تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     17-09-2021

ہر حکومت کی یہی کہانی ہے!

نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں‘ مجھے یاد ہے‘ ان کی حکومت کا سامنا پاکستان کے ایک میڈیا گروپ سے ہوا تھا اور حکومت کی جانب سے کاغذ کی بندش کے باعث اس گروپ کا اخبار ایک صفحے پر سمٹ گیا تھا۔ میں اس وقت سکول میں پڑھتی تھی لیکن اخبار کا مطالعہ بہت شوق سے کرتی تھی۔ جب اخبار ایک صفحے پر چلا گیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی کہ یہ سب کیا ہے؟ مجھے لگتا تھا کہ یہ سب آمر ہی کرتے ہوں گے کیونکہ ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ مرحوم ضیاء الحق کے دور میں میڈیا سنسر شپ اتنی زیادہ تھی کہ صحافیوں کو کوڑے تک پڑتے تھے مگر نواز شریف تو ایک جمہوری لیڈر تھے اور وہ عوام سے ووٹ لے کر آئے تھے ‘ پھر ان کو آزاد صحافت سے کیا خطرہ لاحق تھا؟ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر تھی مگر عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سمجھ آگئی کہ جمہوری حکمرانوں کے اندر بھی آمر ہی بستے ہیں۔ نواز شریف صاحب کو جب بھی اقتدار ملا انہوں نے بہت سے صحافیوں کو اپنا مشیر بنا لیا؛تاہم ان کو ہمیشہ ان صحافیوں اور اینکرز سے مسئلہ درپیش رہا جو خوشامدی نہیں تھے‘ جو حق بات کہتے تھے۔
پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں پرائیوٹ میڈیا کو کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس دور میں پرنٹ میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا اور ریڈیو انڈسٹری خوب پھلے پھولے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی یہ جان کر کہ نواز شریف نے پاکستان کے ایک اخبار کو کچھ عرصے کے لیے مکمل بندکرادیا تھا جبکہ پرویز مشرف نے نجی میڈیا کو میدان میں آنے کی جگہ دی؛ تاہم کچھ عرصے بعد وہ بھی نئی پیدا ہونے والی صورتحال کو لے کر پریشان ہوگئے اور میڈیا پر قدغن لگانے کی کوشش شروع کر دی۔ انہوں نے صحافیوں کو پابندِ سلاسل کرنے کی کوشش کی‘ ان کے شو بند کرا دیے۔ مجھے بہت رنج ہوا کہ پرویز مشرف صاحب نے ایک طرف میڈیا کو آزادی دی اور دوسری طرف خود ہی اس آزادی کو چھیننے لگے۔
صحافی اور سول سوسائٹی نے جب مشرف حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو میں بھی اس میں ایک طالب علم کے طور پر شریک ہوتی تھی۔ جس وقت ہم طالب علم شاہراہِ دستور پر احتجاج کرتے تھے تو ملکی و غیر ملکی میڈیا ہماری تصاویر کھینچ لیتا جو آئے روز اخبارات میں اور ویب سائٹس پہ شائع ہوتی تھیں۔ میرے خاندان کے لوگوں نے جب مجھے ''گومشرف گو‘‘ کے پوسٹر اٹھائے دیکھا تو انہیں کافی فکر لاحق ہوئی کہ لڑکیوں‘ بچیوں کو یوں احتجاج میں نہیں جانا چاہیے مگرمیرے ڈیڈی نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں‘ تم جایا کرو، معاشرے کے مسائل اجاگر کرنے میں لڑکیوں اور عورتوں کو بھی حصہ لینا چاہیے۔ آمریت کا دور ختم ہوا تو پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی، میں نے اس وقت ایک نجی چینل 'پارلیمنٹ ڈائری‘ کی ہوسٹ کے طور پر جوائن کرلیا اور بعد ازاں فیلڈ رپورٹنگ بھی شروع کردی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں شیری رحمن زیادہ فرینڈلی وزیراطلاعات نہیں تھیں لیکن قمر زمان کائرہ بہت میڈیا فرینڈلی تھے۔ ان کے ساتھ مرحومہ فوزیہ وہاب اور فردوس عاشق اعوان نے بھی میڈیا اور حکومت کے مابین حائل دوریاں ختم کیں۔ ہم جتنے جونیئر صحافی تھے‘ ان کو بھی صدر اور وزیراعظم کی تقریبات اور عشائیوں میں مدعو کیا جاتا تھا تاکہ صحافت میں آنے والی نئی نسل بھی طاقت کے ایوانوں میں بیٹھ سکے اور راج نیتی کو قریب سے دیکھ سکے۔ اس وقت ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی اور بہت سے صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان کی بازی ہار گئے تھے۔
اس کے بعد نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت شروع ہوا تو میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی کافی متحرک ہوگیا، پولیٹیکل پارٹیوں کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں نے بھی اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں قائم کرلیں اور صحافی حکومتی دبائو کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا شکار بھی ہونے لگے۔ اس معاملے میں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیموں اور بی ٹیموں نے بھرپور حصہ ڈالا۔ میں 2014ء میں حکومت مخالف دھرنے کے مخالف تھی اور جیسے ہی میں اس حوالے سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹ کرتی تو مجھے پی ٹی آئی کی بی ٹیم اور اس کے مداحوں کی جانب سے گالیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے حیرت ہوتی کہ کیا ہمارے ملک میں اب کسی کو مخالفانہ بات کرنے کی بھی اجازت نہیں؟ پی ٹی آئی کے مقابلے پر جب نون لیگ نے اپنا سوشل میڈیا سیل بنایا تو پھر سوشل میڈیا گالی گلوچ‘ دھمکیوں اور مخرب الاخلاق زبان سے بھر گیا۔ نواز شریف صاحب کا فوکس اس دور میں بھی اپنے من پسند صحافیوں کو نوازنے پر رہا، دوسری طرف ان صحافیوں اور اینکرز کے ساتھ خوب مخاصمت نبھائی گئی جو حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ ان کو نوٹس بھیجے گئے‘ شوز بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کو ہر جگہ ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت کے ایک کٹھ پتلی پیمرا چیئرمین نے تو کچھ چینلز کی نشریات ہی بند کردی تھیں جوصحافت کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس کے بعد سے اس حکومت کا سورج غروب ہوتا چلا گیا اور پھر پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی۔
تحریک انصاف نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اور عمران خان سوشل میڈیا اور میڈیا کو اپنی قوت قراردیتے تھے۔ عوام کو بھی لگا کہ اب حقیقی تبدیلی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ سب سے پہلے میڈیا کے واجبات ادا کرنے سے انکار کیا گیا جس سے صحافی معاشی طور پر بدحال ہوگئے، بہت سے بیروزگار ہوگئے، پھرحکومت پر تنقید کرنے والوں کی نوکریاں ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور کئی افراد گھر بیٹھ گئے۔ اس پر بھی قرار نہیں آیا تو اپنے بہت سے پارٹی کارکنان کو صحافیوں کا لبادہ اوڑھا کر صحافیوں کی صفوں میں شامل کردیا گیا۔ جب حکومتی ارکان کسی شو میں شرکت کرتے ہیں تو سوشل میڈیا ٹیمیں اس میں سے من پسند حصے کاٹ کر اسے ایسے پیش کرتیں جس سے اینکر کی تضحیک کا پہلو نکلتا اور پھر وزرا اور مشیران سمیت سب دھڑا دھڑ اس کو ری ٹویٹ کرتے اور ٹرولز کو مزید شہ دیتے کہ تم لوگ جو بھی کرو‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ تمہیں ہر چیز کی آزادی ہے۔ اس طرح صحافیوں پر حملوں میں تیزی آگئی۔ اب عالم یہ ہے کہ کسی کو سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جارہا ہے تو کسی کو آن گرائونڈ، منظم مہمات چلائی جارہی ہیں جن میں اینکرز بالخصوص خواتین صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے‘ ان کی کردار کشی کی جاتی ہے‘ ان کے خلاف ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں‘ ان کی تضحیک کی جاتی ہے۔ کوئی بھی شخص اگر حکومت مخالف کوئی چیز شیئر کر دے یا مثبت انداز میں تنقید کرنے کی جسارت ہی کر لے تو اس کے پیچھے ٹرولز ٹیمیں لگا دی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیاپر صحافیوں کا بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اسلام آباد جیسے شہر میں صحافیوں پر جان لیوا حملے ہوئے ہیں‘ ماضی قریب میں صوبہ سندھ میں تین صحافیوں کو قتل تک کر دیا گیا اور اب ڈویلپمنٹ کے نام پر 'میڈیا کنٹرولنگ اتھارٹی بل‘ لایا جارہا ہے جس کے تحت میڈیا پر بھاری جرمانے کیے جائیں گے۔ اس اتھارٹی کے قیام کے بعد میڈیا کی آزادی مزید سلب ہوجائے گی اور میڈیا کو 22ویں گریڈ کا افسر ہیڈ کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کے ماتحت کام کرتے ہوئے وہ کیسے غیر جانبدار رہے گا؟ پھر اس چیز کا تعین کیسے کیا جائے گا کہ کون سی نیوز فیک ہے؟ اس اتھارٹی کے قیام میں حکومت کی نیت عیاں ہے کہ وہ محض میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات پہلے ہی مختلف ریگولیٹری اتھارٹیز کے تحت کام کررہے ہیں‘ اگر کوئی صحافی فیک نیوز دیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی اپنی کریڈیبلٹی خراب ہوگی اور ممکن ہے کہ نوکری بھی چلی جائے۔ فیک نیوز وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر زیادہ پھیلتی ہے اور جنریٹ بھی وہیں پر ہوتی ہے‘ قومی میڈیا نے ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ بے لگام تو سوشل میڈیاہے‘ ملکی میڈیا تو پوری ذمہ داری سے کام کررہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان تو آزادیٔ رائے کے حامی رہے ہیں‘ نجانے اب ان کو کون یہ مشورے دے رہا ہے کہ وہ آزادیٔ رائے پر قدغن لگائیں۔ اس قانون کے تحت جو لائسنس کا اجرا کیا جائے گا‘ اس سے حکومت خبر کی نشر واشاعت پر اثر انداز ہوسکتی ہے جبکہ ہر چینل اور اخبار ایک سنسر کمیٹی قائم کرے گا‘ اس پر بھی یہ اتھارٹی براہِ راست اثرانداز ہو سکے گی۔یہ اتھارٹی آئین پاکستان میں ضمانت دی گئی بولنے اور لکھنے کی آزادی سے متصادم ہے‘ اسی لیے صحافیوں اور میڈیا کی تمام یونینز نے اس کو مسترد کردیا ہے اور اس کی منسوخی تک پاکستانی صحافی برادری اپنا احتجاج جاری رکھے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved