ہم نے ڈھائی تین عشروں کے دوران دوسروں کے بکھیڑوں میں پڑ کر اپنے لیے خرابیوں کا سامان کیا ہے۔ جن پالیسیوں کے نتیجے میں معاشرہ تباہی سے دوچار ہوتا رہا‘اُنہی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھا گیا۔ یہ سب دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ زیادہ افسوس ہونا چاہیے یا حیرت۔ حیرت کا محل تو اب رہا نہیں، ایسے میں صرف تاسّف ہی کیا جا سکتا ہے۔البتہ ایک آپشن اور بھی ہے‘ وہ یہ کہ ماضی کی غلطیوں کو آئندہ نہ دہرانے کا قصد کیا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا نے نان نیٹو اتحادی ہونے کے باوجود افغانستان سے انخلا سے پہلے اور بعد کی ممکنہ صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا۔ روسی صدرکی فون کال کا حوالہ دیے بغیر انہوں نے کہا کہ امریکی صدر بہت مصروف ہیں‘ اس لیے فون کال نہ کرسکے۔ ویسے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کسی فون کال تک محدود نہیں۔ یہ بات امریکی قیادت کو یاد رکھنی چاہیے کہ دیرپا نوعیت کے مضبوط کثیر جہتی پاک امریکا تعلقات ہی دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔ وزیر اعظم نے مذکورہ انٹرویو میں اس امر پر شدید تاسّف کا اظہار کیا کہ نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں پاکستان نے افغانستان میں بیس سال تک کرائے کی بندوق کا کردار ادا کیا اور حد یہ ہے کہ اس دوران امریکا نے اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان کی حدود میں ڈرون حملے کیے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کو غیر ملکی افواج کنٹرول نہیں کرسکتیں، اس وقت صورتِ حال پریشان کن ہے، عالمی برادری طالبان کی حکومت کو بڑے پیمانے پر امداد دے تاکہ ملک کو ڈھنگ سے چلایا جاسکے۔ انہوں نے کہا: اگر بروقت امداد نہ ملی تو افغانستان میں انتشار بڑھے گا، بحران شدت اختیار کرے گا، غیر مستحکم افغانستان سے پورے خطے کے لیے خطرات بڑھیں گے۔ دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔ وزیر اعظم نے سی این این سے انٹرویو میں جو کچھ کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اِسے ایک دُکھی دل کا دُکھڑا بھی کہا جاسکتا ہے۔ دکھی دل اس لیے کہ اگر ہم اپنی پالیسیوں کا رخ ماضی میں ٹھیک رکھتے تو آج حالات قدرے مختلف ہو سکتے تھے۔
پاکستان نے اگر بیس برس تک امریکا کے لیے اہم اتحادی کا کردار ادا کیا تو اب شکوہ کرنے سے کیا حاصل؟ سیدھی سی بات ہے، اگر امریکا کا ساتھ دینے کا آپشن گوارا کیا گیا تھا تو اس کے بعد ممکنہ ردعمل اور دیر پا اثرات پر بھی ہماری نظر ہونا چاہیے تھی، پھر اس جنگ کی وجہ سے جو کچھ ہمیں میسر آیا، وہ کس کی جیب میں گیا، یہ بحث پھر کبھی سہی۔ فی الحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا امریکا کا ساتھ دینے کی پالیسی جاری رہنی چاہیے یا نہیں۔ اس سے قبل 1979ء میں افغانستان پر سوویت افواج کی لشکر کشی کے وقت بھی یہی ہوا تھا یعنی امریکا اور یورپ نے مل کر سوویت افواج کو افغانستان کے کوہ و دمن میں شکست سے دوچار کیا تھا۔ تب بھی ہم نے خوب کردار ادا کیا تھا، ہاں! کچھ سائیڈ ایفیکٹس ایسے بھی پیدا ہوئے جو بعد میں کافی پیچیدہ ہو گئے اور ہمیں طویل المیعاد خسارہ اٹھانا پڑا۔ خود امریکا نے بھی ہم سے نظریں پھیر لیں اورہم معاشی پابندیوں کی زد میں آ گئے۔امریکا اور یورپ نے ہر خطے میں اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کی خاطر بلکہ متعدد ریاستوں کے ساتھ ساز باز کر رکھی ہے۔ ہم نے البتہ اوروں کی جنگ میں کودنے کا خاصا خمیازہ بھگتا ہے‘ آج بھی ہم اسی جنگ کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو قتل و غارت اس خطے میں برپا کی گئی اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا مگر پھر بھی ہم نے وہ سب کچھ کیا‘ جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ملک کو جو کچھ بھگتنا پڑا‘ وہ اپنی جگہ‘ اب تک ہم گزرے زمانے میں دوسروں کا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔
اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم نے امریکی صدر کی فون کال نہ آنے کا ذکر کرتے ہوئے اُن پر طنز کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ امریکی صدر کی طرف سے فون کال کا نہ آنا اچھی بات ہے یا بُری بات۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس بات کے محتاج کیوں ہیں کہ کوئی ہمیں یاد کرے۔جب سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھ دیے جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ امریکا نے اگر ہمیں نظر انداز کیا ہوا ہے تو اِس میں حیرت کی کچھ بات نہیں کیونکہ امریکا کی یہ پرانی روش ہے، افغانستان کو ہی دیکھ لیں، امریکا نے اپنی شکست کا تمام ذمہ اس افغان انتظامیہ کے سر پر تھوپنے کی کوشش کی‘ جسے بڑے چائو کے ساتھ اس نے افغان عوام پر ''مسلط‘‘ کیا تھا۔ اب امریکی انتظامیہ تمام ذمہ داری اشرف غنی کے فرار پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتی ہے۔ کمزوروں کے ساتھ امریکا کا یہی رویہ رہا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی کمزوری کو کمزوری رہنے دینا چاہتے ہیں یا اُسے دور کرکے تھوڑی بہت طاقت کا اہتمام کرنے کے موڈ میں ہیں۔ امریکا ہو یا کوئی اور طاقت، ہم کسی کو اُس کی پالیسیوں سے ہٹ کر چلنے پر مجبور نہیں کرسکتے‘ لیکن ہم اپنا راستہ خود ضرور بنا سکتے ہیں۔ ہم نے اب تک اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا، خود داری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا اور مشکل گھڑی میں اپنے زورِ بازو کے ذریعے مسائل حل کرنے کا حقیقی عزم ظاہر کیا ہے نہ اپنی پوشیدہ طاقت۔ خوددار اقوام جب حقیقی غیرت کا مظاہرہ کرتی ہیں تو کمزور نہیں رہتیں۔اپنی کمزوری دور کرنے اور نئے عزم کے ساتھ ہی طاقت کے حصول کی جدوجہد شروع ہوتی ہے۔
امریکا اور یورپ نے ہمیں بارہا بیچ منجدھار کے چھوڑا ہے۔ یہ کھیل اتنی بار کھیلا گیا ہے کہ اب تو عام آدمی بھی سب کچھ جان چکا اور اس پر نالاں ہے۔ یقینا حکمرانوں سے بھی یہ چیزیں اوجھل نہیں ہیں۔ تو پھر کیا وہ کسی نئی قومی حکمتِ عملی کے تحت کام نہیں کرسکتے؟ کیا ہماری اشرافیہ کی یہ بات سمجھاناپڑے گی کہ امریکا اور یورپ کے سائے تلے زندہ رہنے سے ہمارے لیے پریشانی ہی کا سامان ہوتا رہے گا؟ افغانستان میں سوویت افواج کو شکست دینے میں ہم سے بھرپور مدد لینے کے بعد اُس کے مابعد اثرات بھگتنے کے لیے امریکا اور یورپ نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا تھا۔ نائن الیون کے بعد بھی یہی کچھ ہوا، خود امریکی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد سے پاکستانی معیشت کو دو سو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا ہے، اسی ہزار جانی نقصان کا تو قصہ ہی الگ ہے۔
یہ وقت بہت سے معاملات کے بارے میں سوچنے اور نئی پالیسی تشکیل دینے کا ہے۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ اب دوسروں کی جنگوں میں فریق بننا ہے یا غیر جانبدار رہنا ہے۔ خطے کے حالات پھر بدل رہے ہیں۔ ایسے میں امریکا اور یورپ پیچھے ہٹ گئے ہیں اور ہم چین و روس کے لیے ترجیحی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان دونوں طاقتوں کو ہماری ضرورت ہے مگر اس بار فرق یہ ہے کہ ہمیں عسکری اتحادی کا نہیں بلکہ سہولت کار اور سٹریٹیجک پارٹنر کا کردار ادا کرنا ہے۔ خطے میں کہیں بھی عسکری مہم جوئی کا ارادہ چین کا ہے نہ روس کا۔ انہیں پاکستان کی ضرورت ہے مگر کسی ملک پر چڑھائی کے لیے نہیں بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے۔
پاکستان کے لیے ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرنے کا وقت آگیا ہے۔ امریکا اور یورپ کے برعکس چین اور روس کے ساتھ مل کر چلنے میں فی الحال کوئی ایسی قباحت نہیں جس کی بنیاد پر کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ امریکا اب بحرِ ہند کے خطے میں چین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ وہ آسٹریلیا، انڈونیشیا اور دیگر علاقائی ریاستوں کو ملا کر چین کے لیے توانائی کے ذرائع کی ترسیل اور تجارت مشکل بنانا چاہتا ہے۔ بہانہ یہ تراشا جارہا ہے کہ بحرِ ہند کے خطے (اوشیانا) کی سلامتی کو چین سے خطرات لاحق ہیں۔ حالانکہ چین نے اب تک کہیں بھی عسکری مہم جوئی کا عندیہ نہیں دیا‘پھر یہ خطرہ کہاں سے پیدا ہوگیا؟ اب ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں امریکی کا نان نیٹو اتحادی بننا ہے یا چین کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ فیصلہ درست ہونا چاہیے، اور وہ بھی تاخیر کے بغیر۔