تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-09-2021

مشکلات کے موسم میں ایک اچھی خبر

پانچ روپے کے حالیہ اضافے کے بعد پٹرول کی فی لیٹر قیمت ایک سو تئیس روپے تیس پیسے ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس قیمت کو ملکی تاریخ میں پٹرول کی بلند ترین قیمت ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے؛ تاہم یہ اعزاز صرف پٹرول کی قیمت کو ہی حاصل نہیں ہوا۔ ڈالر اوپن مارکیٹ میں ایک سو ستر روپے سے اوپر چلا گیا اور یہ بھی ڈالر کا ملکی تاریخ میں بلند ترین ایکسچینج ریٹ ہے۔ ادھر چینی آج کل پرچون میں ایک سو دس روپے کلو پر فروخت ہو رہی ہے، یہ بھی ملکی تاریخ میں چینی کی بلند ترین قیمت ہے۔ آٹا اس وقت پاکستان کے کئی علاقوں میں پچاس روپے کلو بلکہ اس سے بھی زائد قیمت پر فروخت ہو رہا ہے، یہ بھی ملکی تاریخ میں آٹے کی بلند ترین قیمت ہے۔ خوردنی تیل کا بھی مت پوچھیں۔ اس کی قیمت تین سو سے تین سو چالیس روپے فی لٹر تک ہے اور آپ کو یہ بتاتے ہوئے قطعاً خوشی نہیں ہو رہی کہ یہ قیمت بھی ملکی تاریخ میں خوردنی تیل کی بلند ترین قیمت ہے‘ حتیٰ کہ ٹینڈے دوسو اور مٹر ساڑھے تین سو روپے کلو ہیں‘ لیکن کس کس چیز کی قیمت کا رونا رویا جائے؟
تاہم اس مشکلات بھرے موسم میں ایک خبر اچھی بھی ہے اور وہ یہ کہ گزشتہ کئی سالوں سے خرابی کی طرف جاتی ہوئی کپاس کی فصل اور پیداوار میں اس سال کافی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ اگر حالات اسی طرح رہے تو اس سال کپاس کی پیداوار پچھتر لاکھ گانٹھ تک ہو سکتی ہے بلکہ ممکن ہے اسی لاکھ گانٹھ سے زیادہ کپاس ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ گزشتہ سال کی پیداوار 56,45,967 گانٹھ کی نسبت تقریباً چالیس فیصد زائد ہو گی۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امسال کپاس کا کاشتہ رقبہ تقریباً اتنا ہی ہے جتنا کہ گزشتہ سال تھا مگر فی ایکڑ پیداوار میں بہتری کے باعث کل پیداوار میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس کا کریڈٹ بنیادی طور پر کپاس کے لیے شاید تاریخی طور پر سازگار ترین موسم کو جاتا ہے، لیکن پنجاب کی حد تک اس سازگار موسم کو ممکنہ حد تک کاشتکار کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کی پالیسی بنانے اور اس پر عمل کروانے کا کریڈٹ جنوبی پنجاب کے سیکرٹری زراعت کو نہ دیا جائے تو یہ زیادتی ہو گی۔
پاکستان میں موجود کپاس کی فصل کا پیداواری دورانیہ بہت ہی لمبا ہو چکا ہے۔ وائرس سے بچائو کی خاطر وائرس فری اقسام کا بیج بنانے کے بجائے اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کپاس کی اگیتی کاشت شروع کر دی گئی اور اس طرح پہلے جو کپاس مئی کے وسط سے لے کر قریب دس جون تک کاشت ہوتی تھی وہ فروری کے آخر میں کاشت ہونا شروع ہو گئی۔ اس سے کاشتکار کو دو فائدے حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ وائرس کے حملے سے پہلے ہی کپاس کی فروٹنگ یعنی پھل گڈی اور ٹینڈے لگنے شروع ہو گئے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ لمبے دورانیے کے باعث فروٹنگ کا عرصہ بھی بڑھ گیا اور پیداوار میں بہتری آ گئی لیکن اس کے ساتھ ہی دو مسائل نے بھی جنم لیا اور وہ یہ کہ لمبے دورانیے کے باعث کپاس کی فصل پر ضرر رساں کیڑوں کے حملے کا دورانیہ بہت بڑھ گیا۔ پہلے کپاس کی فصل کا کل دورانیہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہوتا تھا اب بڑھ کر نو ماہ تک چلا گیا ہے۔ اس سے جہاں کیڑوں کے حملوں کا دورانیہ بڑھا اور ان کی تلفی کے لیے ادویات کے سپرے بہت زیادہ ہو گئے‘ وہیں کیڑوں کے حملوں کی زیادتی کے باعث زیادہ سپرے کے نتیجے میں خرچہ بڑھ گیا اور ان دونوں عوامل نے کپاس کو منافع بخش فصل کے بجائے نقصان کا باعث بنا دیا۔ انہی وجوہات کے سبب جنوبی پنجاب میں‘ جو کبھی کپاس کا گھر تھا‘ کپاس کا رقبہ بہت کم رہ گیا اور رقبے کے حساب سے فصل بھی بہت کم ہو گئی۔ ایک زمانے میں صرف ضلع وہاڑی کی کپاس کی پیداوار پورے صوبہ سندھ کے برابر ہوتی تھی۔ تحصیل میلسی‘ جو کپاس کا گڑھ تھی‘ وہاں کپاس کے حوالے سے ملک گیر شہرت کے حامل کاشتکار بھی کپاس کاشت کرنا چھوڑ گئے اور جنوبی پنجاب میں گنا، مکئی اور چاول نے کپاس کی متبادل فصلوں کے طور پر رقبہ گھیر لیا۔
گزشتہ سال رات اور دن کے قریب قریب مساوی درجہ حرارت کے باعث کپاس کے پھولوں کی بے تحاشا شیڈنگ ہوئی اور فصل تیار ہونے سے پہلے ہی بہت زیادہ دبائو میں آگئی تاہم امسال موسم کپاس کی فصل کے لیے ایسا شاندار تھاکہ قدرت کی مہربانی پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہوا کہ کیڑوں کا حملہ بھی اس طرح قبل از وقت شروع نہ ہوا جس طرح گزشتہ سالوں میں ہورہا تھا۔ یہ تو تھی قدرت کی طرف سے کرم نوازی والے عوامل۔ اس کے ساتھ یہ ہواکہ محکمہ زراعت کے جنوبی پنجاب میں سربراہ سیکرٹری زراعت نے اپنے محکمے کے ساتھ مل کر جہاں کاشتکاروں کو بلاضرورت اور قبل ازوقت سپرے کرنے سے روکے رکھا وہیں انہوں نے کیمیائی زرعی ادویات کے بجائے جہاں آغاز میں ضرورت محسوس کی وہاں بائیو پیسٹے سائیڈز کے استعمال سے کام چلانے کی ترغیب دی۔ میں ذاتی طورپر کوڑتمے وغیرہ کے سپرے کی افادیت اور اثر پذیری کے بارے میں زیادہ آگاہ تو نہیں اور مجھے اس طریقہ کار سے شاید زیادہ اتفاق بھی نہیں ہے؛ تاہم سیکرٹری زراعت اور محکمہ زراعت کا یہ نسخہ بہرحال موجودہ صورتحال میں تو کام کرگیا۔ رات اور دن کے درجہ حرارت میں پیدا ہونے والے فرق اور مسلسل چلنے والی ہوا کے طفیل پیسٹ پریشر نہ ہونے کے برابر تھا اور فروٹنگ بھرپور ہوئی۔ شیڈنگ نہ ہونے کے طفیل ساری فروٹنگ ٹینڈے میں اور پھر کپاس میں تبدیل ہوگئی۔ شکر الحمدللہ کہ یہ سال کپاس کی فصل کیلئے ایک نئی امید اور نئی صبح لے کر آیا۔ اللہ میری خوش گمانی پوری کرے۔ ویسے تو ہمارے وزیر سید فخر امام کا خیال ہے کہ ملکی روئی کی پیداوار چوراسی لاکھ گانٹھ ہوگی مگر فی ایکڑ بیس من کپاس اور اس میں سے چودہ کلو فی من روئی کے کن کے ساتھ فی ایکڑ دو سو اسی کلو روئی حاصل ہوگی۔ ایک سو ستر کلوگرام فی گانٹھ کی اوسط کے حساب سے پینتالیس لاکھ ایکڑ سے چوہتر لاکھ گانٹھ پیدا ہوگی تاہم میرا اندازہ ہے کہ یہ پیداوار بہرحال ان شا اللہ اسی لاکھ گانٹھ تو ہو ہی جائے گی۔
اگر کپاس کی پیداوار بیس من فی ایکڑ سے زیادہ ہو جائے اور اس کی قیمت چھ ہزار روپے من ملے تو کاشتکار کو فی ایکڑ ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے زیادہ آمدنی ہوگی۔ ایسی صورت میں خرچہ نکال کر اسے مناسب پیسے بچ جائیں گے اور یہ فصل معاشی لحاظ سے قابل کاشت بن جائے گی۔ کپاس کا موازنہ اگر مکئی کی حالیہ صورتحال سے کیا جائے توکپاس کی نسبت مکئی دوفصلوں کے باعث بہت زیادہ منافع بخش فصل ہے؛ تاہم کپاس سے محبت کرنے والے کاشتکار نسبتاً کم منافع پربھی شاید کپاس کاشت کرنے پر تیار ہوجائیں لیکن نفع ہونا تو چاہیے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ زرعی سائنسدان کم دورانیے کی یعنی Short window والی کپاس کی ورائٹی کا بیج ڈویلپ کریں اور دوسرا اہم کام یہ ہے کہ سرکار پیداواری مداخل کی قیمتوں کو کنٹرول کرے‘ بصورت دیگر پیداواری لاگت کے بڑھ جانے سے فصلات اچھے ریٹ کے باوجود منافع بخش نہیں رہتیں۔ کاشتکاری پیشہ ہے اور لوگوں کا ذریعہ آمدنی ہے۔ اگر اس میں چار پیسے نہ بچیں تو کاشتکار محض مل مالکان اور سرکار کی آسانی کیلئے غیر نفع بخش فصل کاشت نہیں کرے گا۔
اللہ سے امید ہے کہ اس سال ملکی ضروریات کیلئے گزشتہ سال کی نسبت چالیس فیصد کم روئی درآمد کرنا پڑے گی۔ اگر سرکار زرعی اشیا کی درآمد پر خرچ ہونے والی رقم غیرملکی کاشتکاروں کی جیب میں ڈالنے کے بجائے پاکستانی کاشتکار کی جیب میں ڈالے تو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے اور ملکی زراعت کو ترقی بھی دی جا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved