تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-09-2021

تعلیم اور نظریہ

نصاب سازی میں‘ کیا کسی قوم کے اجتماعی آدرش کا اظہار ہونا چاہیے؟ تعلیم طے شدہ اہداف کے حصول کا کوئی وسیلہ ہے یا ایک مجردعمل؟
ڈاکٹرپرویز ہود بھائی کو شکایت ہے کہ یونیورسٹی کی برقع پوش طالبات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ساتھ ہی یہ افسوس بھی کہ بچوں کو ناظرہ کیوں پڑھایا جا رہا ہے اور حفظ کیوں نصاب کا حصہ ہے؟اس افسوس میں وہ تنہا نہیں۔جزیات سے قطع نظر‘ایک قابلِ ذکر تعداد ان کی ہم خیال ہے۔ اس میں سنجیدہ لوگ بھی ہیں جن کی بات متقاضی ہے کہ اسے غور سے سنا جائے۔ ایسی ہی ایک شخصیت روبینہ سہگل بھی ہیں۔
روبینہ سہگل کی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔پاکستان میں جن لوگوں نے سماجی علوم کو فروغ دینے میں بنیادی کردارادا کیا‘روبینہ ان میں سے تھیں۔تعلیم سے متعلق نظری مباحث پر ان کا گراں قدر تحقیقی کام ہے۔ ان کی کتاب ''قومیت‘تعلیم اور شناخت‘‘ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے جو میں نے کالم کی ابتدا میں اٹھائے ہیں۔ انہوں نے جہاں نصاب اور نظامِ تعلیم کے نظری پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے‘ وہاں پاکستان کی مختلف تعلیمی پالیسیوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ریاست کے تصورات بدلتے اور پھر نصابِ تعلیم‘ ان کے مطابق ڈھلتا چلا جاتا ہے۔
روبینہ سہگل بتاتی ہیں کہ دنیا کی تمام قومیں اس بات کا اہتمام کرتی ہیں کہ معاشرے کے علم اور روایت کو اگلی نسل کو منتقل کریں۔اسی تاریخی تسلسل سے کسی معاشرے کی پہچان بنتی ہے۔اس لیے اگر آج یا گزرے ہوے کل میں‘پاکستان میں بھی یہ ہو رہا ہے تو اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو اچنبھے کی ہو؛ تاہم سماج میں علم یا روایت کے تسلسل کا کوئی ایک ذریعہ نہیں ہوتا۔ ایک علم وہ ہے جو ریاست عوام کو دینا چاہتی ہے۔ایک وہ ہے جو سماجی اداروں‘ کہانیوں اورکہاوتوں سے منتقل ہو تا ہے۔انتقالِ علم کے یہ ذرائع کبھی ہم آہنگ اور کبھی ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوتے ہیں۔سماج ان کے امتزاج ہی سے‘ تنوع کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
روبینہ سہگل نے تعلیم پر سماجی ارتقاکے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔طبیعی علوم اور سائنسی اندازِ فکر سے سماجی علوم پر جو اثرات مرتب ہوئے‘ان کے نقصانات کو بیان کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: ''ہر حقیقت کا انحصار قدروں پر ہوتا ہے...حقائق خود کچھ نہیں ہوتے۔انہیں کسی نہ کسی نظریاتی سانچے میں ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔ورنہ ان کے کوئی معنی نہیں بنتے اور یہ بے جان ہوتے ہیں۔حقائق کے معنی صرف نظریات کے سانچے میں ظاہر ہوتے ہیں اور نظریات کا سانچہ قدروں پر مشتمل ہو تا ہے۔‘‘
روبینہ مزید لکھتی ہیں: ''سائنس نے نہ صرف سوچ کا احساسات اور حقائق کا قدروں سے ناتا توڑا بلکہ تحقیق کرنے والے کا ان لوگوں سے بھی ناتا توڑا جن پر تحقیق کی جاتی ہے۔اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ لوگ‘انسان‘ادارے‘بے حس اور بے جان چیزوں کی طرح نہیں ہوتے جن کا تحقیق پر کوئی ردِ عمل نہ ہو...بہترین ریسرچ وہی ہوتی ہے جو کسی نہ کسی نظریے پر منحصر ہو...یہ ممکن نہیں کہ سماجی زندگی کو سائنسی طریقوں سے تبدیل کیا جا ئے۔ سائنس کے استعمال سے زندگی میں کچھ آسانیاں اور سہولتیں ضرورمیسرہو جاتی ہیں لیکن روحانی‘اخلاقی اور سیاسی زندگی کو اگر سائنس کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو نہ اخلاق باقی رہتا ہے‘نہ سیاست اور نہ خوبصورتی۔‘‘ (صفحہ59تا 60)
پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر عطا الرحمن جیسوں کا مسئلہ یہی ہے کہ ان کا تعلق طبیعی علوم سے ہے۔ایک فزکس کے عالم ہیں اور دوسرے کیمسٹری کے۔ان کے باہمی اختلافات اپنی جگہ مگر سماج کو دیکھنے کا زاویہ ایک ہے۔ہود بھائی جب قرآنِ مجید کی تعلیم جیسے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں تو ان کی نظروں سے یہ بات اوجھل ہو جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے سماج کے نصابِ تعلیم کی بات کر رہے ہیں جس کی ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔مسلمان یامسیحی ہونامعروضیت کی نفی ہے اور یہ ایک سماجی حقیقت ہے۔دنیا کا کوئی سماج معروضی نہیں ہو سکتا۔میرا خیال ہے روبینہ سہگل نے اسی بات کی شرح کی ہے۔
پاکستان میں اگر قرآنِ مجید‘ ناظرہ اورحفظ‘کی روایت زندہ ہے تو اسے سماج نے زندہ رکھا ہے۔یہ کبھی سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ نہیں تھی۔اگر مختلف اوقات میں اسے حکومت کی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے تو اس کی وجہ عوامی مطالبہ ہے۔اس ملک میں ایسے نجی تعلیمی اداروں کی بھرمار ہے جو 'کمپیوٹرا ور قرآن کی تعلیم ایک ساتھ‘ کے بینر تلے اپنی تعلیمی دکان قائم کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کودین اور دنیا کی بیک وقت تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایک مسلمان اپنے بچوں کو قرآنِ مجید کی تعلیم دینا چاہتا ہے تو اس میں کیا چیز‘ باعثِ اعتراض ہے؟ یا اگر ایک مسیحی خاندان چاہتا ہے کہ اس کے بچوں کو بائبل کی تعلیم ملے تو اس میں حیرت کیسی؟
اس لیے اگر سرکاری نصاب میں مسلمان بچوں کے لیے قرآنِ مجید کی تعلیم کا اہتما م کیا جا رہا ہے تو اس پر اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا۔ اس معاملے میں البتہ چند باتیں قابلِ توجہ ہیں۔ایک یہ کہ قرآنِ مجید کی تعلیم‘ عمر اور جماعت کی رعایت سے‘ایک تسلسل کے ساتھ دی جائے۔ دوسرا یہ کہ قرآنِ مجید کے ساتھ اسلامیات کو بطور مضمون پڑھانے کی ضرورت نہیں۔قرآنِ مجید سے بڑھ کر اسلامیات کی کوئی دوسری کتاب نہیں ہو سکتی۔تیسرا یہ کہ غیر مسلم طالب علموں کے لیے بھی ان کے مذاہب کے علما کی مرتب کردہ مذہبی کتب شاملِ نصاب ہوں۔آج پر ویز ہود بھائی جیسے دانشوروں کو یہ بتانا چاہیے کہ مسلمان طلبا کو مذہب کی تعلیم کیسے دی جائے نہ کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ انہیں مذہبی تعلیم کیوں دی جا ئے؟
ایک اعتراض یہ ہے کہ جب قرآنِ مجید کی تعلیم دی جا رہی ہے تو دیگر مضامین کی کتب کو مذہبی تعلیمات سے بوجھل نہیں کیا جا نا چاہیے۔ یہ اعتراض درست ہے۔مجھے اس سے اتفاق ہے۔فزکس کی تعلیم فزکس سکھانے کے لیے دی جا نی چاہیے اور اسی طرح دیگر علوم کی بھی۔ایک بات البتہ توجہ طلب ہے۔جب ہم اردو پڑھاتے ہیں تو حمد یا نعت‘ شاعری کے اصناف میں شامل ہیں۔اسی طرح محض زبان و بیان کے ا عتبار سے ہمارا دینی ادب کسی طرح غیر مذہبی ادب سے کم نہیں۔ اقبال کے بغیر اردو کی تعلیم کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟شبلی و حالی کے بغیر اردو کیسے سمجھ میں آئے گی؟
انگریزی کاکلاسیکی ادب کلیسا اور بادشاہ کے ذکر سے خالی نہیں۔ملٹن کی ' جنت ِ گم گشتہ‘ کو مسیحی روایت کو جانے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔اس بات کی تفہیم کچھ مشکل نہیں کہ ہر زبان کا ادب ایک خاص سماجی فضا میں جنم لیتا ہے۔اس فضا کی تشکیل میں مذہب اہم کردار ادا کر تا ہے۔ زبان کی تعلیم اس سے بے نیاز ہو کر نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں‘یہ کیسے ممکن ہو گا کہ اس کے نظامِ تعلیم پر مسلم تہذیب کا اثر نہ ہو۔اقلیتوں کے تمام بنیادی حقوق ہر حال میں محفوظ ہونے چاہئیں‘ لیکن یہ مطالبہ کسی طرح عادلانہ نہیں ہو گا کہ اکثریت کو اپنے اجتماعی تہذیبی اظہار سے محروم کر دیا جا ئے۔
میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاجاً سنجیدہ مباحث کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ نصاب کا مسئلہ اس لیے سطحی اور جذباتی کالموں کا عنوان بن گیا ہے۔کیا اچھا ہو کہ تعلیم کے ماہرین اسے موضوع بنائیں اور میڈیا ان کی بات کا ابلاغ کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved