نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم اٹھارہ برس کے بعد پاکستان آئی تھی اور گزشتہ ایک ہفتے سے پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پریکٹس کر رہی تھی، جمعرات کو بھی مہمان ٹیم نے نہ صرف پریکٹس کی بلکہ کیوی کپتان نے ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ سیریز کی ٹرافی کی رونمائی کی تقریب میں بھی شرکت کی اور گرین شرٹس کے ساتھ بھرپور مقابلے کی توقع کا اظہار کیا۔ ٹیم کے پاکستان آنے سے قبل‘ کیوی کرکٹرز، آفیشلز اور سکیورٹی حکام مسلسل پاکستان کی جانب سے بہترین انتظامات اور فول پروف سکیورٹی کی تعریف کرتے رہے۔ مہمان کرکٹرز نے کورونا وائرس کی پابندیوں کا شکوہ کرتے ہوئے کئی بار پاک سرزمین کی حسین وادیوں کی سیر و تفریح کی خواہش بھی ظاہر کی جو سکیورٹی کے حوالے سے ان کے اطمینان کا ایک بین ثبوت ہے۔ مہمان ٹیم روزانہ ہوٹل سے سٹیڈیم آتی اور پھر واپس جاتی، اس دوران ایک معمولی سا واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا جس سے کسی قسم کے سکیورٹی خدشات کا اظہار ہوتا۔
نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کا باقاعدہ آغاز جمعے کو پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں تین میچوں کی ون ڈے سیریز کے پہلے ون ڈے انٹرنیشنل میچ سے ہونا تھا۔ یہ میچ شیڈول کے مطابق دن اڑھائی بجے شروع ہونا تھا؛ تاہم نو منتخب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کی پریس کانفرنس کے باعث مجھے دوپہر بارہ بجے سٹیڈیم پہنچنا تھا۔ یہ پریس کانفرنس بھی کئی اعتبار سے انتہائی اہم تھی۔ ہم پوری کوشش کے باوجود دو منٹ تاخیر سے میڈیا سنٹر پہنچے؛ وہاں پہنچ کر جب ماحول دیکھا تو محسوس ہوا کہ پریس کانفرنس یا تو منسوخ کر دی گئی ہے یا تاخیر کا شکار ہے۔ سب لوگ انتظار کرتے رہے لیکن پی سی بی میڈیا ٹیم کی جانب سے اس بابت کوئی ٹھوس جواب نہ مل سکا اور بورڈ آفیشلز بھی تاخیر کی وجہ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ اسی دوران نمازِ جمعہ کا وقت ہو گیا۔ اب میچ شیڈول کے مطابق‘ دن دو بجے ٹاس ہونا تھا۔ روایت کے مطابق کسی بھی انٹرنیشنل میچ سے کم از کم دو گھنٹے قبل ٹیمیں میدان میں پہنچ جاتی ہیں اور وارم اَپ ہونا شروع کر دیتی ہیں لیکن ٹاس سے چند منٹ قبل تک دونوں ٹیمیں سٹیڈیم نہ پہنچ سکیں‘ اس پر میڈیا سنٹر میں موجود پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ سب نے چیک کرنا شروع کیا کہ ٹیمیں ہوٹل سے روانہ بھی ہوئی ہیں یا نہیں، معلوم ہوا کہ ٹاس سے چند منٹ پہلے تک دونوں سکواڈز ہوٹل میں ہی موجود تھے اور کسی قسم کی کوئی موومنٹ نہیں۔ دوپہر بارہ بجے جب میں سٹیڈیم پہنچا تھا تو میں نے دیکھا تھا کہ سٹیڈیم کے باہر شائقین کی لائنیں لگی ہوئی تھیں لیکن دو بجے تک سٹیڈیم اندر سے مکمل خالی تھا اور کسی بھی ٹکٹ ہولڈر کو میدان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس بات نے ہماری پریشانی میں مزید اضافہ کیا۔ کسی نے کہا کہ ممکن ہے کہ کسی ٹیم پلیئر میں کورونا وائرس پایا گیا ہو اور اس کی وجہ سے میچ تاخیر کا شکار یا ملتوی کر دیا گیا ہو، کسی نے چند روز قبل کورونا کے باعث بھارت اور انگلینڈ کے ٹیسٹ میچ کی منسوخی کا حوالہ دیا، بعض صحافیوں نے سکیورٹی تھریٹ کے خدشات کا اظہار بھی کیا، یہ سب دوپہر ڈیڑھ بجے کے بعد کی باتیں ہیں۔ عین ٹاس کے وقت خبر آئی کہ نیوزی لینڈ حکام نے سکیورٹی الرٹ کا بہانہ بنا کر میچ تو کیا‘ سیریز ہی منسوخ کر دی ہے اور مہمان ٹیم جلد واپس روانہ ہو جائے گی۔ یہ خبر کھیلوں کے شائقین کیلئے انتہائی پریشان کن اور افسوسناک تھی کیونکہ 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد تقریباً دس سال تک پاکستان میں انٹرنیشنل سپورٹس کے دروازے بند رہے اور بڑی مشکل سے ہم نے دنیا کویہ یقین دلایا کہ پاکستان کھیلوں کیلئے انتہائی سازگار اور نہایت پُرامن ملک ہے اور ہماری قوم کھیلوں خصوصاً کرکٹ سے بہت لگائو رکھتی ہے۔
چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ نے مہمان ٹیم کے اس غیر متوقع فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی الرٹ کو وجہ بنا کر سیریز یکطرفہ طور پر ختم کرنا مایوس کن ہے، خاص کر اس وقت جب تھریٹ سے متعلق بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔ نیوزی لینڈ کس دنیا میں رہ رہا ہے، نیوزی لینڈ بورڈ اب ہمیں آئی سی سی میں سنے گا۔ سیریز ملتوی کرنا کرکٹ شائقین اور کھلاڑیوں کے لیے شدید مایوس کن ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈکے اعلامیے کے مطابق‘ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ نے آخری روز بتایا کہ انہیں سکیورٹی الرٹ موصول ہوا ہے جس کے بعد انہوں نے یکطرفہ طور پر سیریز منسوخ کر دی ہے۔ پاکستان نے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے تھے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے بھی بات چیت کی۔ وزیراعظم صاحب نے اپنی نیوزی لینڈ کی ہم منصب کو سکیورٹی کی مکمل یقین دہانی کرائی اور بتایا کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم کیلئے کوئی سکیورٹی تھریٹ نہیں ہے۔نیوزی لینڈ ٹیم کے سکیورٹی حکام تو پاکستانی حکومت کی جانب سے سکیورٹی اقدامات پر مطمئن تھے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق سکیورٹی حکام اور پی سی بی نے کئی گھنٹوں تک نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو قائل کرنے کی کوشش کی؛ تاہم منانے کی یہ تمام کوششیں ناکام رہیں۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو واپس لینے کے لیے چارٹرڈ طیارہ آج (ہفتے کو) آئے گا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے نیوزی لینڈ حکومت کی جانب سے جاری کردہ سکیورٹی الرٹ کے بعد اپنا دورۂ پاکستان منسوخ کیا۔ پاکستان میں نیوزی لینڈ کی حکومت کو موصول سکیورٹی خدشات میں اضافے اور نیوزی لینڈ کے سکیورٹی ایڈوائزرز کے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ دورے کو جاری نہیں رکھیں گے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ کے چیف ایگزیکٹو ڈیوڈ وائٹ نے کہا کہ جو تجاویز ہمیں موصول ہوئیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دورے کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ پی سی بی کے لیے ایک دھچکا ہوگا جو شاندار میزبان ہے؛ تاہم کھلاڑیوں کی حفاظت سب سے اہم ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہی واحد آپشن ہے۔
نیوزی لینڈ حکومت اور بورڈ کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور یکطرفہ فیصلے نے پاکستانی شائقین اور کھلاڑیوں کو سخت مایوس کیا ہے۔ سابق اور موجودہ کھلاڑیوں نے کیویز کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے عالمی کرکٹ کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید اور سابق فاسٹ بائولر شعیب اختر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھارتی سازش قرار دیا ہے۔ بظاہر اس فیصلے کی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی اور گزشتہ روز ہی بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورۂ نیوزی لینڈ منسوخ ہونے کی خبر آئی تھی جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کیونکہ بھارت کسی صورت بھی پاکستان میں کرکٹ سمیت انٹرنیشنل سپورٹس کی بحالی برداشت نہیں کر سکتا اور دھونس اور دھمکیوں سے وہ ہمارے خلاف سازشوں میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ سری لنکن کرکٹر اینجیلو پریرا کے اس موقع پر کہا ہے کہ دو سال پہلے میں نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں ایک ایک منٹ خوب انجوائے کیا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ کے دورۂ پاکستان ادھورا چھوڑنے پر ان کا کہنا تھا کہ ایمانداری کی بات ہے‘ میں نے خود کو پاکستان میں انتہائی محفوظ تصور کیا تھا، مجھے وہاں سکیورٹی کے کوئی شکوک و شبہات نہیں تھے، میں پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کا خواہش مند ہوں۔ آج تو مہمان کیویز اپنے حکام کے دبائو میں خاموش ہیں لیکن یقینی طور پر ان کی مایوسی بھی پاکستانی کرکٹرز سے کم نہیں ہو گی کیونکہ ان میں کئی ایسے نوجوان کرکٹرز بھی تھے جنہیں یہاں انٹرنیشنل میچز کھیلنے کاموقع مل رہا تھا جو کیوی بورڈ کے یکطرفہ اور غلط فیصلے سے ضائع ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں کیوی کرکٹرز کی جانب سے بھی اپنی حکومت اور بورڈ کے فیصلے پر ضرور تنقید کی جائے گی کیونکہ اس فیصلے کا نقصان صرف پاکستان کو ہی نہیں‘ پوری عالمی کرکٹ کو بھگتنا پڑے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ معاملہ آئی سی سی میں بھرپور طریقے سے اٹھانا چاہئے اور تمام مالی نقصانات نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ سے وصول کیے جائیں۔ اب برطانوی حکام سے بھی فوری رابطہ کرنا چاہئے تاکہ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ سے قبل انگلش ٹیم کا شیڈول دورہ متاثر نہ ہو کیونکہ اگر خدانخواستہ برطانوی ٹیم کا دورہ بھی منسوخ ہو گیا تو اس کے اثرات پاکستان میں انٹرنیشنل سپورٹس پر نہایت منفی پڑیں گے اور سائوتھ ایشین گیمز سمیت ہمارے میدان بین الاقوامی کھیلوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔