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ یہ ہمارا مجموعی رویہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی نظر آتی ہے، ظلم صرف وہ ہے جو ہم پر کیا جائے جبکہ دوسروں کے ساتھ جو سلوک ہم کرتے ہیں‘ انہیں رسم و رواج کا نام دے کر ہم بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی پر سسرال کی طرف سے زیادہ پابندیاں نہ ہوں، اسے میکے آنے جانے کی مکمل آزادی ہو اور سسرال کی طرف سے اس کے معاملات میں دخل اندازی بالکل نہ ہو مگر وہی ماں اپنی بہو کیلئے ایک بالکل مختلف سوچ رکھتی ہے۔ بہو کا فرض ہے کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے معاملات کیلئے ساس سے مشورہ کرے‘ ساس کا ہر حکم فرض سمجھ کے بجا لائے حتیٰ کہ پہننے‘ اوڑھنے کیلئے بھی ساس سے مشاورت لازمی کرے۔ یہی حال بہو کی طرف سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ لڑکی چاہتی ہے کہ جب وہ میکے سے سسرال جائے تو بھابھیاں اسے مکمل پروٹوکول دے کر اس کے آگے پیچھے پھریں‘ اس کے بچوں کے ناز نخرے اٹھائے جائیں اور میکے والے اس کی آئو بھگت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں مگر وہی لڑکی سسرال میں خاوند کی بہنوں کو دردِ سر سمجھتی ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ نندوں کی آمد پر سر منہ لپیٹ کر سو رہے۔ اگر اس کے بچے میکے جا کر اُدھم مچائیں تو وہ امید رکھتی ہے کہ بھابھی اف تک نہ کہے بلکہ یہ کہہ کر بات ختم کر دے کہ کھیلنے دیجئے‘ بچے ہی تو ہیں‘‘ لیکن جب معاملہ نند کے بچوں کا ہو تو ماں کو فون کر کے بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ ''نند کے فلاں بچے نے میرے جہیز کی فلاں شے خراب کی تو میں نے بھی اس کے رخسار پر انگلیاں چھاپ دیں‘‘۔ یہ وہ رویے ہیں جو ہم نے خود تشکیل دے کر اپنے لیے زندگی کو مشکل بنا لیا ہے۔ عجب دور ہے کہ محض شادی کی تیاری کیلئے تین‘ تین سال کا وقت لیا جاتا ہے۔ لڑکی کے والدین کے یہ تین سال کس اذیت میں گزرتے ہیں‘ کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ لڑکی کی ماں کمیٹیاں ڈال کر فرنیچر اور برتن خریدتی ہے جبکہ بھائی اور باپ سسرالی فرمائشیں اور باراتیوں کے کھانے پینے کے بندوبست میں قرض اٹھاتے ہیں۔ اس کے بعد لڑکے والے سینکڑوں باراتیوں سمیت لڑکی کی رخصتی کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ اگر بیٹی کو لاکھوں کا جہیز دے دیا جائے، سسرال والوں کے تقاضوں کے مطابق ان کی خواہشات کا مکمل خیال رکھا جائے تو بھی فرمائشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ رخصتی کے ایک روز بعد اگر بیٹی کے سسرال عالیشان ناشتہ نہ پہنچایا جائے تو بھی بیٹی کو طعنے ملتے ہیں کہ تمہارے گھر والوں نے تمہارا بوجھ سر سے ایسے اتار کہ اب تمہیں پوچھا تک نہیں۔ سسرال میں شوہر کے دور کے رشتے داروں میں بھی خوشی غمی کے موقع پر لڑکی والے نہ پہنچ سکیں تو لڑکی کا جینا دوبھر کر دیا جاتا ہے۔
اگر بدقسمتی سے لڑکی کے دیور کی شادی زیادہ بڑے خاندان میں ہو جائے تو بھی پرانی بہو تو احساسِ محرومی کا شکار کر دیا جاتا اور وہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو کر اپنی جان کو روگ لگا بیٹھتی ہے۔ یہ جانتے بوجھتے کہ لڑکی اور لڑکا اللہ کی دین ہے اور اللہ کے کاموں پر کسی کا زور نہیں چلتا‘ بیٹی کی پیدائش پر بہو کو اشاروں ہی اشاروں میں باور کرایا جاتا ہے کہ اگر اگلی بار بیٹا پیدا نہ ہوا تو تمہارے شوہر کی دوسری شادی کرا دی جائے گی۔ لڑکی جہیز میں لائے اکیس جوڑوں کے ساتھ اپنی زندگی کے اگلے اکیس سال حالات سے لڑتے، طعنے سنتے اور مختلف مسائل میں مبتلا ہو کر گزار دیتی ہے۔ ان اکیس سالوں میں وہ چار/ پانچ بچوں کی ماں بھی بن چکی ہوتی ہے۔ اس عرصے میں ساس کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے اور طاقت اسے منتقل ہو جاتی ہے۔ طاقت کا مرکز تو بدل جاتا ہے مگر سوچ نہیں بدلتی۔ پھر یہی بہو جب اپنے بیٹے کیلئے لڑکی کی تلاش شروع کرتی ہے تو کسی نہ کسی گھر کو اکیس جوڑوں اور بے شمار جہیز کی پریشانی میں مبتلا کر کے لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے ملنے والی سونے کی انگوٹھی کے متعلق سوچنے لگتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved