تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     18-09-2021

تاجِ برطانیہ‘ آزاد اسلامیہ مدرسہ اور مزاحمت

ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے مختلف طریقے اپنا ئے گئے۔ ان میں مسلح جدوجہد بھی تھی اور افکار اور بیانیے کے محاذ پر بھی مقامی رہنما فرنگی حکومت کے خلاف بر سرِ پیکار تھے۔ مزاحمت کے اس عمل میں ہر مذہب‘ فرقے اور طبقۂ فکر کے لوگ شامل تھے۔ مزاحمت کا ایک محاذ تعلیم کا تھا جس پر کچھ رہنما مدرسوں اور سکولوں کے ذریعے ایک طرف تو سماجی بیداری کے لیے کام کر رہے تھے اور دوسری طرف نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک آزاد وطن کا خواب جگا رہے تھے۔انہی رہنماؤں میں غفار خان بھی تھے جنہوں نے آزاد مدرسہ کے نام سے بڑی تعداد میں سکولوں کی بنیاد رکھی۔ ان سکولوں نے نوجوانوں میں سماجی بیداری اور آزادی کی چاہت کی نشو و نما میں اہم کردار ادا کیا۔
غفارخان 6 فروری 1890ء کو اتمان ز ئی‘چارسدہ کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بہرام خان تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھے اور انہوں نے غفارخان اور ان کے بڑے بھائی عبدالجبار خان (ڈاکٹر خان صاحب) کو اس دور میں دستیاب بہترین تعلیم سے روشناس کرانے کی پوری کوشش کی۔ غفار خان نے مدرسہ کے ساتھ ساتھ ایک مشنری سکول میں تعلیم حاصل کی۔ ایک طرف تو وہ علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے اور دوسری طرف ان کے دارالعلوم دیو بندسے بھی رابطے تھے۔ ان متنوع اور مختلف تعلیمی تجربات نے ان کی شخصیت میں برداشت اور رواداری کو پروان چڑھایا۔ غفار خان ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئے تھے جب صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کو انگریزوں نے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ بچوں کے لیے سرکاری سکول دستیاب نہیں تھے۔ مقامی ثقافت خاندانی جھگڑوں‘ عدم برداشت اور سماجی اسراف کا شکار تھی۔ اوائلِ عمری ہی سے غفارخان خطے میں سماجی طورطریقوں میں اصلاح کے خواہاں تھے لیکن ان کی تشویش کا ایک بڑا سبب ہندوستان میں برطانوی راج تھا۔ ایسے میں ان کی توجہ کا مرکز حاجی تُرنگ زئی بن گئے جو انتہائی بہادری سے برطانوی راج کو چیلنج کر رہے تھے۔ حاجی تُرنگ زئی مختلف علاقوں میں مدرسے قائم کر رہے تھے۔ یہ مدرسے مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں فرنگی حکومت کے خلاف جذبات ابھار رہے تھے۔ ایک نوجوان رضاکار کی حیثیت سے غفار خان حاجی تُرنگ زئی کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے اور ان کے ہمراہ صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں مدرسے قائم کرنے میں ان کی مدد کی۔ یہ تعاون 1910ء سے 1915ء تک فعال رہااسی دوران حاجی صاحب قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے اور انگریزوں کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی۔ اس موقع پرغفارخان نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلح جدوجہد کے بجائے عدم تشدد کی راہ اپنائیں گے۔ وہ ایک کٹر مسلمان تھے اور جانتے تھے کہ اسلام عدم تشدد پر زور دیتاہے۔ باچا خان کو یقین تھا کہ عدم تشدد کو کسی بھی طاقت کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 1919ء ہندوستانی تاریخ کا اہم سال تھا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد ہندوستان میں مزاحمتی تحریکوں کی شدت میں اضافہ ہو گیا جس کے بعد رولٹ ایکٹ نافذ کیا گیا جو انگریزوں کی طرف سے اختلاف ِرائے کو دبانے کا ظالمانہ قانون تھا۔ہندوستان کے مختلف حصوں میں معاشرے کے تمام طبقوں کی طرف سے رولٹ ایکٹ کے خلاف شدید احتجاج شروع ہو گیا۔ 6 اپریل 1919ء کو ملک بھر میں ایکٹ کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور چارسدہ کے علاقے اتمان زئی میں غفار خان نے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیاجس کی پاداش میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور چھ ماہ تک جیل میں بند رکھا گیا۔
غفارخان قوم پرستوں سے رابطے میں تھے جو ہندوستان کی آزادی کے لیے شدت سے جدوجہد کر رہے تھے۔ وہ دارالعلوم دیوبند اور علی برادران سے مسلسل رابطے میں تھے جو تحریک خلافت کی قیادت کر رہے تھے۔ غفار خان صوبہ سرحد میں خلافت کمیٹی کے صدر تھے۔ جب ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا گیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو ہجرت کرنے کو کہا گیا تو اس تحریک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے غفارخان نے بھی افغانستان کی طرف ہجرت کی لیکن انہوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ آزادی کی جدوجہد ہندوستان سے دور رہ کر نہیں کی جا سکتی۔ وہ ہندوستان واپس آ گئے اور سماجی اصلاح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ غفار خان نے اپنے پیروکاروں اور دوستوں سے مشورہ کیا اور یکم اپریل 1921ء کو انجمن اصلاح الافغانہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام کے بڑے مقاصد پختونوں کو متحد کرنا‘ اسلام سے محبت پیدا کرنا اور سماجی تقریبات میں اسراف سے بچنا تھا۔ غفار خان نے ان مقاصد کو عملی شکل دینے کے لیے تعلیم کا انتخاب کیا۔ انہوں نے حاجی ترُنگ زئی کی مدد سے سکول قائم کئے جو انگریزوں نے 1915ء میں حاجی صاحب کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہونے کے بعد بند کر دیے تھے۔حاجی صاحب نے انگریوں کے خلاف قبائلی علاقے سے مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا تھا۔
اب وقت آگیا تھا کہ غفار خان عدم تشدد سے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔ انہوں نے صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں سکولوں کے قیام کی حکمت عملی اپنائی تاکہ مقامی نوجوانوں کو سماجی شعور اور فنی مہارت سے بااختیار بنایا جا سکے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سکولوں کا ایک سلسلہ آزاد اسلامیہ مدرسہ کے نام سے قائم کیا جائے گا۔ اس سلسلہ کا پہلا مدرسہ 10 اپریل 1921 ء کو قائم کیا گیا تھا۔ یہ عہد کیا گیا کہ یہ سکول آزاد ہوں گے‘ حکومت سے کوئی گرانٹ وصول نہیں کریں گے اور آزاد پالیسی پر عمل کریں گے۔ غفار خان نے اپنے بچوں اور اپنے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے بچوں کو اس مدرسے میں بھیجا۔ 1923ء میں مدرسہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے وابستہ کر دیا گیا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ان دنوں آزادی پسندوں کا مرکز تھا۔اس کا سنگِ بنیاد دیوبند کے شیخ الہند محمود الحسن صاحب نے رکھا تھا۔ گاندھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے جامعہ اور علی برادران کے لیے چندہ دیا اور حکیم اجمل خاں نے اس کی قیادت کی تھی۔ان سکولوں میں روایتی اور جدید مضامین کا امتزاج تھا۔ سکولوں میں پشتو اور عربی کے علاوہ انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ تعلیمی مضامین کے علاوہ سکولوں میں پیشہ ورانہ تعلیم دی جاتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح کے70 سے زیادہ سکول مختلف علاقوں میں قائم کیے گئے۔دسمبر 1921ء میں باچا خان کو دوبارہ تین سال کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ باچا خان نے سماجی سیاسی مسائل کو مؤثر انداز میں اجاگر کرنے کے لیے ایک جریدے کی ضرورت کو بھی محسوس کیا۔ 1928ء میں پختون نامی پشتو ماہنامہ شروع کیا گیا۔ اس میں سیاست‘ مذہب اور سماجی مسائل پر مضامین ہوتے تھے۔
1929ء میں باچا خان نے خدائی خدمت گار کا آغازکیا تاکہ لوگوں کو ایک فعال فورم فراہم کیا جاسکے اور ایک منظم طریقے سے سماجی سیاسی تبدیلی لائی جا سکے۔ انہوں نے پختونوں کی سماجی اصلاح اور ہندوستان کی آزادی کے لیے کثیرجہتی تحریک چلائی۔ انگریزوں کے خلاف ان کی مزاحمت کا ہتھیار عدم تشدد تھا۔ انہیں متعدد بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا‘ان کے پیروکاروں کا پشاور اور بنوں میں برطانوی افواج نے قتل عام کیا لیکن وہ اپنے منتخب کردہ عدم تشدد کے اصول پر قائم رہے۔ برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کی تاریخ میں باچا خان کو ہمیشہ ایک منفرد رہنما کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے تعلیم کے ذریعے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی۔ نوجوانوں میں سماجی شعور پیدا کیا اوراور عدم تشدد کی راہ اپناتے ہوئے آزادی کی راہ ہموار کی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved